187

کراچی یونیورسٹی میں خاتون خودکش حملہ آور کون تھیں اور پاکستان میں خواتین خودکش حملہ آوروں کی تاریخ کیا ہے؟

کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ کراچی سی ٹی ڈی کے انچارج راجا عمر خطاب نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’منگل کو ہونے والا دھماکہ خودکش تھا اور یہ ایک خاتون نے کیا۔’
اس حملے کی ذمہ داری بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تنظیم کی جانب سے خاتون خودکش حملہ آور کا استعمال کیا گیا۔’
کراچی یونیورسٹی حملے میں ملوث خاتون خودکش حملہ آور کون تھیں؟
کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے والی خودکش حملہ آور خاتون شاری بلوچ عرف برمش تھیں۔
خودکش حملہ آور خاتون کے حوالے سے ان کے رشتہ دار اور اہل خانہ کے ذریعے حاصل ابتدائی معلومات کے مطابق ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے نظر آباد سے تھا۔ خود کش حملہ آور خاتون نے سنہ 2014 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تعلیم مکمل کی جبکہ 2015 میں بلوچستان یونیورسٹی سے زولوجی میں ایم ایس سی کر رکھی تھی۔
وہ بلوچستان کے ضلع تربت ہی میں شعبہ تعلیم سے بھی وابستہ تھیں اور گورنمنٹ گرلز مڈل سکول کلاتک میں استاد کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔
کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق خاتون خود کش حملہ آور کا نام شاری بلوچ عرف برمش تھا اور ان کے شوہر ڈاکٹر ہیبتان بشیر بلوچ ایک ڈینٹسٹ ہیں۔ شاری بلوچ دو بچوں کی ماں تھیں۔ ان کے دونوں بچے تقریباً پانچ سال تک کی عمر کے ہیں۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ شاری بلوچ چار بہنیں اور تین بھائی ہیں اور سب ہی تعلیم یافتہ ہیں۔
کالعدم تنظیم بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن بی ایس او آزاد کے ایک رکن نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شاری بلوچ تنظیم کی جانب سے منعقدہ احتجاجی مظاہروں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیتی تھیں۔ مگر ان کے پاس کسی تنظیم کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔
بلوچستان لبریشن آرمی کے مطابق شاری بلوچ گذشتہ دو برسوں سے ان کے مجید بریگیڈ کا حصہ تھیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی کا دعویٰ ہے مجید بریگیڈ میں اس وقت کثیر تعداد میں بلوچ خواتین فدائین شامل ہیں۔
شاری بلوچ کے رشتہ دار نے بتایا کہ شاری کے خاندان میں کوئی بھی شخص جبری گمشدگی یا سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوا لہذا یہ تاثر کہ انھوں نے ایسا کسی ذاتی بدلے کے لیے کیا درست نہیں۔
شاری بلوچ کے رشتہ دار اور اہل علاقہ کے مطابق ان کے خاندان کے دیگر افراد مختلف سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ جن میں ان کے والد اور بھائی شامل ہیں۔
کالعدم تنظیم بی ایل اے کے مطابق شاری بلوچ چھ ماہ پہلے بلوچستان کے علاقے کیچ سے کراچی منتقل ہوئی اور ڈیڑھ ماہ پہلے بہن کی شادی میں شرکت کے لیے کیچ گئی تھیں۔
واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش حملے میں سرکاری طور پر ایک خاتون حملہ آور کی شناخت کی گئی ہے تاہم سکیورٹی اداروں کی جانب سے اب تک کی تحقیقات میں اس حملے میں شاری بلوچ کا نام نہیں لیا گیا۔
تمام معلومات کالعدم تنظیم بی ایل اے، شاری بلوچ کے رشتہ داروں اور مقامی افراد سے حاصل کردہ ہیں تاحال سرکاری طور پر ان معلومات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
انسداد دہشتگری کے ماہر اور کتاب میکنگ آف ہیومن بومز ( انسانی بموں کی تیاری) کے مصنف ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے شدت پسند تنظیموں کی جانب سے خواتین خودکش حملہ آوروں کو اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ٹارگٹ کے قریب ترین جا کر زیادہ تباہی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

‘پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کے پردے کا احترام کرتے ہوئے ان کی زیادہ تلاشی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے یہ خواتین حملہ آور نہ صرف اپنے کپڑوں میں دھماکہ خیز مواد چھپانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں بلکہ اکثر سکیورٹی چیک پوئنٹس سے بغیر تلاشی بھی گزر جاتی ہیں۔’

ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ خاتون حملہ آور کو استعمال کرنے کا مقصد اپنی تنظیم اور اس کے نظریہ کی تشہیر کرنا بھی ہے کیونکہ جب بھی خاتون حملہ آور خود کش حملہ کرتی ہیں تو میڈیا میں اسے زیادہ کوریج دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر خرم کا کہنا ہے کہ ‘اس کے ساتھ ساتھ شدت پسند گروہ یہ بھی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب خواتین نے بھی ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔’

‘اگرچہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں جیسا کہ القاعدہ یا طالبان نے کبھی کھل کر اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ انھوں نے اپنی کاروائیوں میں خواتین خود کش حملہ آوروں کا استعمال کیا گیا ہے لیکن انھوں نے پاکستان سمیت دنیا کے متعدد مملک میں خواتین کو اس کام کے لیے بھرتی کیا۔’

ڈاکٹر خرم کے مطابق اگر شدت پسندی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو سیکولر شدت پسند تنظیموں نے اپنی کارروائیوں میں خواتین کا استعمال زیادہ کیا اور کھل کر اس کی تشہیر بھی کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں