197

ڈونلڈ لو: عمران خان کی حکومت کو مبینہ ’دھمکی‘ دینے والے امریکی سفارتکار جنھیں اُردو اور ہندی پر عبور حاصل ہے

پاکستان میں قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے بعد ملک ایک آئینی بحران کا شکار ہے۔ موجودہ صورتحال میں بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، خصوصاً یہ کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سیاسی غیر یقینی کا آغاز اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک الزام عائد کرنے سے ہوا۔ اس الزام کے مطابق ایک ’امریکی سازش‘ کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش کے ’مرکزی کردار‘ امریکہ کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو ہیں۔
اس سے پہلے کہ اس مبینہ ’سازش‘ کے مرکزی کردار پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، ایک جائزہ اس مبینہ ’سازش‘ کی تفصیلات پر ڈالتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران الزام عائد کیا کہ ایک ملک کی جانب سے حکومت پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے اور حکومت ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
جلسے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک اور تقریر میں دعویٰ کیا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر سے کہا کہ ’اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دیں گے۔‘
عمران خان کا اصرار ہے کہ ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد ان کی حکومت کو ہٹانا تھا لہٰذا انھوں نے خود ہی اسمبلی تحلیل کر کے قبل از وقت الیکشن کا اعلان کر دیا۔
تاہم امریکی دفتر خارجہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔
ڈونلڈ لو کون ہیں؟
ڈونلڈ لو جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی دفتر خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں اور انھیں امریکہ کے لیے بطور سفارتکار خدمات انجام دیتے ہوئے 30 سال سے زائد ہو چکے ہیں۔
ڈونلڈ لو پاکستان سمیت انڈیا، آذربائیجان، کرغزستان اور متعدد افریقی ممالک میں قائم امریکی سفارت خانوں میں مختلف پوزیشنز پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور انھیں کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے جن میں اُردو، ہندی اور روسی زبانیں شامل ہیں۔
ایشیائی نژاد امریکی ڈونلڈ لو امریکہ کی ریاست ہوائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ لو کے والد کا تعلق چین کے شہر شنگھائی سے تھا جنھوں نے تائیوان سے امریکہ نقل مکانی کی اور ہوائی سے تعلق رکھنے والی خاتون سے شادی کی۔
ڈونلڈ لو کے مطابق ایشیائی امریکی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ انھیں چینی شہری سمجھتے ہیں لیکن انھیں چینی زبان بالکل نہیں آتی۔
اگرچہ ڈونلڈ لو نے بہترین امریکی یونیورسٹیز میں سے ایک پرنسٹن سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچیلرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں لیکن جب انھوں نے محکمہ خارجہ میں شمولیت کے لیے پہلی مرتبہ امتحان دیا تو وہ فیل ہو گئے تھے۔
ایشیائی امریکی اقلیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے انھیں رعائتی نمبر دیے گئے تاکہ وہ انٹرویو دے سکیں مگر انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور افریقہ کے ملک سیرا لیون میں امن دستے میں بطور رضاکار کام کرنے لگے۔
ڈونلڈ لو نے امریکی محکمہ خارجہ میں بطور انٹرن شمولیت اختیار کی اور بعد میں کمیشن حاصل کیا۔
ڈونلڈ لو سنہ 1992 سے سنہ 1994 کے دوران پاکستان کے شہر پشاور میں امریکی قونصل خانے میں بطور پولیٹیکل آفیسر بھی تعینات رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اہلیہ ایریل سے اُن کی پہلی ملاقات بھی پشاور میں ہی ہوئی تھی، جو اس وقت وہاں بطور ایڈ ورکر کام کرتی تھیں۔
ڈونلڈ لو نے دو مرتبہ انڈیا میں بھی سفارتی ذمہ داریاں ادا کیں جس کی وجہ سے وہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کو سمجھتے ہیں اور خطے کی سیاسی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں۔
ڈونلڈ لو کے ساتھ کام کرنے والے انھیں ایک ’پروفیشنل سفیر‘ اور ایک ’شفیق انسان‘ کی طور پر دیکھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سفارت خانے میں تعینات ہونے والے ہر نئے افسر کے لیے وہ اپنے ہاتھ سے کوکیز یعنی بسکٹ بناتے ہیں۔
ڈونلڈ لو ان چند امریکی سفیروں میں سے ہیں جو میڈیا کے سامنے آنے سے نہیں کتراتے۔ جب وہ البانیہ میں سفیر تھے تو انھوں نے مقامی میڈیا کے متعدد چینلز کو انٹرویو دیے تھے۔
ڈانلڈ لو اور عمران خان میں کیا قدر مشترک ہے؟
ڈونلڈ لو کو جب بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سنہ 2021 میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری نامزد کیا گیا تو انھوں نے اس عزم کا ارادہ کیا وہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ’پاکستان میں انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کو فروغ دے سکیں۔‘
ایک بات جو عمران خان اور ڈونلڈ لو میں قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان (ڈونلڈ لو) کے مطابق وہ اپنے کیرئیر کے آغاز سے ہی کرپشن کے خلاف کافی متحرک رہے اور اس کے خاتمے کے لیے ہمیشہ آواز بلند کی۔
اپنے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ لو نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کے کیرئیر میں سب سے مشکل مشن آذربائیجان رہا جس کی وجہ وہاں کے حکمران کی جانب سے جمہوری اقدار کا احترام نہ کرنا تھا۔
سنہ 2009 میں وکی لیکس میں سامنے آنے والی کیبلز میں وہ آذربائیجان کے صدر کو ان کے آمرانہ طرز حکومت پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے سامنے آئے۔
ایک انٹرویو میں جب ڈونلڈ لو سے سوال کیا گیا کہ بطور سفیر ان کا طرز عمل کیسا ہوتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے دو سینیئر افسران سے بہت سیکھا، ایک نینسی پاول جن سے انھوں نے لوگوں سے شفقت سے پیش آنا سیکھا اور دوسری ماری یووینوویچ جنھوں نے انھیں سکھایا کہ اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے تو جائیں۔
ڈونلڈ لو کے خلاف دھمکی آمیز رویے کے الزامات
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی دوسرے ملک سے سفارتی رابطے کے دوران ڈونلڈ لو پر سخت اور دھمکی آمیز الفاظ کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہو۔
رواں سال فروری میں نیپال اور امریکہ کے درمیان طے شدہ ایک انفراسٹرکچر معاہدے کی نیپال کی پارلیمان میں توثیق کے معاملے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور مقامی شہریوں کی جانب سے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا۔
احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے خیال میں اس معاہدے سے نیپال میں امریکی فوجی موجوگی کی راہ ہموار ہو گی۔
عوامی احتجاج کی وجہ سے جب نیپال کی پارلیمان کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق میں کچھ تاخیر ہوئی تو نیپالی اخبارات میں ان دعوؤں پر مبنی خبریں شائع ہوئیں کہ ڈونلڈ لو نے نیپالی رہنما کو ایک فون کال کے دوران یہ دھمکی دی کہ اگر نیپال کی پارلیمان نے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی گئی تو انھیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ امریکہ نیپال تعلقات پر اثر انداز ہو گا۔
تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور اس کے کچھ عرصے بعد ہی نیپال کی پارلیمان کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق کر دی گئی۔
اور اب پاکستان کی حکومت کی جانب سے ڈونلڈ لو پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے پاکستان کے امریکہ میں سفیر سے ملاقات کے دوران نہایت سخت الفاظ کا استعمال کیا جو عموماً سفارت کاری کے دوران دیکھنے میں نہیں آتا۔
لیکن یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ امریکی سفارت کاروں کا پاکستان رہنماؤں کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنے کا یہ پہلا واقع نہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی الزام عائد کیا کہ اس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ آرمیٹیج نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ان کا ساتھ نہ دیا تو وہ پاکستان پر بمباری کر کے اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔
ڈونلڈ لو نے عمران خان کی جانب سے اپنے اوپر لگنے والے بیان کا جواب تو نہیں دیا البتہ امریکی دفتر خارجہ متعدد بار ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔
اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر سے ملاقات سات مارچ کو کی تھی، جس میں مبینہ طور پر انھوں نے عمران خان کی جانب سے روس کے دورے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے متعلق مبینہ متنازع بیان دیا۔ لیکن اس کے دس دن بعد ہی پاکستان میں امریکہ میں پاکستان کے سفارت خانے نے انھیں 17 مارچ کو خواتین لیڈز سے متعلق پروگرام میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔
اگر ڈونلڈ لو کی جانب سے پاکستان کے رہنما کے خلاف دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے گئے تھے تو کیا پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے انھیں کچھ ہی دن بعد بطور مہمان خصوصی مدعو کرنا درست اقدام تھا؟ یہ ان بہت سے سوالات میں سے ایک جن کے جوابات اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں