dr mujahid mansoori 204

پی ٹی آئی الرٹ الیکشن.ڈاکٹرمجاہدمنصوری

ملک بھر میں 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218 وارڈز میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے پی ٹی آئی کو الرٹ کرنے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔

اب تک گورننس کے مایوس کن معاملات سے یہ پہلے ہی کافی واضح ہو گیا ہے کہ تحریک انصاف کو الرٹ ہونا آتا ہی نہیں، آئی تو یہ اسٹیٹس کو ختم کرکے ’’تبدیلی ‘‘ برپا کرنے کی یقین دہانی پر، لیکن حکمرانی کے تین سال نے بتایا کہ تحریک انصاف کا اپنا ہی اسٹیٹس کو ہے، جو عشروں سے ملک پر مسلط اسٹیٹس کو سے کم نہیں ۔

ہمارے میڈیا پر حکومتی مقبولیت و عدم مقبولیت کی بحث و تمحیص تو جاری رہتی ہے لیکن بہم الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹر بھی عوام میں حکومتی مقبولیت کے اتار چڑھائو کی آگاہی دیتے رہتے ہیں جس سے اشیاء ضروریہ کی بے قابو ’’مہنگائی‘‘ حکومت وقت کی گرتی مقبولیت کو مکمل واضح کر چکی ہے ۔

ملک گیر بلدیاتی انتخاب حکومتی مقبولیت اور مقابل اپوزیشن جماعتوں کی پوزیشن سائنٹیفک حد تک واضح ہو سکتی ہے، لیکن بلدیاتی نظام کو جامد رکھنے کا اسٹیٹس کو بدستور قائم ہے،عدالتی احکامات پر آئینی تقاضے پورے کرنے کے لئے جو بلدیاتی ادارے بذریعہ انتخاب نیم جاں کیفیت میں بحال ہوئے تھے وہ بلدیاتی نظام سے صوبائی حکومتوں کے حربوں سے عوام کو کوئی نتائج دیئے بغیر اختیارات کے لئے دھینگا مشتی کرتے، اپنی آئینی مدت پوری کرتے ختم ہوگئے ۔پھر انتخاب ہوئے نہیں۔

نہ کو ئی عدالت گیا اب جو یہ ملک بھر کے 41کنٹونمنٹ بورڈز کے 218وارڈز (رہائشی علاقوں میں ) انتخاب ہوا ہے اس میں اگرچہ بحیثیت مجموعی تحریک انصاف ہی پہلے نمبر پر آئی ہے ، لیکن اس کی حریف اول ن لیگ صرف 3ووٹوں کے فرق سے دوسرے نمبر پر ہے ۔

فرق صاف ظاہر ہے کہ بس خالصتاً شہری علاقوں میں مجموعی فرق بس انیس بیس کا ہی ہے ۔پی ٹی آئی نے جھٹکا محسوس کیا یا نہیں لیکن نتیجہ اس کے لئے شاکنگ ہی ہے ۔

یہ بھی واضح رہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود میں رہائشی علاقوں کا بڑا فیصد سول آبادی پر ہی مشتمل ہوتا ہے اگرچہ آج کے قومی اخبارات نے نتائج کی خبر دیتے ہوئے تحریک انصاف کے نمبر ون کی شہ سرخیاں لگاتے ہوئے حکومت وقت کے حوصلے کا ساماں کیا ہے لیکن ان نتائج کا سیاسی شماریاتی تجزیہ حکومتی جماعت اور سب سے بڑی ملکی پارلیمانی قوت کےلئے فکرمندی سے پر ہے، جو شہری علاقوں کے ملک گیر رجحان کاپتہ دے رہا ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز میں آبادی کے خدوخال امیر، متوسط، لوئر مڈل کلاس سے غریب ووٹرز پر ہی مشتمل ہیں جیسا کہ ان رہائشی علاقوں میں ایک اچھا خاصا طبقہ لوئر مدل کلاس اور غرباء کا بھی ہے ۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جڑیں ملکی شہری آبادیوں میں ہی گہری ہوئیں عمران خان کی 22سالہ سیاسی جدوجہد میں انہوں نے پھیلتے پھیلتے دیہات کے تعلیم یافتہ خصوصاًجواں سال طبقے کو بھی اپنا حامی بنایا لیکن اصل جڑیں اب بھی شہر میں ہی ہیں ان میں تحریک انصاف مقبول ہو گئی تو دیہات میں بھی اس کا اثر قائم رہ سکے گا اور بڑھے گا بھی ۔

لیکن زیر بحث انتخابی نتائج نے برسر اقتدار تحریک انصاف کو انتباہ کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالے، وہ لوگ جنہوں نے بمشکل قائل ہو کر اور بتدریج اضافے کے بعد اسے اقتدار کے قابل بنایا ان کی تعداد گر گئی ہے۔

ماہرین شماریات اس کی مکمل قابل یقین تصویر خان صاحب کو دکھا سکتے ہیں ویسے عمومی صحافتی تجزیوں سے بھی یہ ثابت کرنا مشکل نہیں الیکشن 18میں پی پی کی غیر متوقع حد تک بڑی کامیابی اس کا کراچی شہر کی سب سے بڑی منتخب پارلیمانی قوت بننا تھا، جس نے ایم کیو ایم کے عشروں کے جادو بلکہ کالے جادو کو کافور کر دیا۔

کراچی کے عاقل اور بالغ ووٹروں کی بھاری اکثریت نے غیر ذمے دار قیادت کی عقیدت میں غرق ہو کر شہر کے اسٹیٹس کو جیسے ناقابل تسخیر بنا دیا تھا انہوں نے عمران کو وووٹ دے کر کفارہ تو ادا کیا امر واقعہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے کراچی سے جو پارلیمانی لاٹ پارلیمان کو دی وہ بحیثیت مجموعی شہر کی تاریخی سیاسی و پارلیمانی سکت سے بالکل میچ ہی نہیں کرتی۔

جو دو تین دانے تھے ان سے کام ہی نہ لینا آیا لاہور بلاشبہ ن لیگ کاگڑھ سے قلعہ بن چکا تھا جس کی فصیل میں 13میں سے دو نشستیں لیکر دراڑ تو ڈال دی تھی کچھ پر مقابلہ سخت ہوا کنٹونمنٹ بورڈز کے گزشتہ روز کے انتخاب نے واضح کر دیا کہ لاہور میں ن لیگ کا قلعہ قائم ہے جہاں 19میں سے 15وارڈز میں ن لیگ ،3میں پی ٹی آئی اور ایک میں آزاد نے برتری حاصل کی۔

55نشستیں آزاد امیدواروں کو ملنا، حکومت، اپوزیشن اور دوسری جماعتوں سے بھی ووٹرز کی بیزاری کو واضح کر رہا ہے، یہ اپوزیشن سے زیادہ پی ٹی آئی کی بڑی ناکامی ہے کیونکہ وہ انہیں اپنے اختیار و اقتدار سے اپنا تائیدی بنانے کی پوزیشن میں تین سال سے ہے ۔

عوام کو اس لئے نہیں کوسا جاسکتا کہ وہ لٹاخالی خزانہ بھرنے اور قرضے اتارنے کا موقع نہیں دے رہے ۔

مہنگائی کے مسلسل رونے دھونے کے باوجود عوام یہ موقع دیتے ہوئے احتجاجی نہیں ہوئے نہ مولانا فضل الرحمن، مریم اوربلاول انہیں قائل یا مائل کر سکے۔ حکومت کو اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا اس کی صلاحیت بھی وقت نے بتایا ،پی ٹی آئی میں کم تر ہے جن گھمبیر عوامی مسائل کا تعلق قومی سطح کی اقتصادی حالت سے نہیں بلکہ ایٹ لارج انتظامی صلاحیتوں پولیٹکل ول اور اسٹریٹ وژڈم سے تھا ان میں 3سال میں تو پی ٹی آئی کی کارکردگی مایوس کن رہی۔

اب بھی وزیر اعظم تقاریب میں بتاتے ہیں کہ دو کروڑ اسکول ایج کے بچے اسکولوں سے باہر ہیں ان کی رجسٹریشن ہو کر ان کے والدین سے رابطے ضابطے کی کوئی صورت نہ بنائی جا سکی۔صورتحال کی پیچیدگی یہ ہے کہ پاکستان کے اقتصادی (او رکرپشن فری ) استحکام و نظام کے تمام مواقع ملکی سرحدوں ، خارجی امور کی کوالٹی اور قبولیت سے جڑ گئے ہیں ۔

ناگزیر حد تک عمران خان کی ملک کو ضرورت بھی ہے مقابل اپوزیشن نا صرف اس میں مکمل آزمودہ اور خالی ہے دنیا کو بھی قبول نہیں بڑا ثبوت دو مکمل ادوار میں پارلیمان کی خارجہ پالیسی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن رہے ۔

ادھوری عمرانی قیادت کی خوبیوں سے ہمارا سفارتی ، خارجی اور امن و سلامتی کا محاذ بہرحال بہت مستحکم اور باوقار ہوا ہے اگر پی ٹی آئی متذکرہ مسائل کے لئے اصلاحات کا قابلِ عمل پیکیج لاکر اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں ناکام رہی تو پھر اپنی خیر منائے ۔

ن لیگ دور میں وزارت خارجہ کو جس طرح بند کرکے تماشہ بنایا گیا تھا اس کا پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور آگے بھی کوئی امید نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں