417

پٹرولیم :امریکہ سعودیہ تنازع

حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ دنیا کی معیشت آناً فاناً ہی زمیں بوس ہو گئی ہو۔ معیشت کی اس بدترین مندی کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ امریکی تیل کی قیمتیں پہلی بار منفی 39.37ڈالر فی بیرل کی سطح پر چلی گئیں اور وال اسٹریٹ تلپٹ ہو کر رہ گئی۔ اِن حالات میں اگر وہ اپنے دہائیوں پرانے اتحادی سعودیہ کو تیل کی پیداوار اور سپلائی کم نہ کرنے پر اپنی فوجیں واپس بلانے کی دھمکیاں دینے پر اُتر آیا تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ نہ امریکہ ایسا کرے گا اور نہ ایسا کرنے کی حکمت عملی رکھتا ہے۔ وہ تیل کی قیمتوں پر سعودیہ اور روس کی محاذ آرائی بھی اسی لئے ختم کروانا چاہتا ہے کہ اس کے اپنے تیل کی صنعت تباہی سے بچ سکے اور اپنے مفادات کے لئے منہ زوری، دھونس دھمکی حتیٰ کہ برسوں پرانے اتحادی تک تبدیل کر لینا امریکہ کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ ٹرمپ جو اس وقت تیل کی پیداوار کم کرنے پر زور دے رہے ہیں، ماضی قریب میں بھی اس کی پیداوار کم کر کے اس کی قیمتیں بڑھانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب کو امریکہ نے صاف معنوں میں ’’پیغام‘‘ دیا ہے کہ ہم اپنی صنعت کا دفاع کر رہے ہیں جبکہ آپ اسے تباہ کر رہے ہیں۔ 12اپریل کو ٹرمپ کے دبائو کے نتیجے میں عالمی سطح پر پیداوار میں 10فیصد کمی کے باوجود دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں گرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت امریکہ کے تین ہزار فوجی سعودی عرب کے مختلف اڈوں پر موجود ہیں۔ 1945میں امریکہ اور سعودیہ کے مابین ہونے والے معاہدے سے سعودیہ کو کوئی فائدہ تو شاید ہی ہوا ہو نقصان البتہ ضرور ہوا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودیہ اپنے چند فیصلوں میں خود مختار نظر نہیں آتا۔ معاشی تنزلی پر اگر یونہی تائو دکھانے کا سلسلہ جاری رہا تو حالات مزید بگڑیں گے، دنیا بھر کو کورونا اور اس کے باعث معاشی بحران سے نبرد آزما ہونے کیلئے مل کر جامع حکمتِ عملی اختیار کرنا پڑے گی، اس میں سب کی بھلائی ہے۔