106

پوتن اور طیب اردوغان مذاکرات کے لیے تہران پہنچ گئے

پوتن اور طیب اردوغان مذاکرات کے لیے تہران پہنچ گئے
روس، ترکی اور ایران کے رہنما منگل کے روز ایران کے دارالحکومت تہران میں سہہ فریقی مذاکرات کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں جہاں ترکی کی جانب سے شمالی شام کے علاقوں میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن، بحیرہ اسود میں یوکرین کی بندرگاہوں سے اجناس کی برآمد کے لیے راہداری کے ممکنہ معاہدے پر بات چیت متوقع ہے۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اسرائیل اور سعودی عرب کے دورے کے چند روز بعد روسی رہنما ایران پہنچ رہے ہیں جس کا مقصد مغربی ممالک کو یہ پیغام دینا ہے کہ ماسکو ، ایران، چین اور انڈیا کے ساتھ مضبوط سٹریٹیجک تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ایران کی مذہبی قیادت امریکہ کی حمایت سے مشرق وسطیٰ میں ممکنہ عرب اسرائیل بلاک کے مقابلے میں روس کے ساتھ اپنے سٹریٹیجک تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
ایک ایرانی اہلکار نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ یوکرین کی جنگ کے بعد عالمی سیاست جو رخ اختیار کر رہی ہے، ایران امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ ج
ھگڑے کی صورت میں روس کا تعاون حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے دورے کے دوران روسی صدر ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے منگل کے روز ایران کے روحانی پیشوا سے ملاقات کی ہے جس میں ایرانی رہنما نے ترک صدر کو شام میں فوجی کارروائی سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے ترک صدر کو بتایا کہ شام میں ترکی کی فوجی کارروائی خطے میں امن کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گی اور ترکی کو شام میں دہشتگردی کے معاملے پر شام، اور روس سے بات چیت کر کے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔
ترکی کے حکام دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ترکی اپنی سرحد کے ساتھ 30 کلو میٹر تک سیف زون بنانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر سکتا ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے دو بڑے حامی، روس اور ایران شام میں ترکی کے فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ایران کے روحانی پیشوا نے صدر اردوغان کے ساتھ ملاقات میں کہا:” کہ شام کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور شمالی شام میں کسی قسم کا ملٹری آپریشن ترکی ، شام اور تمام خطے کے لیے نقصان دہ ہو گا اور صرف دہشتگردوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔”

یوکرین کی گندم کو برآمد کرنے کے حوالے سے معاہدہ پر بھی بات چیت متوقع ہے۔ ترکی روس اور یوکرین کے مابین بحیرہ اسود میں یوکرینی بندرگاہوں جنھیں روس کی نیوی نے بلاک کر رکھا ہے، وہاں سے گندم کی برآمدات کو ممکن بنانے کے لیے سمجھوتہ کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جب صدر پوتن ترک صدر رجب طیب اردوغان سے ملاقات کر رہے ہوں گے تو یہ ان کی یوکرین پر حملے کے بعد نیٹو اتحاد کے کسی ممبر ملک کے سربراہ سے پہلی ملاقات ہو گی۔
صدر پوتن ایران کے دورے کے دوان ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کریں گے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد ان کی سابق سوویت ریاستوں کے سربراہوں کے علاوہ پہلے بیرونی لیڈر سے ملاقات ہو گی۔

روس اور ایران کو مغربی ممالک کی سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔
صدر پوتن کے ایران کے دورے پر پہنچنے سے پہلے روسی تیل کمپنی گیزپرام اور ایران کی نیشنل ایرانین آئل کمپنی کے مابین چالیس ارب ڈالر کی گیس اور پیٹرول کی خریداری کے معاہدے کی یاداشت پر دستخط ہوئےہیں۔

صدر پوتن کے امور خارجہ کے مشیر یوری اسکوف نے ماسکو میں رپورٹروں کو بتایا کہ آیت خامنہ ای سے ملاقات بہت اہم ہے۔ ’دو طرفہ تعلقات اور عالمی امور پر دونوں ملکوں کے مابین ایک قابل اعتبار مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ بہت سے معاملات پر ہماری پوزیشن یکساں ہے۔‘

ستر سالہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کووڈ کی وبا کے پھوٹنے کے بعد بہت کم بیرونی ممالک کے دورے کیے اور انہوں سابق سوویت ریاستوں کے علاوہ رواں برس فروری میں چین کا دورہ کیا تھا۔
ماضی میں روس، ایران کو ترکی کے رہنما شام کے حوالے سے آستانہ امن معاہدے کے تحت ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔
روس کے صدر کی ترک صدر کے ساتھ ملاقات کا محور یوکرین سے گندم کو برآمد کرنے کے لیے ہونے والے ممکنہ معاہدہ ہو گا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ یوکرین کی گندم کو برآمد کرنے کے حوالے سے روس، یوکرین، ترکی اور اقوام متحدہ میں ایک معاہدہ طے پا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں