لاہور: بھکاری بچوں کے خلاف وارننگ آپریشن شروع 434

پرائیویٹ سیکٹر۔ حکومت کی طرح بے بصیرت کیوں؟

آپ میں سے جو میرے ہم عمر ہیں وہ تو لاک ڈائون کی بیابانی، وحشت اور بےیقینی زندگی کی ساری رنگینیاں، محفل آرائیاں لوٹنے کے بعد دیکھ رہے ہیں مگر ہمارے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں تو عین اپنی نوخیزی اور عنفوانِ شباب میں خانہ محصوری، تنہائی اور لاتعلقی کے تجربے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اگر یہ فیس بک، کمپیوٹر، آئی پیڈ، ٹیبلٹ نہ ہوتے تو یہ جوان طاقت حشر ڈھا دیتی مگر یہ تو تلخ حقیقت ہے کہ ان کا تعلیمی سفر رُک گیا ہے۔ تمنّائوں اور امنگوں کو زنجیریں پہنادی گئی ہیں۔ یہ ان کے ہوائوں میں اڑنے کے دن تھے، وہ گھروں میں بند ہیں۔

کمبوڈیا سے کینیڈا تک شاہراہیں سنسان، بازار سُونے، عبادت گاہیں مقفل کروا دینے، 38لاکھ سے زیادہ جیتے جاگتے انسانوں کو بستر کے سپرد کردینے۔ اڑھائی لاکھ سے زیادہ اشرف المخلوقات کو موت کی وادی میں دھکیلنے والی وبا ہمارے ہاں اُسی مرکز صوبے کی روایتی لڑائی کا عنوان بنی ہوئی ہے۔ پریشان حال، مستقبل سے ناامید پاکستانی عوام حیرت سے کبھی عمران خان کبھی بلاول کو دیکھتے ہیں۔ ہماری قیادتیں بصیرت سے عاری کیوں ہیں۔ عمران خان کے ہاتھوں میں 22کروڑ آبادی اور انتہائی حساس محل وقوع رکھنے والے ملک کی قیادت ہے مگر وہ صرف ٹی وی کے اینکر پرسن بنے ہوئے ہیں۔ وفاقی صوبائی زعما کے بیانات سے احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس خطرناک وبا کی ہمہ گیری اور اثر خیزی کا ادراک رکھتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کی میعاد تو اس کی نذر ہو ہی رہی ہے، آئندہ دو انتخابی میعادوں کی حکومتیں بھی اسی میں الجھی رہیں گی۔

حکومت کی کارکردگی میں بےبصیرتی تو اپنی جگہ لیکن ہمارے ہاں پرائیویٹ سیکٹر بھی بانجھ پن کا شکار ہے۔ سب سے زیادہ متاثر معیشت ہورہی ہے۔ سیاحت، سفر، ہوٹل کی صنعت تو بالکل بیٹھ گئی ہے۔ خزانہ، تعلیم، صنعت، پیٹرولیم، تجارت، بینکنگ، ٹرانسپورٹ بھی بری طرح مفلوج ہو گئے ہیں۔ کیا تاجروں، صنعت کاروں کی نمائندہ فیڈریشن یا مختلف شہروں کی چیمبرز نے اب تک کوئی رپورٹ جاری کی جس میں اب تک کے نقصانات کا جائزہ اور آئندہ ممکنہ نشیب و فراز بتائے گئے ہوں۔ سرکاری محکمے تو آمر حکومتوں اور سیاسی حکمرانوں کی مداخلتوں سے ناکارہ ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ہاں یونیورسٹیاں بڑی تعداد میں ہیں جن میں عام جامعات بھی ہیں، بزنس ایجوکیشن والی بھی، میڈیکل یونیورسٹیاں بھی ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی پڑھانے والی بھی۔ کیا ان میں سے کسی نے کوئی تحقیقی رپورٹ جاری کی۔ ملک میں اقتصادیات، عمرانیات، سماجیات، نباتات، حیوانات، حیاتیات کے بڑے مسلّمہ ماہرین موجود ہیں۔ وہ اپنے طور پر اپنا غیرجانبدارانہ تجزیہ جاری کر سکتے ہیں۔ ہمارے میڈیا میں تو صرف لمحہ موجود میں ہنگامہ برپا رکھنے کی صلاحیت ہے کیونکہ یہی سوچ ہے کہ وفاقی وزرا اور صوبائی وزرا کی دو بدو لڑائی دکھائیں تو ریٹنگ ملتی ہے اور آمدنی بڑھتی ہے۔ یہ ماہرین اپنے طور پر سوشل میڈیا میں یہ رپورٹیں جاری کر سکتے ہیں۔

میں ان دنوں امریکی تھنک ٹینکوں بالخصوص بروکنگز کی جامع رپورٹیں دیکھ رہا ہوں۔ وہ صرف امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں آئندہ مہینوں اور برسوں کے امکانات کا تجزیہ پیش کرتے ہیں جس سے یقیناً حکمرانوں کو بھی رہنمائی ملتی ہے۔ لاک ڈائون کو وزیراعظم نے پہلے دن سے دہاڑی دار پاکستانیوں سے جوڑ کر ایک خدشاتی بحران پیدا کر رکھا ہے حالانکہ اس سلسلے میں ہم چین سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ لاک ڈائون میں نرمی کے خطرناک تنائج نادرا کے دفاتر کھولے جانے کی صورت میں دیکھے جا سکے ہیں۔ ان دفاتر کو علاقہ وار یا ڈیجیٹل اعتبار سے باری باری کھولا جاتا تو سماجی فاصلوں کی پابندی یوں رُسوا نہ ہوتی۔ یہ جو بڑی تعداد شانہ سے شانہ ملاکر کھڑی تھی، اس میں سے ﷲ نہ کرے کتنے ہی پوزیٹو نکل سکتے ہیں۔

حکومتی محکموں کی طرف سے تو ایسی بدنظمی، ناقص حکمتِ عملی نظر آتی رہے گی۔ یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں کو آگے آنا ہوگا۔ ان کی طرف سے رہنما خطوط جامع رپورٹوں میں دیے جائیں۔ اس میڈیکل بحران نے صحت کو اولیت دی ہے۔ اسی سے وابستہ کاروبار اور صنعتیں آئندہ دو تین سال صف اوّل میں رہیں گی۔ اس لیے ڈاکٹروں کی انجمنوں، اسپتالوں کی ایسوسی ایشنوں اور دوا ساز کمپنیوں کی تنظیموں کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنی چاہئے۔ ان کی جانب سے جامع رپورٹیں حالات کا رُخ بدل سکتی ہیں۔

ٹریڈ یونین تحریک بھی اب وقت کی ضرورت ہوگی۔ احتجاجی مظاہروں سے زیادہ ضرورت اعداد و شُمار پر مبنی رپورٹوں کی ہے، کس شعبے میں زیادہ چھانٹی کی گئی۔ برسوں سے دولت بنانے والے سیٹھ اب وقتی بندش کو بہانہ بناکر اپنے وفادار ملازموں کو کیوں فارغ کررہے ہیں۔ رپورٹ آنی چاہئے کہ کس کمپنی نے زیادہ ورکر نکالے۔ کس نے بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیجا۔ کس نے تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی۔ کوئی تحقیقی ادارہ یہ بھی بتائے کہ کونسے کاروبار بالکل معدوم ہو جائیں گے۔ کونسے نئے کاروبار شروع ہو سکتے ہیں۔ عرب ملکوں سے بےروزگار پاکستانیوں کے لیے یہاں روزگار کے کیا مواقع ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ ان اداس دنوں میں تحریک پاکستان کے کارکن بھی رہنما بھی۔

جناب آزاد بن حیدر ایڈوکیٹ کی جدائی نے اور زیادہ غمزدہ کردیا۔ وہ آخری عمر تک تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔ قائداعظم اور مسلم لیگ پر انتہائی ضخیم اور مستند کتابیں مرتب کیں۔ آخری دنوں میں اپنی خود نوشت ’بقلم خود‘ کے نام سے مکمل کی لیکن اس کی افتتاحی تقریب ان کی علالت کے باعث ملتوی ہوئی تو ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ٹیلی وژن پر بھی ان کی گرجدار اور پُراعتماد آواز نہ سن سکے۔ خدا مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ وہ عمر بھر نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ اب ان کی تصنیفات آئندہ نسلوں کو راہ دکھاتی رہیں گی۔رمضان کے مبارک مہینے میں ہی ہمارے کرم فرما ماہر قانون و آئین بیرسٹر پروفیسر حبیب الرحمٰن بھی اپنے خالقِ حقیقی کی طرف مراجعت کر گئے۔ کتنے وکلا کے استاد، کتنی کتابوں کے مصنّف، قوم کو نوجوانوں کو قانون سکھاتے اور پڑھاتے رہے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لا میں ہماری قانونی معاونت بھی کرتے رہے۔ فاضل جج صاحبان ان کے دلائل بہت احترام سے سنتے تھے۔ اجمیر شریف سے آبائی تعلق ان کے لیے ہمیشہ قابلِ فخر رہا ہے۔ ایسے وضعدار، شائستہ، بردبار، صاحبِ بصیرت اب کہاں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کے لواحقین کو صبر کی توفیق دےاور اولاد کو ان کا مشن جاری رکھنے کی ہمت دے۔