171

پاکستان کا آرمینیا سے جھگڑا کیا ہے؟

جنوبی کوہِ قاف کے ملک آرمینیا کی سرحدیں جارجیا، آذر بائیجان اور ایران سے ملتی ہیں لیکن پاکستان کا سرکاری موقف ہے کہ یہ ملک وجود نہیں رکھتا۔
آرمینیا جنوبی کوہِ قاف کا ملک ہے جس کی سرحدیں جارجیا، آذر بائیجان اور ایران سے ملتی ہیں، جس میں شہر، دیہات اور قصبے آباد ہیں، جہاں دریا ہیں، جھیلیں ہیں، پہاڑ ہیں، اور پہاڑ بھی کوہِ قاف، لیکن پاکستان کے سرکاری موقف کے مطابق یہ ملک وجود نہیں رکھتا کیوں کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتا۔
یہ بات اس لیے بھی حیرت انگیز ہے کہ پاکستان کا آرمینیا سے براہِ راست کوئی تنازع ہے، نہ دونوں کی سرحدیں ملتی ہیں اور نہ ہی ان کے درمیان کسی قسم کے اچھے یا برے تاریخی روابط رہے ہیں۔
تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان نے آرمینیا سے دشمنی پال رکھی ہے، حالانکہ گذشتہ روز آرمینیا کے صدر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ پاکستان سے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں؟
اس میں تنازعے کی وجوہات تاریخی ہیں۔ سب سے پہلے تو خلاصہ سمجھ لیں کہ پاکستان کے خیال میں آرمینیا نے آذربائیجان کے متنازع نگورونو کاراباخ کے علاقے پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔
ایک اور معاملہ ترکی کا بھی ہے۔ آرمینیا والے سمجھتے ہیں کہ عثمانی دور میں ترکوں نے ان کی نسل کشی کی ہے، جب کہ ترکی سختی سے اس کی تردید کرتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جھگڑا کیا ہے، کہیں پاکستان پر وہ کہاوت تو صادق نہیں آتی کہ ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟‘
’سیاہ پہاڑی باغ‘
نگورونو کاراباخ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے۔ اس علاقے میں 95 فیصد آبادی آرمینیائی ہے لیکن یہ آذربائیجان کا حصہ ہے۔
اس علاقے کا نام اکثر کاراباخ لکھا جاتا ہے مگر عثمانی ترکی میں اس کا اصل تلفظ ’قرہ باغ‘ ہے۔ قرہ ترکی میں سیاہ کو کہتے ہیں اور اس کا مطلب ہوا، سیاہ باغ۔ نگورونو روسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’پہاڑی علاقہ‘ ہے۔
ایک زمانے میں یہ علاقے سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے، اسی لیے یہاں ترکی زبان کا غلبہ تھا، مگر 19ویں صدی میں روس نے ان پر قبضہ کر کے اپنی وسیع سلطنت کے پروں تلے سمیٹ لیا۔ جب 1917 میں سوویت یونین قائم ہوا تو یہ علاقے اسے ورثے میں مل گئے۔
سوویت یونین نے اپنے مختلف انتظامی ححصوں کی درجہ بندی شروع کی تو اس میں آذربائیجان اور آرمینیا کی سرحدوں کا تعین بھی شامل تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں سوویت یونین کے سربراہ بننے والے جوزف سٹالن کی زیرِ قیادت ایک کمیٹی نے شروع میں نگورونو کاراباخ کو آرمینیا میں شامل کیا تھا لیکن اگلے ہی دن فیصلہ بدل کر اسے آذربائیجان کا حصہ بنا ڈالا۔
پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو
تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے کا مقصد ’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی تھی تاکہ یہ دونوں قومیں سوویت یونین سے نہ لڑیں بلکہ آپس میں جھگڑتی رہیں۔
چونکہ اس علاقے میں اکثریت آرمینیی باشندوں کی تھی، اس لیے ان کا مطالبہ تھا کہ وہ آذربائیجان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اس لیے اس علاقے کو آرمینیا میں ضم کر دیا جائے۔
1988 میں اس علاقے کی مقامی پارلیمنٹ نے بھی آرمینیا کے ساتھ ضم ہونے کے حق میں ایک قرارداد منظور کر دی، ساتھ ہی ایک ریفرینڈم بھی منعقد کروایا گیا جس کا آذربائیجانیوں نے بائیکاٹ کیا اور اکثریت نے آذربائیجان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیا۔
ان کا الزام تھا کہ نہ تو ان کے علاقے میں کتابیں آرمینی زبان میں ہیں نہ میڈیا پر ان کی زبان کی نمائندگی ہے بلکہ آذربائیجان ہر چیز کو آذری بناتا چلا جا رہا ہے جس سے ان کی شناخت خطرے میں ہے۔
ایک اور معاملہ مذہب کا بھی تھا۔ آذربائیجان کا اکثریتی مذہب اسلام ہے جب کہ آرمینیائی باشندوں کی اکثریت مسیحی ہے۔
پارلیمنٹ کے فیصلے اور ریفرینڈم کے بعد نگورونوکاراباخ میں آرمینیوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ہڑتالیں شروع ہو گئیں، جس کے جواب میں آذریوں نے بھی مظاہرے کیے، اور جلد ہی وہاں نسلی فسادات پھوٹ پڑے اور دونوں طرف سے خون بہنے لگا۔
اس وقت یہ دونوں ملک سوویت یونین کا حصہ تھے اور سوویت یونین کے سربراہ میخائل گورباچوف نے معاملہ حل کروانے کی کوششیں بھی جو بےسود رہیں۔
1988 میں اسی معاملے پر فروری دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی جو چار سال تک جاری رہی۔ دونوں ملکوں نے نسلی قتلِ عام میں حصہ لیا جس میں دونوں طرف سے 20 سے 30 ہزار کے درمیان لوگ مارے گئے۔
اسی دوران جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو نگورونو کاراباخ، نے خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ آرمینیا نے بھرپور حملہ کر کے نگورونو کاراباخ کے علاوہ آس پاس کے علاقوں سے آذری فوجوں کو نکال دیا۔
اس علاقے نے بعد میں ’جمہوریہ آرتساخ‘ کے نام سے خودمختاری کا اعلان کر دیا اور یوں آرمینیا اور نگورونو کاراباخ جغرافیائی طور پر آپس میں منسلک ہو گئے۔
1994 میں روس، امریکہ اور فرانس کی جانب سے کوششوں کے بعد جنگ بندی تو ہو گئی مگر اس کے باوجود وہاں وقتاً فوقتاً جھڑپوں کا سلسلہ رک نہیں سکا۔
گذشتہ برس ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی جس میں ترکی نے کھل کر آذربائیجان کا ساتھ دیا اور اسے راکٹ اور جنگی ڈرون بھی فراہم کیے۔
اس جنگ میں پانچ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ جنگ کے بعد روس کی ثالثی میں آرمینیا نے نگورونو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کے حوالے کر دیا۔
لیکن آرمینیا کے عوام نے اس پر سوگ منایا اور وزیرِ اعظم نیکول پاشینان پر غداری کا الزام لگا کر ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
آرمینیا اور ترکی کا قضیہ
آذربائیجان کے بیشتر باشندے ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی اکثریت آذری زبان بولتی ہے جو دراصل ترک زبان ہی کا ایک لہجہ ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان صدیوں پرانے مذہبی، لسانی اور نسلی تعلقات ہیں، اس لیے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن تصور ہوتا ہے۔
آرمینیا اور ترک النسل باشندوں کے درمیان وجہِ نزاع ایک صدی پرانی ہے۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ پہلی جنگِ عظیم سے پہلے بہت سے آرمینی باشندے موجودہ ترکی میں آباد تھے، خاص طور پر ملک کے مشرقی علاقے میں۔
لیکن جب 1912 میں شروع ہونے والی جنگِ بلقان میں ترکوں کو پے در پے شکستیں ہونے لگیں تو انہیں خدشہ ہوا کہ آرمینی کہیں اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر علیحدگی کا اعلان نہ کر لیں۔
عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کی حکومت نے آرمینیوں کو حکم دے دیا کہ وہ اپنے علاقے چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ ان کی طرف سے بغاوت کا خطرہ فرو کیا جا سکے۔
اس دوران لاکھوں آرمینی صعوبتوں کا سامنا کرتے ہوئے مارے گئے، جب کہ آرمینی الزام لگاتے ہیں کہ ترک فوج نے جان بوجھ کر انہیں نشانہ بنایا، شام کے صحرا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور بہت سوں کو زبردستی مسلمان کیا۔
ترک حکومت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ آرمینیوں کی نقل مکانی قانونی اور جائز تھی کہ یہ جنگ کا زمانہ تھا اور ترکی کی سالمیت کو خطرہ لاحق تھا، اور اس دوران جو جانی نقصان ہوا وہ نادانستہ طور پر ہوا، نہ کہ جان بوجھ کر۔
لیکن آرمینیا اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور ہر سال 24 اپریل کو آرمینی نسل کشی کی یاد‘ مناتا ہے۔
دنیا کے 31 ملک، بشمول یورپی پارلیمان، اس واقعے کو نسل کشی قرار دیتے ہیں، تاہم ایسی کسی بھی کوشش کا ترکی سختی سے جواب دیتا ہے۔
اس وقت دنیا میں تین ملک ایسے ہیں جو ایسی کسی نسل کشی سے انکار کرتے ہیں، ترکی، آذربائیجان اور پاکستان۔
پاکستان کنکیشن
پاکستان اور آرمینیا کے درمیان وجہ نزاع کیا ہے اور پاکستان نے آرمینیا کو کیوں تسلیم نہیں کیا، اس بارے میں ہم نے سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس معاملے میں پاکستان کا موقف اصولی ہے کیوں کہ نگورونو کاراباخ کا معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کشمیر کا۔
جیسے بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ویسے ہی آرمینیا نے بھی نگورونو کاراباخ پر قبضہ کر رکھا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب آرمینیا سوویت یونین سے الگ ہو کر آزاد ہوا تو پاکستان نے اسے تسلیم نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے کی طرح نگورونو کاراباخ کے معاملے پر بھی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے متعدد قراردادیں منظور کیں جن میں آرمینیا سے مطالبہ کیا کہ وہ متنازع علاقے سے فوجیں نکال دے مگر آرمینیا نے ان پر عمل نہیں کیا۔
تہمینہ جنجوعہ نے مزید بتایا کہ ’چونکہ آرمینیا اور ترکی کے درمیان نسل کشی والے معاملے پر کشیدگی ہے اس لیے اپنے دوست ملک کی حساسیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان نے آرمینیا سے تعلقات بنانے کی کوشش نہیں کی۔‘
ماسکو میں مقیم امریکی سیاسی تجزیہ کار اینڈریو کوربیکوف نے اخبار ٹریبیون میں ایک تحریر میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کے ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ گرمجوش تعلقات نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے مگر آرمینیا کو تسلیم نہ کرنے کے فیصلے کے پیچھے یہ معاملہ بھی ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سرحدوں کو طاقت کے ذریعے تبدیل کرنے کے اصول کے خلاف ہے۔‘
آگے چل کر انہوں نے لکھا ہے کہ ’بہت کم لوگ پاکستان کے اس اصول موقف سے آگاہ ہیں، اور اگر پاکستان اپنے اس موقف کو دوسرے مسلمان ملکوں کے سامنے پیش کرے تو اس کی ’سافٹ پاور‘ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
سافٹ پاور اپنی جگہ تاہم تہمینہ جنجوعہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مستقبل میں پاکستان کو اس پالیسی پر نظرِ ثانی (rethink) کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ آرمینیا کی امریکہ میں طاقتور لابی موجود ہے۔‘
خاص طور پر موجودہ صورتِ حال میں جب آرمینیا آذری علاقوں سے نکل چکا ہے اور آرمینیا کے صدر خود پاکستان سے تعلقات بڑھانے کی باتیں کر رہے ہیں تو پاکستان کو اپنی پالیسی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں