268

پاکستان میں دم توڑتی ٹریڈ یونین.

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے۔ ان کی معصومانہ باتیں سننے۔ ان کے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ آج کل میرے اور آپ کے وطن پاکستان کو بہت سے خطرات درپیش ہیں۔ جن میں کورونا سب سے زیادہ ہلاکت خیز ہے۔ روزانہ سو سے زیادہ گھر اجڑ رہے ہیں۔ ہمارے ہمسائے بھارت میں تو بہت ہی برا حال ہے۔ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار صحت عامہ کے نظم و ضبط میں ناکام ہوگئے ہیں۔نفرتوں کی بنیاد پر بر سر اقتدار آنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ وہاں کے مناظر رلا دینے والے ہیں۔ یقیناً اب حکمرانوں اور متعصب بھارتیوں کو احساس ہورہا ہوگا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کے ساتھ جو ظالمانہ رویے اختیار کیے ہوئے تھے وہ کتنے اذیت ناک ہیں۔مجھے تو یہ تشویش ہر لمحے لرزائے دیتی ہے کہ ہم تو اپنی زندگی بھرپور گزار کر بہاریں خزائیں دیکھ کر دنیا کے سفر کرکے نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر عمر کے آخری حصّے میں کورونا کی یلغار کی زد میں ہیں۔ہماری وہ نسل جو ابھی ہوش سنبھال کر زندگی سے بہرہ ور ہونے والی ہے۔ اسے اپنی عمر کے پہلے حصّے میں ہی اس عالمگیر وبا کے تھپیڑوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے سفر حیات کا آغاز ہی سناٹوں‘ تنہائی اور بے یقینی سے ہورہا ہے۔ یہ زندگی اور مستقبل کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کن خطوط پر کریں گے۔

کورونا وبا سے پیدا ہونے والا انتشار اور بے سکونی اپنی جگہ۔ رات دن میڈیا اداروں میں محاذ آرائی کی جو خبریں نشر کرتا ہے اس سے مزید بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ سب ادارے اپنی اپنی جگہ متنازع ہوگئے ہیں۔ صدر، وزیر اعظم،پارلیمنٹ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ، وزرائے اعلیٰ، گورنر، پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر۔ کوئی بھی ایسا نہیں جس کا اعتبار قائم ہو۔ ملک میں کوئی سیاسی، روحانی، مذہبی، علمی ،عسکری، ادبی شخصیت ایسی نہیں ہے جو سب کو قابل قبول ہو۔ پہلے مختلف دہائیوں میں کوئی ایڈیٹر۔ کوئی عالم دین۔ کوئی ریٹائرڈ بریگیڈیئر۔ یہ مصالحتی مشن انجام دیتے تھے اور فریقین ان کی بات مانتے بھی تھے۔ اب ہر ادارہ متنازع ہے۔ ہر فرد کیخلاف اتنے اسکینڈل ہیں کہ کوئی مصالحت مشن لے کر خود متنازع نہیں ہونا چاہتا۔ تاریخ میں ایسے ادوار قوموں میں ضرور آئے ہوں گے۔ تاریخ کے طالب علموں کو بتانا چاہئے کہ ایسے متنازع اور آپس میں بر سر پیکار معاشروں کا حتمی انجام کیا ہوتا رہا ہے۔

اقبال نے کہا تھا:

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

یہ سفینہ کتنی بار ڈوبا۔ لیکن بندۂ مزدور کے اوقات شیریں نہ ہوسکے۔ اب جب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا پہلا یوم مئی گزر چکا ہے۔ تب محنت کش کے دن رات اور بھی زیادہ بد حالی سے ہمکنار ہیں۔ کورونا کے دنوں میں یوم مئی پر ظاہر ہے بڑی ریلیاں جلسے جلوس نہیں ہوسکتے تھے۔مگر ٹریڈ یونین کی دنیا اس سے پہلے سے ہی ویرانی اور بے سر و سامانی کا مظہر بنی ہوئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ ٹریڈ یونین بستر مرگ پر ہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشرے سے اس کے پھیپھڑے متاثر ہونا شروع ہوئے۔ پھر گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ خون کی منتقلی کے لیے سہولت نہیں تھی۔ اکیسویں صدی روزانہ اجرت والوں۔ کنٹریکٹ ملازمین ۔ مزدوروں۔ کلرکوں کے لیے کوئی بھی خوشگوار پیغام نہیں لائی۔ صرف پاکستان ہی نہیں امریکہ یورپ میں بھی ٹریڈ یونین اب اتنی طاقت ور نہیں رہی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے کمیونسٹ پارٹی بیوگی کا نشانہ بنی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے سرمائے سے ہاتھ ملاکر اپنی سانسیں تو بچالی ہیں مگر نظریاتی شخصیت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔

پاکستان میں ٹریڈ یونین کا زیادہ برا حال اس لیے ہے کہ یہاں کوئی سوشل سیکورٹی نہیں۔ بے روزگاروں کے لیے وظیفے نہیں ہیں۔ صنعتیں ویسے ہی روبہ زوال ہیں۔ آن لائن خرید و فروخت بڑھ رہی ہے۔ ہر چیز درآمد ہورہی ہے۔ وہ بھی کمیونسٹ چین سے۔ روایتی گھریلو صنعتیں ایک ایک کرکے ختم ہورہی ہیں۔ بے روزگاری میںپاکستان 77ویں نمبر تک پہنچ گیا ہے۔ اعداد و شُمار کہتے ہیں کہ اب صرف 945ٹریڈ یونینیں کسی حد تک فعال ہیں۔ لیکن ٹریڈ یونینیں اپنے طور پر دم توڑ رہی ہیں۔ کوئی نوحہ لکھنے والا نہیں رہا۔ آئی ایل او اپنی جگہ ہے۔ لیکن اب کوئی لیبر کے حالات کار کا معائنہ کرنے نہیں آتا۔ کسی زمانے میں سیاسی پارٹیوں کی طاقت کا توازن ٹریڈ یونین لیڈروں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ٹریڈ یونین کمزور ہونے سے سیاسی کارکن بھی کمزور ہوگیا ہے۔ہم نے صدر ایوب خان کے آخری دنوں۔ بھٹو کے دَور میں مزدور رہنمائوں کا طنطنہ دیکھا ہے۔ لیکن ضیا دور سے ان کا انحطاط شروع ہوا۔ دائیں اور بائیں میں تقسیم۔ دائیں بازو کی سرکاری سرپرستی۔ پھر مزدوروں کو بھی اسلام پسندوں اور سیکولر میں بانٹ دیا گیا۔ اس بٹوارے سے طلبہ طاقت بھی کمزور ہوئی اور محنت کش قوت بھی۔ اس وقت ٹریڈ یونینوں سے وابستہ مزدوروں کی تعداد 18لاکھ بتائی جارہی ہے۔ 22کروڑ کی آبادی میں سے قریباً ساڑھے چھ کروڑ مزدور کہے جاسکتے ہیں۔ زراعت سے 43فی صد اور صنعت سے 22فی صد وابستہ ہیں۔ کاروبار بدل رہے ہیں۔ نئے کاروبار نئی کمپنیاں آرہی ہیں۔ باضابطہ ملازمتوں کی جگہ کنٹریکٹ ملازمتوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کنٹریکٹ میں صرف بالمقطع اجرت ملتی ہے۔ کوئی میڈیکل الائونس اوور ٹائم گزارہ مہنگائی الائونس نہیں ہے۔ بیماری میںکمپنی علاج نہیں کرواتی بلکہ برطرف کردیتی ہے۔

مزدور رہنمائوں میں کیسے کیسے مقبول اور معزز نام یاد آتے ہیں۔ مرزا ابراہیم۔ محمد عرب خطیب۔ بشیر احمد بختیار۔ شمیم واسطی۔ نبی احمد۔ ایس پی لودھی۔ منہاج برنا۔ سی آر اسلم۔ عثمان بلوچ۔ طفیل عباس۔ حبیب جنیدی۔ اقبال پیاسی۔ عزیز میمن۔ سردار شوکت علی۔ ضیاء الدین بٹ۔ منظور احمد رضی۔ عثمان غنی پھر کیسے کیسے وکلا جو مزدوروں کے مقدمات لڑتے تھے۔ اسی تحقیق کے دوران جو خوشگوار حیرت ہوئی کہ بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی 1925میں مزدور لیڈری کی۔ وہ آل انڈیا پوسٹل اسٹاف یونین کے باقاعدہ صدر رہے۔ جس سے 70ہزار کارکن وابستہ تھے۔حالات کار نے ،ناکام سول حکومتوں نے محنت کشوں کی دنیا تاریک کردی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے اشتہارات جو چینلوں پر نظر آتے ہیں ۔ خواتین جن کی مصنوعات کی دیوانی ہیں۔ سب سے زیادہ استحصال محنت کشوں کا وہیں ہورہا ہے۔کارکنوں کی بڑی تعداد کال سینٹروں اور گارمنٹ فیکٹریوں سے وابستہ ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کے قریب۔ یہاں ملازمت کو کوئی تحفظ نہیں۔ کارکنوں کو اُجرت کے علاوہ کوئی سہولت نہیں ہے۔

یکم مئی اب محض ایک تعطیل بن کر رہ گئی ہے۔ مزدوروں کے مسائل پر کوئی تحقیق اور ان کے لیے کسی راحت کی آواز نہیں اٹھتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں