195

پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ اور صدارتی نظام حکومت کی باتیں

پاکستان میں ان دنوں صدارتی نظام حکومت اور ممکنہ طور پر ایمرجنسی کے نفاذ کی خبریں گرم ہیں۔ لیکن ملک میں بہت سے ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس حوالے سے مروجہ قانون اور ریاستی آئین کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔
پاکستان میں ماضی میں بھی صدارتی نظام حکومت رائج رہا ہے اور ناقدین کی رائے میں اس کے کبھی بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جب کہ ایمرجنسی کے نفاذ نے بھی ملک اور سیاسی نظام کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے۔
ممکنہ ایمرجنسی سے متعلق قانونی رائے
ایمرجنسی کے حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں ایمرجنسی کسی بھی طور نافذ نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ صرف ایک وقتی اقدام ہوتی ہے اور کسی بھی وفاقی اکائی میں محدود عرصے کے لیے ہی لگائی جا سکتی ہے۔ معروف قانون دان شاہ خاور کا کہنا ہے کہ اب پاکستانی آئین میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی جیسی کسی ہنگامی حالت کے نفاذ کی کوئی گنجائش نہیں۔
امریکا کی جمہوریت کانفرنس میں پاکستان کی عدم موجودگی
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جنرل مشرف نے جس طرح کی ایمرجنسی نافذ کی تھی، اب ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور نہ ہی ملکی آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ پرویز مشرف کو اس ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے خلاف عدالتوں نے فیصلے بھی سنائے تھے۔ اسی لیے جن ججوں نے اس ایمرجنسی کے بعد حلف اٹھائے تھے، ان کی تعیناتی کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔‘‘
شاہ خاور کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی قانون ایمرجنسی کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ پورے ملک کے لیے نہیں بلکہ صرف کسی ایک وفاقی اکائی کے لیے ہو سکتی ہے ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب وہاں کی اسمبلی کسی باقاعدہ قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے اس کا مطالبہ کرے۔
اسٹیبلشمنٹ سے دوستی یا پھر جمہوریت بہترین انتقام؟
اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر بیچا جائے گا تو ملک کا کیا ہو گا؟ عمران خان
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان بیرسٹر اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دوسو بتیس، تینتیس اور چونتیس ایمرجنسی کے نفاذ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”لیکن یہ محدود وقت کے لیے ہی ہوتی ہے اور پورے ملک کے لیے نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف کسی ایک علاقے کے لیے ہو سکتی ہے۔ اس کا اعلان وزیر اعظم کرتا ہے اور پارلیمان کو اس کی منظوری دینا ہوتی ہے۔
صدارتی نظام حکومت کی بحالی؟
بیرسٹر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ جہاں تک صدارتی نظام حکومت کا تعلق ہے، اس کی آئین میں کوئی گنجائش ہی نہیں، ”پاکستان کا طرز حکومت وفاقی پارلیمانی ہے اور صدارتی طرز حکومت کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ہاں اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس اکثریت ہو، تو آئین میں ترمیم کے ذریعے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آئینی ترمیم کے بغیر نظام کو بدلا نہیں جا سکتا۔ موجودہ صورت حال میں مجھے نہیں لگتا کہ ایسا قطعی طور پر ممکن ہے۔‘‘
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کے مطابق پارلیمنٹ کو ہرطرح کا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جوآئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہو یا قرآن و سنت کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی طرح کی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ پارلیمان ایسی ترامیم کو ختم بھی کر سکتی ہے، جو ماضی میں آئین میں کی گئی تھیں۔ وہ آئین کو تبدیل کر کے اس کو صدارتی طرز کا بھی بنا سکتی ہے لیکن صرف اور صرف پارلیمنٹ کو ہی یہ اختیار حاصل ہے۔ کوئی اور ادارہ یا شخص ایسا نہیں کر سکتا کہ وہ ملک کے وفاقی پارلیمانی نظام حکومت کو بدل کر صدارتی نظام حکومت بنا دے۔‘‘
مقامی حکومتیں جمہوریت کی انفنٹری، بھلا کیسے؟
ماضی میں ایمرجنسی کا نفاذ
کئی ماہرین قانون کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں صرف جنرل پرویز مشرف نے ہی پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ پورے ملک میں اس طرح کی کوئی دوسری ایمرجنسی کبھی نافذ نہیں کی گئی۔ تاہم سیاسی مبصرین اور پاکستانی کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ملک میں پرویز مشرف سے پہلے بھی ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔
پاکستان: نئے ضوابط سوشل میڈیا کا ’گلہ گھونٹنے‘ کے لیے ہیں؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ 1965ء میں جنرل ایوب خان نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ایمرجنسی لگائی، جو کم و بیش ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک جاری رہی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان قوانین کے تحت ڈپٹی کمشنر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جس کو بھی چاہے، ان رولز کے تحت جیل بھیج سکتا ہے۔ ان قوانین کو ایوب خان نے بھی چلایا۔ یحییٰ کے دور میں بھی یہ قوانین رہے اور بھٹو دور میں بھی ان کا استعمال ہوتا رہا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے آئین بنایا، ”لیکن آئین بنانے کے بعد اس میں بنیادی حقوق کے باب کو معطل کر دیا اور جنرل ضیاالحق نے آ کر ان ایمرجنسی اختیارات کو ختم کیا اور بڑے فخر سے یہ بھی کہا کہ دیکھیں، میں نے ان ایمرجنسی اختیارات کو ختم کر دیا ہے۔‘‘
مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے پر پاکستانی فوج میں ’تکلیف اور اضطراب‘
ماضی میں صدارتی نظام کے تجربات
پاکستان میں صحیح معنوں میں صدارتی نظام حکومت صرف ایوب خان کے دور میں نافذ ہوا، جو 1958 میں ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار میں آئے تھے۔ انہوں نے اس نظام حکومت کو چلانے کے لیے بنیادی جمہوریتوں کا قانون منظور کروایا اور بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات جیتنے والوں پر مشتمل انتخابی کالج بنایا، جو صدر کو منتخب کرتا تھا۔ جولائی 1977 میں اقتدار میں آنے والے جنرل ضیاالحق نے ملکی آئین کا نقشہ ہی بگاڑ دیا۔ وہ طویل عرصے تک ایک آمر کی طرح ملک پر حکومت کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے 1985ء میں صدارتی ریفرنڈم کرایا اور اپنے آپ کو منتخب کروا لیا۔
2018: پاکستان میں ’نیم جمہوریت‘مزید ابتر ہوئی
جنرل ضیاالحق کے دور میں کی گئی آئینی ترامیم کی وجہ سے ملکی سیاسی نظام میں صدر کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں اور انہی اختیارات کے بل پر دو مرتبہ صدر غلام اسحاق خان اور ایک مرتبہ صدر فاروق لغاری نے منتخب حکومتوں کو چلتا کر دیا۔ انیس سو نوے کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے مشترکہ طور پر صدر کے اس اختیار کو ختم کر دیا۔ اس اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ملک میں پارلیمانی طرز حکومت کو مزید مضبوط کیا، ممکنہ مارشل لاء کا راستہ روکا اور اعلیٰ عدلیہ کے اس اختیار کو بھی ختم کر دیا کہ وہ کسی بھی مارشل لا کو کوئی قانونی جواز فراہم کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں