140

پاکستان میں امیروں کے لئے سبسڈیز کب ختم ہوں گی؟

پاکستان میں کئی معاشی امور کے ماہرین حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ تیل پہ دی جانے والی سبسڈی کو فوری طور پر ختم کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک ایک بہت بڑے معاشی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں نیو لبرل ازم کے حامی معیشت دانوں کو صرف وہ سبسڈیز نظر آتی ہیں، جو غریبوں کو دی جاتی ہیں جب کہ وہ امیروں کو دی جانے والی سبسڈیز صرف نظر کرتے ہیں ہیں۔ کئی حلقے یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ ملک کی اشرافیہ کو دی جانے والی سبسیڈیز کب ختم ہوں گی۔
واضح رہے پاکستان میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ایسے افراد جو ٹرک، ٹیکسی، رکشہ، موٹر سائیکل، چنگچی رکشہ، سوزوکی، ٹریکٹرز اور دوسری ایسی چیزیں چلاتے ہیں جو غریب آدمی کے استعمال میں ہیں۔
ناقدین کا خیال ہے کہ اگر حکومت پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرتی ہے، تو اس سے سب سے زیادہ غریب لوگ متاثر ہوں گے۔ ان کے خیال میں امیروں کو ملنے والی 17.4 بلین ڈالرز کی سبسڈیزختم ہونی چاہیے۔
واضح رہے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے گزشتہ سال ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی اشرافیہ کو ملنے والی 17.4 بلین ڈالرز کی یہ سبسڈی کل معیشت کا قریب چھ فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور ملک کے طاقتور اداروں سے منسلک افراد اس سبسڈی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ سبسڈی ٹیکس میں چھوٹ، سستا خام مال، سرمائے تک ترجیحی رسائی اور دوسری شکلوں میں دی جاتی ہے۔
رپورٹ سے آگے بھی بہت کچھ ہے
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یواین ڈی پی کو کئی اداروں تک مکمل طور پر رسائی نہیں تھی، اسی لئے وہ تمام عوامل کا احاطہ نہیں کر سکی اور اس نے کئی دوسرے عوامل کو نظرانداز کر دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر عمار علی جان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کے نام پر کئی دہائیوں سے امیروں کو نوازا جارہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ابھی حال ہی میں آپ رنگ روڈ کا مسئلہ لے لیں، جہاں پر امیروں کو پہلے ہی بتا دیا گیا کہ یہاں سڑکیں بنائی جائیں گی اور انہوں نے اونے پونے داموں زمین خریدی اور زمینوں کی قیمتیں راتوں رات آسمان سے باتیں کرنے لگیں، اسی طرح ریئل اسٹیٹ سے وابستہ دوسرے لوگوں کو بھی سرکاری زمین کوڑیوں کے داموں میں دی جاتی ہے، جس کو وہ بہت مہنگی بیچتے ہیں اور راتوں رات پیسہ بناتے ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکومتی پالیسیاں صرف امیروں کے لیے ہوتی ہیں، جس سے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” آپ اشرافیہ کو دیکھ لیں، ایک بھائی حزب اقتدار میں ہوگا تو دوسرا حزب اختلاف میں، ایک نوکرشاہی میں ہوگا جبکہ ان کے خاندان کے کچھ افراد این جیوز میں بھی ہوں گے، اس طرح یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی اسکیمیں امیروں کے لئے
ڈاکٹر قیس اسلم کے بقول ساری ایمنسٹی اسکیمیں امیروں کے لیے ہوتی ہیں۔ ”عمران خان کے دور میں دی جانے والی ایمنسٹی چودہویں تھی، اس سے پہلے نواز شریف، پرویز مشرف، بینظیر بھٹو سمیت سارے ہی حکمرانوں نے طاقتور لوگوں اور اشرافیہ کو سبسڈی دی، جس سے انہوں نے کالا دھن سفید کیا، بہت سارے لوگوں نے ریئل اسٹیٹ میں اپنی کالے دھن کو سفید کیا، آصف علی زرداری نے اسمگلنگ شدہ گاڑیوں کے حوالے سے ایمنسٹی دی۔‘‘
پروجیکٹس، معلومات اور اشرافیہ
ڈاکٹر قیس اسلم نے دعوی کیا کہ امیروں کو نوازنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ حکمران اپنے رشتے داروں کو پہلے سے کسی پروجیکٹ کے حوالے سے اطلاع دے دیتے ہیں۔ ” مثال کے طور پرجب موٹروے بنایا جارہا تھا، نواز شریف کے لوگوں نے ادھر ادھر سے زمین خریدنا شروع کر دی اور پھر ان زمین کو سرکار کو بہت مہنگے داموں بیچا۔
بالکل اسی طرح اسحاق ڈار کے دور میں ڈالر کے اتار چڑھاؤ کے حوالے سے حاکم طبقے کے افراد کو پہلے سے ہی اطلاع دے دی جاتی تھی اور وہ ڈالر کو ذخیرہ کر لیا کرتے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف موٹروے کی زمین بیچنے والوں کو بہت بھاری رقم دی گئی جبکہ ساٹھ کی دہائی میں تربیلا ڈیم کے متاثرین کو آج تک پیسے نہیں دیے گئے ہیں کیونکہ ان کا تعلق سماج کے نچلے طبقے سے ہے۔‘‘
اشرافیہ ہی سب سے بڑی چور ہے
پاکستان میں کئی ناقدین کا خیال ہے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار نہ صرف بجلی چوری کرنے میں ملوث ہیں بلکہ ٹیکس چرانے میں بھی ملوث ہیں۔ ڈاکٹر قیس اسلم کا دعویٰ ہے کہ ذوالفقار مرزا اور انکی زوجہ پر الزام ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ بینک کا قرضہ معاف کرایا بلکہ بجلی کے بل بھی ادا نہیں کئے، جو کرڑوں میں ہے۔ ”اس کے علاوہ زمین کے قبضے میں بھی یہی لوگ ملوث ہیں، لاہور میں کھوکھر برادران اس کام کے لئے مشہور ہیں اور ان کے گھر مریم صاحبہ بھی گئی تھیں، کراچی میں ملک ریاض اور دوسرے لوگوں پر اسی طرح کے الزامات لگے ہیں، دو سو بہتر سے زیادہ قرضے معاف کرانے والے بھی اشرافیہ کے لوگ ہیں۔‘‘
زرمبادلہ اشرافیہ اڑاتی ہے
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں پاکستان کا مزدور طبقہ مشرق وسطیٰ میں دن رات محنت کرتا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس زرمبادلہ کو لٹانے میں سب سے اہم کردار ملک کی اشرافیہ کا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی اقتصادی کونسل کے سابق رکن ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ چار سے چھ بلین ڈالرز صرف ہم اس طرح بچا سکتے ہیں کہ اگر ہم لگژری مصنوعات کی درآمد پر کم از کم ایک سال تک پابندی لگا دی جائے۔ وہ کہتے ہیں، ”ہماری اشرافیہ کاریں، غیرملکی جانوروں کی خوراک، کتے بلیوں کے شیمپو سمیت کئی ایسی اشیا درآمد کر رہی ہے، جس کے لیے زرِمبادلہ چاہیے ہوتا ہے، اگر ان اشیاء کی درآمد پر پابندی لگا دی جائے تو ملک چار سے چھ بلین ڈالر بچا سکتا ہے۔‘‘
ایمنسٹی ضروری ہوتی ہے
تاہم کئی معیشت داں اشرافیہ پر ہونے والی اس تنقید کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ معاشی معاملات میں مراعات دینا ضروری ہوتی ہیں۔ سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ریئل اسٹیٹ کو ایمنسٹی دینے سے کئی دوسرے شعبے حرکت میں آتے ہیں، جس سے روزگار پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ریئل اسٹیٹ معیشت کا دس سے بیس فیصد ہے اور وہاں بھی ان کو مراعات دی جاتی ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں