153

ٹی ٹی پی امریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ہتھیار استعمال کر رہی ہے

افغان طالبان کی پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے ہچکچاہٹ کو سمجھنے کے لیے دونوں عسکریت پسند گروہوں کے مابین انتہائی گہرے تعلقات کو سمجھنا ضروری ہے۔
افغان طالبان نے دسمبر کے آخر اور جنوری کے شروع میں پاکستان اور افغان سرحد پر باڑ لگانے کے کام میں رکاوٹ ڈالی اور ایک حالیہ واقعے میں طالبان جنگجوؤں نے پاکستان فوج سے باڑ لگانے میں استعمال ہونے والی تار کے رولز چھین لیے۔

اس واقعے کے بعد سات جنوری کو طالبان نے صوبہ پکتیکا میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر پاکستان کے سات پیرا ملٹری فوجیوں کر مختصر وقت کے لیے حراست میں لے چھوڑ دیا۔
عرب نیوز کے کالم نگار عبدالباسط خان کے مطابق اس صورت حال سے پہلے افغان طالبان کی معاونت سے پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان ہونے والے مذاکرات ختم ہو چکے تھے۔
یہ بات چیت نو نومبر سے نو دسمبر تک ایک ماہ کی جنگ بندی کے باوجود دونوں فریقین کے درمیان اعتماد کی کمی اور ناقابل تصفیہ اختلافات کی وجہ سے ناکام ہوئی جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے پاکستان کے خلاف حملوں میں اضافہ ہو گیا۔
دسمبر میں ٹی ٹی پی نے 45 دہشت گرد حملوں کا دعویٰ کیا جو 2021 کے کسی بھی مہینے میں کیے جانے والے حملوں میں سب سے زیادہ ہیں۔
اگرچہ بعض طالبان رہنماؤں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر موجود کشیدگی کو مقامی نوعیت کا الگ تھلگ واقعہ قرار دے کر اس کی اہمیت کم دکھائی اور کہا کہ اس کا تعلق کمانڈ اینڈ کنٹرول کے مسائل کے ساتھ ہے۔
تاہم مختلف طالبان رہنماؤں کے تسلسل کے ساتھ جاری ہونے والے بیانات پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے پر طالبان کی صفوں کے اندر موجودہ اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
طالبان کے نائب وزیر خارجہ محمد عباس ستانکزئی کا چھ جنوری کا بیان اس کی ایک مثال ہے۔
ان کے بقول: ’ڈیورنڈ لائن پوری قوم کا مسئلہ ہے حکومت کا نہیں۔ اس کا تعلق حکومت کے ساتھ نہیں۔ ہم قوم کو ذمہ داری دیں گے کہ وہ فیصلہ کرے۔‘
اس پس منظر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ سرحد پر باڑ لگانے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟
مزید برآں طالبان ٹی ٹی پی کو افغانستان میں ان کی پناہ گاہوں سے نکالنے سے کیوں کتراتے ہیں؟ یا کم از کم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرکے پاکستان میں حملے کرنے سے روکا کیوں نہیں جا رہا؟
بلکہ اس کی بجائے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب ٹی ٹی پی افغانستان سے جانے والے امریکی فوجیوں کے وہ بہتر ہتھیار استعمال کر رہی ہے جن پر طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔
مثال کے طور پر ٹی ٹی پی کے جنگجو اب ایم 16 مشین گنز اور ایم فور اسالٹ رائفلز کا استعمال کرتے ہیں جن پر ایسے آلات نصب ہیں جن کی مدد سے رات کی تاریکی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اس طرح عسکریت پسند گروپ رات کے وقت پاکستانی سکیورٹی فورسز پر سنائپر حملے بڑھانے کے قابل ہو گیا ہے۔
طالبان حکومت کی بحالی کے بعد پاکستان کو توقع تھی کہ ٹی ٹی پی کے بارے میں اس کے سکیورٹی خدشات کو دور کیا جائے گا جس کے بدلے میں اس کے امریکہ کے ساتھ معاہدے میں مدد کی جائے گی۔
فروری 2020 میں دوحہ میں پاکستان کی ثالثی میں ہونے والے امریکہ طالبان معاہدے نے امریکی انخلا اور افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔
پاکستانی توقعات کے برعکس طالبان نے افغانستان پر قبضے کے دوران ٹی ٹی پی کے ہزاروں قیدیوں کو مختلف جیلوں سے رہا کر دیا۔
گذشتہ اگست میں اسلام آباد نے ٹی ٹی پی کے مطلوب عناصر کی فہرست طالبان کی قائم مقام حکومت کے حوالے بھی کی تھی۔
طالبان نے پاکستان کے دعوؤں کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن بھی تشکیل دیا۔
تاہم افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی طالبان کی عمومی یقین دہانیوں کے باوجود ان کا پاکستانی سکیورٹی خدشات کے حوالے سے جواب خاصا کمزور رہا ہے۔
پاکستان کے ساتھ طالبان کی سرحدی کشیدگی اور ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے میں ان کی ہچکچاہٹ کو ختم کرنے کے لیے دونوں عسکریت پسند گروپوں کے درمیان گہرے تعلقات کو سمجھنا ضروری ہے۔
طالبان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ قریبی نظریاتی اور نسلی روابط ہیں۔ ٹی ٹی پی کے جنگجو اور کمانڈر طالبان کے رہنما ہبت اللہ اخونزادہ کو اپنا امیر مانتے ہیں اور ان سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
گذشتہ سال ستمبر میں پارلیمنٹ میں ان کیمرہ بریفنگ کے دوران پاکستانی سکیورٹی اداروں نے ٹی ٹی پی اور طالبان کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا تھا۔
نائن الیون کے حملوں کے نتیجے میں افغانستان سے طالبان کی بے دخلی کے بعد ٹی ٹی پی نے طالبان کو خیبرپختونخوا میں ضم ہو جانے والے سابق فاٹا میں اپنے پرانے ٹھکانوں میں پناہ دی اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف عسکری کارروائیاں بحال کرنے میں ان کی مدد کی۔
مزید برآں امریکہ کے خلاف طالبان کی فتح میں ٹی ٹی پی کی مدد بھی اہم تھی۔ طالبان اب افغانستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی کر کے احسان کا بدلہ اتار رہے ہیں۔
طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کی آپریشنل طاقت میں اضافہ کیا ہے اور اب وہ زیادہ آزادی کے ساتھ کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
طالبان ٹی ٹی پی کو بے دخل یا غیر مسلح کرنے پر تیار نہیں اور چار وجوہات کی بنا پر وہ مذاکرات کے ذریعے تصفیے پر اصرار کر رہے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ طالبان کی صفوں میں ٹی ٹی پی کے لیے زبردست ہمدردی اور حمایت پائی جاتی ہے۔
پیادہ طالبان فوجی ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی بھائی سمجھتے ہیں جنہوں نے افغانستان میں امریکہ کے خلاف جنگ لڑی۔
ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی صورت میں اسے طالبان کے نظریاتی دشمن داعش خراسان کی طرف دھکیلنے سے طالبان کے لیے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔
ٹی ٹی پی کی موجودہ عددی قوت سات ہزار سے 10 ہزار کے درمیان ہے۔ فی الحال طالبان کو داعش کے کی طرف سے پرتشدد مخالفت کا سامنا ہے جن کی تعداد تین سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔
داعش خراسان بنیادی طور پر ٹی ٹی پی کے سابقہ دھڑوں پر مشتمل ہے۔ اگر طالبان پاکستان کے اصرار پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو ٹی ٹی پی کے لوگ داعش سے جا ملیں گے۔
مزید برآں ٹی ٹی پی کو نکالنے یا غیر مسلح کرنے کی کوششوں کا نتیجہ طالبان کی میں دھڑے بندیوں میں اضافے کی صورت میں نکلے گا جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے داخلی اتحاد اور تنظیمی ہم آہنگی اہم ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی طرف سے سفارتی سطح پر تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں طالبان اپنی نظریاتی اساس پر سمجھوتہ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی کے خلاف طالبان کی کارروائی اس کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہوگی کیونکہ ٹی ٹی پی نے بقا اور امریکہ کے خلاف جنگ جیتنے میں طالبان کی مدد کی۔
دوسری جانب ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے پاکستان کے دباؤ کو مسترد کر کے طالبان پاکستانی پراکسی ہونے کے تاثر کو زائل کرنے سمیت آزاد گروپ کے طور پر سے اپنی ساکھ بہتر بنا سکتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ طالبان کی قائم مقام حکومت نے جان بوجھ کر پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو ہوا دی تا کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کے دباؤ سے بچا جا سکے۔
مزید برآں سرحدی جھڑپوں سے عوام کی توجہ بدقسمت افغان عوام کو طالبان کی طرف سے گورننس اور خدمات فراہم کرنے میں ناکامی سے ہٹانے میں مدد ملتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد کو تسلیم نہ کر کے اور پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے میں عملی طور پر رکاوٹ ڈال کر طالبان خود کو پشتون قوم پرست کے طور پر پیش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کی پشتون برادری کی ہمدردیاں حاصل کر سکیں۔
اس ضمن میں ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف طالبان کے لیے نمایاں نمایاں طور پر فائدہ مند ہے۔
پاکستان اور افغانستان سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت ٹی ٹی پی کی اسلام آباد کے خلاف دوبارہ شروع ہونے والی عسکریت پسندی کا مرکزی نکتہ ہے۔
سرحد پر باڑ لگانے کی مخالفت طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں کے مفاد میں ہے۔
طالبان اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی مشکلات اور تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کے لیے پل کے طور پر پاکستان پر انحصار کرنے کے باوجود طالبان نے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں پناہ دی اور پاکستان کے خلاف اس کے حملوں پر آنکھیں بند کر رکھیں۔
پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خطرے کو غیر مؤثر بنانے کے لیے متبادل حکمت عملی پر کام کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں