592

ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات.مفتی گلزاراحمدنعیمی

ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات

تحریر : مفتی گلزاراحمدنعیمی

19اپریل 2021 ء کا سورج اہل پاکستان کے لیے نہایت کٹھن اور مشکل صورت لیکر طلوع ہوا۔کالعدم تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیاں تناؤکی کیفیت اپنے عروج پر تھی۔تحریک کے کارکنان اور سیکورٹی کے اداروں کے درمیان ایک جنگ کی سی کیفیت بن گئی۔اوپر سے مفتی منیب الرحمن کی ہڑتال کی کال نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسکی تائید میں لاہور کے علماء نے بھی ہڑتال کی کال دے دی۔جس سے صورت حال مزید گھمبیر ہو گئی ۔ جب ہمارے امن پسند علماء نے دیکھا کہ حالات ایسی نہج کی طرف جارہے ہیں کہ جہاں سے حکومت اور تحریک کے لیے واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے گی۔ان علماء نے نہایت دانشمندی سے تحریک کےاسیر سربراہ علامہ سعد حسین رضوی سےجیل میں ملاقات کا فیصلہ کیا۔ایک 9 رکنی وفد (جس میں ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، پیر قطب الدین فریدی، ثروت اعجاز قادری، پیر عبد الخالق بھرچنڈی ،صاحبزادہ خالد سلطان اور پیر جلیل شرق پوری شامل تھے)جسکی قیادت صاحبزادہ حامد رضا سربراہ سنی اتحاد کونسل کررہے تھے نے سعد رضوی سے طویل مذاکرات کیے جو کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔یہ وفد مثبت پیش رفت کے ساتھ واپس آیا اور بہت حد تک انہوں نے حکومت اور تحریک کے درمیان مذاکرات کے تیسرے اور فائل راؤنڈ کے لیے بہت اعلی راہ ہموار کی۔میں سمجھتاہوں کہ اس وفد کی اعلی بصیرت نے ملک کو ایک بہت بڑے بحران سے بچا لیا۔میں جہاں تک سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ایک تو اس وفد میں جتنے قائدین تھے ان کے اندر اہل سنت کا درد تھا۔انہوں نے اپنے اخلاص اور بصیرت سے سعد رضوی کو قائل کیا دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس لیے وہ مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔ورنہ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ ہمارے جن قائدین کے پاس حکومتی عہدے تھےانہوں نے سلمان تاثیر کے قتل پر انکے اہل خانہ سے اظہار تعزیت بھی کیا اور وہ ممتاز قادری کی پھانسی کے موقع پر خاموش بھی رہے۔اسی طرح جب گزشتہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کا ڈھونگ رچا کر ختم نبوت اور ناموس رسالت کے قانون پر شب خون مارنے کی کوشش کی تو یہ قائدین اس وقت بھی خاموش رہے تھے۔لیکن آج ہڑتال بھی کروائی گئی اور حکومت کے لیے مشکلات بھی کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔یہ سب کچھ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے کیا گیا۔اس میں نہ حب الوطنی اور نہ ہی اہل سنت کا کوئی درد تھا۔
اس پچھلے ہفتے جو کچھ ملک میں ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ ہمارا ملک اس قسم کے جھٹکوں کا فی الحال بالکل متحمل نہیں ہوسکتا۔حکومت کو بہت دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہوا۔جہاں تک لبیک کا تعلق ہے وہ ایک بالکل نئی جماعت ہے جس نے اپنی عمر کے ابھی دس سال بھی پورے نہیں کیے۔اس کے پاس منجھی ہوئی قیادت بھی نہیں ہے۔جماعتیں چلانا کوئی گڈی گڈے کا کھیل نہیں ہے اس کے لیے وژن درکار ہوتا ہے، تجربہ چاہیے اور فہم و ادراک رکھنے والی ایک جہاں دیدہ ٹیم چاہیے۔صرف وسائل کافی نہیں ہوتے بلکہ نشیب وفراز میں اور بدلتے حالات میں ایک مضبوط قوت ارادی کے بغیر جماعت نہیں چلائی جاسکتی۔کارکنان بھی کسی جماعت کا اہم اثاثہ ہوتے ہیں۔ انہیں اس وقت تک میدان میں نہیں اتارنا چاہیے جب تک کامیابی کا کامل یقین نہ ہو۔اس ملک میں اسلام مخالف قوتیں آئے روز اپنے پاؤں مضبوط کرتی چلی جارہی ہیں۔انکامقابلہ کرنے کے لیے ایک بھر پور اور مثبت قوت مزاحمت چاہیے۔تحریک لبیک میں یہ استعداد بہت حد تک موجود ہے بشرطیکہ وہ تشدد اور انتہاء پسندانہ رجحانات سے گریز کرے۔یہ بات بہت ہی قابل افسوس ہے کہ تحریک کے کارکنان ہر اختلاف کرنے والے کو نہایت گھٹیا قسم کی دشنام طرازی کرتے ہیں۔بڑے بڑے علماء و مشائخ کو سب وشتم کرنا وہ کوئی عار نہیں سمجھتے۔صاحبزادہ نور الحق قادری اہل سنت کی ایک وجیہہ شخصیت ،نہایت صاحب علم اور تصوف وعرفان سے لبریز ہیں۔وہ اس ملک میں اہم مقام رکھتے ہیں،موجودہ حکومت کے وزیر ہیں۔ایک عظیم روحانی وعلمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں اور خیبر پختون خواہ کے اندر دو سو مدارس کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔تحریک کے صف اول کے رہنماء جناب ڈاکٹر شفیق امینی انکے شاگرد ہیں ۔لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ تحریک کے وہ کارکن جن کے ابھی دودھ کے دانت نہیں گرے وہ بھی انکی شخصیت پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔وہ توہین آمیز رویہ کہ الامان و الحفیظ۔اس رویہ سے باز آنا ہوگا۔اپنے کارکنوں کی تربیت کرنا ہوگی۔تحریک نے اپنے آپ کو ہر کسی کے لیے قابل قبول بنانا ہوگا۔اسے ایک پریشر گروپ سے نکل کر ایک سنجیدہ سیاسی جماعت کا روپ دھارنا ہوگا۔
اس موجودہ بحران میں بے بہا نقصان ہوا۔دونوں طرف سے شھادتیں ہوئیں۔بہت قیمتی جانیں ضائع ہوئی۔املاک کو بہت نقصان پہنچا۔رکشے اور گاڑیاں نذر آتش کی گئیں۔ایک منٹ رک کر سوچیے کہ اگر گولی چلانے والے اور ڈنڈے برسانے والوں پر گولیاں چلائی جاتیں یا ڈنڈے برسائے جاتے تو کیا وہ اس عمل کو برداشت کرتے؟؟ اگر کسی کی اپنی گاڑی یا رکشہ جلتا تو اس پر کیا گزرتی۔یہ سب کچھ انتہاء پسندی کا نتیجہ ہے۔اس نقصان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس پرتشدد صورت حال کو غنیمت جانتے ہوئے دوسری کالعدم تنظیموں نے بھی فورا سر اٹھانا شروع کردیا۔اسلام آباد میں شددت پسند فساد کھڑا کرنا چاہتے تھے، کالعدم تحریک طالبان اور دیگر بینڈ آرگنائزیشنز ابھی تک میدان میں کود پڑی ہوتیں اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوتے تو۔یہ سب کچھ ٹی ایل پی کے کھاتے میں پڑ جانا تھا۔
۔میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ تحریک لبیک پر پابندی نہیں لگانی چاہیے تھی بلکہ کچھ عرصہ بے شک واچ لسٹ میں رکھ لیا جاتا تو بہتر ہوتا۔مجھے قوی امید ہے کہ اس پر پابندی والا معاملہ حل ہوجائے گا۔حکومت کو ابھی اس معاہدہ کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے۔ایم پی او کے تحت گرفتار شدگان کو فورا رہا کردیا جائے۔فورتھ شیڈول سے بھی غریب کارکنوں کے اخراج کا بندوبست کیا جائے۔دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار شدگان کے کیسسز بھی ری وزٹ کیے جائیں ۔جو گنجائش نکل سکتی ہے وہ ضرور نکلنی چاہیے۔
اپوزیشن اس معاملہ میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے۔توہین رسالت اور اسلامو فوبیا امت مسلمہ کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے اور للہ الحمد پاکستان نے اس کے خلاف بہت مؤثر آواز اٹھائی ہے۔اس آواز کے پیچھے ہمیں بیک زبان ہوکر کھڑا ہونا ہوگا۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی

اپنا تبصرہ بھیجیں