487

ٹرک کی بتی.ڈاکٹر رحیق احمد عباسی

ٹرک کی بتی
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی
کسی جمہوری نظریہ میں یہ ہر گز ممنوع نہیں کہ کسی سیاسی یا مذہبی لیڈر کی اولاد سیاست میں آئے یا اپنے والد یا والدہ کے سیاسی و مذہبی افکار کی ترویج و اشاعت میں شامل ہو۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنس کی زبان میں موروثیت جینز کی منتقلی کے نظام کا نام ہے ۔جینز کے ذریعے والدین سے بہت ساری عادات اور اطوار اور جبلی صلاحیتیں اولاد میں منتقل ہوتی ہیں مزید برآں یہ بھی بالکل بجا ہے کہ بندہ گھر کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتا ہے اور انسان کی نشو و نما میں اور اس کے اخلاق و کردار و مزاج و ترجیحات میں گھر کے ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی بجا طور پر کہی جاتی ہے کہ عموما نعت خواں کا بیٹا اچھا نعت خواں، ڈاکٹر کی اولاد ڈاکٹر ، موسیقار کا بیٹا موسیقار اور فوجیوں کے بچے فوجی عموما ذیادہ بنتے ہیں ۔ اور یہ صورت حال تقریبا ہر پروفیشن میں آج ہی نہیں تاریخ کے ہر دور میں کم و بیش ایسے ہی نظر آتی ہے ۔ لیکن ان مثالوں سے دلیل پکڑنے والے شاید یہ بات دانستا نظر انداز کر جاتے ہیں کہ قیادت و سیادت کوئی پروفیشن نہیں ۔ غالبا وہ یہ بات بھی بھول جاتے ہیں کہ کسی آرمی جرنل کا بیٹا اگر فوج میں جاتا ہے تو وہ سفر سیکنڈ لیفٹنٹ سے ہی شروع کرتا ہے براہ راست برگیڈیئر یا جرنل بننا تو دور کی بات وہ براہ راست میجر یا کیپٹن بھی نہیں بن سکتا ۔ کسی ڈاکٹر کا بیٹا یا بیٹی ایم بی بی ایس تو شاید باقی بچوں کی نسبت آسانی سے کر لیتے ہیں لیکن ان کو بھی سفر کا آغاز ہاوس جاب سے کرنا پڑتا کبھی براہ راست سرجری نہیں شروع کر دیتا ۔۔ علی ہذالقیاس یہ اصول ہر جگہ ایسے ہی نظر آئے گا ۔ صرف اگر کوئی استثنا ہے تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت کی منتقلی کے ہمارے ہاں مروجہ نظام میں جہاں لیڈر کی اولاد جماعت میں باقی ممبران و اراکین کے لئے موجود تمام تدریجی مراحل سے ماورا براہ راست منصب قیادت پر فائز ہوتی جیسے بلاول پیلپز پارٹی پر اور مریم نواز ن لیگ پر براجمان ہے ۔ کوئی عقل کا پیدل ہی یہ کہے گا کہ سیاستدان کی اولاد کے لئے ناجائز ہے کہ سیاست میں آئے یا مذہبی رہنما کی اولاد کے لئے غیر مناسب ہے کہ وہ اس کے افکار و نظریات کے فروغ کے لیے قائم جماعت یا نظم میں کوئی ذمہ داری لے۔ اعتراض تب بنتا ہے جب اسی سیاسی و مذہبی جماعت میں دہائیوں تک جدوجہد کرنے والے اعلی صلاحیتوں اور تجربہ کے حامل لیڈرز کے اوپر ان خاندانی شہزادوں یا شہزادیوں کو مسلط کر کے ملک میں جمہوریت کے تحفظ کے نعرے بڑی ڈھٹائی سے لگائے جاتے ہیں اور بغیر کسی انتخابی عمل سے گزرے منصب قیادت پر فائز ہو کر ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلائی جاتی ہے ۔ اس پر متسزاد یہ کے ان موروثی جان نشینان کے سامنے ہاتھ باندھ کر اور سر جھکا کر کھڑا ہونے کی غلامانہ صلاحیت سے عاری کسی سینئر ترین لیڈر کی ان جماعتوں میں کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔
قران میں انبیاء کی ایسی دعائیں یقینا مذکور ہیں جن میں اپنے وارثین کو اللہ سے مانگا گیا لیکن ان دعاوں کے استدلال کو سیاسی جماعتوں میں قائم قیادت کی منتقلی کے نظام کے جواز کی فراہمی سے قبل کاش ہجرت ہاجرہ و اسماعیل اور ان کی ذندگی کی تفاصیل پڑھ لی جائے کہ انبیاء کی دعا جب قبول ہوتی ہے تو پھر نومولود کو بے اب و گہیاں وادی میں کیسے چھوڑنا پڑتا ہے اور کیسے جوان بیٹے کے گلے پر چھری پھیرنا پڑتی ہے یا کبھی سورہ یوسف میں مذکور احسن القصص کو اپنی خود ساختہ فکر و نظر کی عینک اتار کر پڑھ لیا جائے کہ یوسف کو وراثت یعقوب کا وزن اٹھانے کے لئے کن گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح ائمہ اہل بیت کی پاکیزہ مثال کے ذریعے سیاسی جماعتوں پر قابض شہزادوں و شہزادیوں کا جواز تراشنے سے قبل کاش امام حسن کی شہادت ، کربلا میں امام حسین اور خانوادہ امام کی عطیم قربانی سے لیکر امام حسن عسکری تک ہر امام کے حالات ذندگی کسی معتبر کتاب میں پڑھ کر ایک غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کی تکلیف کر لی جائے کہ ان ائمہ کی ذندگی اور نعم و عشرت کے ماحول میں پلے دنیا کے مختلف ممالک میں اربوں کی جائیدادوں کے مالک پاکستانی اشرافیہ کے جان نشین شہزادوں اور شہزادیوں میں کیا کوئی بات یکساں بھی ہے ؟ قیادت کی اولاد میں منتقلی کے لئے kingdoms اور دنیوی بادشاہتوں کی مثال لانے سے قبل شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو بھی دیکھ لینا چاھئے کہ سگے چچا متعدد چچا زاد اصحاب کبار اور امام الاولیاء باب المدنیہ العلم زوج بتول کے ہوتے ہوئے اپنا کوئی تنظیمی انتظامی ریاستی اور سیاسی جان نشین مقرر نہیں فرماتے۔ آپ کے بعد وہ لاکھوں اصحاب رسول جن کے برابر قیامت تک کا کوئی غیر صحابی غوث بھی نہیں پہنچ سکتا خلافت کے لئے ایک غیر ہاشمی ابوبکر بن قحافہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر اپنے جلیل القدر صحابی بیٹوں کے ہوتے ہوئے خلافت کے لئے عمر ابن الخطاب کو نامزد کرتے ہیں اور جماعت صحابہ بشمول جملہ بنو ہاشم کے متفقہ طور پر عمر الفاروق کی بیعت کرتی ہے ۔ ان کے بعد عبداللہ ابن عمر جیسے اعلی صلاحیتوں کے حامل صحابی رسول بیٹے کے ہوتے ہوئے انتخاب عثمان ابن عفان کا ہوتا ہے ۔ اور پھر حضرت علی بھی شہادت کے وقت انتہائی مشکل اور پر فتن حالات میں بھی اپنے اصحاب کے اصرار کے باوجود امام حسن کو خلافت کے لئے نامزد نہیں فرماتے بلکہ معاملہ مشاورت کے سپرد کر دیتے ہیں ۔رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین
تصوف و روحانیت کے ہندو پاک میں مروج موجودہ گدی نشینی کے سلسلہ کو جماعتوں میں قائم موروثی بادشاہت کے اثبات میں لانے والے کاش صدر اسلام اور قرون اولی کی اسناد تصوف کو ہی پڑھ لیتے کہ مولا علی سے حسن بصری کا کیا خونی تعلق تھا اور پھر آگے حسن بصری کا حبیب عجمی سے جبیب عجمی کا داود طائی سے ان کا معروف کرخی سے ان کا سری سقطی سے اور ان کا جنید بغدادی سے کیا کوئی نسبی تعلق تھا ؟ یا غوث الاعظم نے حسنی و حسینی نجیب الطرفین سید ہونے کے باوجود تصوف میں سند ابو سعید المخزومی سے کیوں لی ؟ یا کیا معین الدین چشتی اجمیری کا اپنے شیخ عثمان ہارونی سے کوئی نسبی رشتہ تھا اور آپ کی ولایت کے امین و قسیم بختار کاکی اور پھر ان کے نائب فرید الدین گنج شکر میں بھی کوئی نسبی تعلق موجود تھا؟ کیا بابا فرید کے فیض کا سلسلہ پورے ہندوستان میں پھیلانے والے صابر کلیر اور نظام الدین اولیاء آپ کی نسبی بیٹے تھے ؟ چلیں بہت دور نہیں جاتے نور محمد مہاوری، شاہ سلیمان تونسوی ، حضرت شمس الدین سیالوی اور پیر مہر علی شاہ کے درمیان بھی کوئی نسبی تعلق موجود تھا ؟ ۔ رحمہ اللہ علیھم اجمعین
موجودہ دور میں ملکہ برطانیہ کے خاندان کی عزت و تکریم کی مثال دینے والے کاش برطانیہ کے جمہوری و سیاسی نظام کا کچھ مطالعہ بھی کرلیں کہ وہاں ملکہ یا بادشاہ کے پاس کوئی آئینی و ریاستی اختیار نہیں اور جو ہیں ان کا بھی صدیوں سے استعمال نہیں کیا گیا ۔تمام تر اختیار آئینی اداروں کے پاس ہیں جن کی تشکیل ملکہ کی خواہش یا مرضی نہیں بلکہ آئینی روایات و قانون کے مطابق ہوتی ہے ۔ملکہ ملک کے وزیر اعظم کسی وزیر مشیر کا تقرر تو دور کی بات حکومتی یا ریاستی اداروں میں ایک کلرک کی بھرتی کا بھی اختیار نہیں رکھتی ۔ آپ کی ممدوح موروثی جماعتی قیادتوں کے مزاجوں کی ہٹ دھرمی ، طرز عمل کی آمریت اور رویوں کی شہنشاہی کے سامنے تو ملکہ برطانیہ کے شہزادے اور شہزادیاں بھی بونے بونیاں لگتے ہیں ۔
آگر آپ کو سیاسی جماعتوں میں موجود یہ موروثی قیادت کا نظام اتنا ہی محبوب ہے تو آپ کو مبارک ،لیکن خدارا حقائق کو توڑ مڑوڑ کر الفاظ و مترادافات کی بھول بھلیوں کے ذریعے جماعتوں میں قیادت کی منتقلی کے موروثی نظام کو عین تقاضائے اسلام ثابت کرنے کی کوشش کرکے اسلام کے آفاقی ہمہ گیر اور قیامت تک کے لئے جامع ضابطہ حیات کے تصورات کو پراگندہ تو نہ کریں ۔اسلام میں قیادت و سیادت کی اولاد میں منتقلی یقینا حرام و ناجائز نہیں لیکن بہرحال یہ نہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ و علی آلہ کی سنت ہے نہ يہ خلفائے راشدین آئمہ فقہہ اور اولیاء سلف میں سے کسی بھی طبقے کا معمول رہا ۔ اس کی کسی نے تلقین کی ہے نہ ہی اس کو کہیں پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ۔ اور جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس طرز عمل کی جمہوری نظام و روایات میں سرے سے کوئی گنجائش ہی موجود نہیں ۔ باقی اگر کوئی موروثی قیادتوں سے ہی جمہوری نظام کے کے قیام کی امید رکھتے ہوئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہنے پر ہی راضی ہو تو اس کو یقینا یہ بھی لکھا نظر آیا ہو گا کہ نصیب اپنا اپنا ۔۔ پسند اپنی اپنی ۔۔