PM-Imran-Khan 464

وزیراعظم کی عالمی اداروں سے جائز توقعات

کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں نے پوری دنیا، خصوصاً پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کی کمزور معیشتوں کو جس ناقابلِ یقین تباہی سے دو چار کردیا ہے اسے عالمی بینک کی جانب سے جنوبی ایشیائی ممالک کیلئے ایک ’’بھرپور طوفان‘‘ قرار دینا ایک ایسے حقیقی خطرے کی نشاندہی ہے جس کا اس وقت پاکستان کو بھی سامنا ہے، اتوار کو جاری ہونے والی بینک رپورٹ میں یہ انتباہ خاص طور پر سنجیدہ غور و فکر، ٹھوس پیش بندی اور عملی اقدامات کا متقاضی ہے کہ اس وبا کے منفی معاشی اثرات کے نتیجے میں پاکستان کو شدید کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، رواں مالی سال میں فی کس آمدنی میں بھی کمی کا امکان ہے نیز اقتصادی ترقی کی شرح نمو مثبت سے منفی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ بینک نے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کی تمام حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ شرح نمو پر پڑنے والے منفی اثرات روکنے کیلئے عارضی طور پر حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کی پالیسی اپنائیں اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ طویل عرصہ تک ناقابلِ برداشت قرضوں اور معاشی خسارے سے بچ سکیں۔ بینک رپورٹ کے مطابق خطے میں غربت کے خلاف عشروں کی جنگ کے ثمرات ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔ اس سال جنوبی ایشیا میں علاقائی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح 6.3فیصد رہنا تھی لیکن اب یہ زیادہ سے زیادہ 1.8سے 2.8کے

درمیان رہے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا اتوار کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر وڈیو پیغام اس پسِ منظر میں ایک بروقت، دور اندیشانہ اور دانش مندانہ پیش رفت ہے جس میں انہوں نے عالمی رہنمائوں، اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل اور عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں ریلیف فراہم کریں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ ترقی یافتہ ممالک امریکہ، جرمنی اور جاپان نے ایک ایک دو دو ٹریلین ڈالر کے امدادی پیکیج دیئے ہیں جبکہ پاکستان جو 22کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور جس کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے،8 ارب ڈالر مختص کرنے پر مجبور ہے۔ امیر ممالک تو بھاری رقوم خرچ کرکے کورونا کا مقابلہ کر رہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں لاک ڈائون ا ور معاشی سرگرمیوں پر بندش کی وجہ سے عوام کو بھوک کا سامنا ہے۔ خدشہ ہے کہ ان ممالک کے عوام کورونا کے علاوہ بھوک سے نہ مر جائیں، اس لئے انہیں عالمی قرضوں میں ریلیف ملنا چاہیئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ صحت پر زیادہ خرچ کرسکیں اور عوام کو بھی بھوک سے بچا سکیں۔ وزیراعظم نے مقدمہ تو پاکستان کا پیش کیا ہے لیکن وکالت تمام ترقی پذیر ملکوں کی کی ہے۔ پاکستان پر پچھلے سال دسمبر تک 41ٹریلین روپے کا غیر ملکی قرضہ واجب الادا تھا، جو ملک کے جی ڈی پی کا 94فیصد بنتا ہے۔ گویا محاورتاً کہا جا سکتا ہے کہ ملک کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، کورونا وائرس یہاں دیر سے پھیلنا شروع ہوا مگر حکومتی اقدامات کے باوجود اس کی رفتار کم نہیں ہوئی۔ متاثرین کی تعداد روز بڑھ رہی ہے لاک ڈائون کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہے، حکومت اربوں روپے وبا، بےروزگاری اور کاروباربند ہونے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کیلئے تقسیم کر رہی ہے۔ ابھی تک عالمی بینک 20کروڑ ڈالر امداد دے چکا ہے جو ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ڈونرز کے ایجنڈے میں قرضوں کی معافی بھی شامل ہے جو وقت کی ضرورت ہے۔ قرضے دینے والے تمام ممالک اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور عالمی اداروں کو وزیراعظم کی اپیل کا مثبت جواب دینا چاہیئے اور اپنے اپنے قرضوں میں پاکستان اور دوسرے ترقی پزیر ملکوں کیلئے ریلیف فراہم کرنی چاہئے تاکہ وہ وبا اور اس کے اثرات کا مقابلہ کر سکیں۔