اظہار خیال مفتی گلزار احمد نعیمی 567

وحدت امت از نظر علامہ اقبال ؒ کانفرنس. اظہار خیال: مفتی گلزار احمد نعیمی

وحدت امت از نظر علامہ اقبال ؒ کانفرنس
زیر انتظام: تحریک بیداری امت مصطفے
مقام: شاہ جی پیلس سیالکوٹ
اظہار خیال: مفتی گلزار احمد نعیمی
حضرت علامہ محمد اقبال ؒ نے اتحاد امت کے حوالے سے جو کام کیا ہے یہ اس وقت کا کام ہے جب امت مسلمہ خلافت عثمانیہ کے بعد بہت ہی شکستہ حالت میں تھی۔خاص طور پر اس دور میں جب ہر طرف مایوسی اور پریشانی تھی تو جناب علامہ محمد اقبال صاحبؒ نے اس مایوسی میں روشنی کے چراغ جلائے ،اپنے اشعار کی صورت میں اور محبت کی صورت میں فرمایا کہ ہمارا اعزاز مذہب تھا اور ہمیں مذہب کے ساتھ ہی جڑے رہنا ہے۔ ہمارا شیرازہ اس وقت تک سلامت رہے گا جب تک ہم مذہب کے ساتھ جڑے رہیں گے ۔ جب ہم مذہب سے دور ہونگے تو پھر ہم بکھرتے ہی چلے جائیں گے اور ختم ہوتے چلے جائیں گے۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے فرمایا :
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم بھی نہیں ، محفل ِ انجم بھی نہیں
مذہب زندہ ہے تو ہم زندہ ہیں، مذہب سلامت ہے تو ہم سلامت ہیں ۔ اس لیے آج بھی جب ہم بکھرے ہوئے ہیں تو ہمیں مذہب ہی جوڑ سکتا ہے۔ کوئی پولیٹیکل ، سوشل یا پھر کوئی اکانومیکل تھیوری نہیں جو ڑ سکتی ۔ اگر ہمیں جوڑ سکتا ہے تو مذہب ہی جوڑ سکتا ہے اور مذہب میں ایک ایسی ہستی جس ہستی کو جناب محمد رسول ﷺ کہتے ہیں ۔جو ہمارے نبی ہیں جو ہمارے رسول ہیں ان کی ذات کے ساتھ پوری قوم کی وابستگی ہی اصل کامیابی کا زینہ ہے اور اسی ہستی کی محبت ہی ہمارے دین اور مذہب کی مضبوطی ہے۔ مومن کبھی بھی بھوک ،موت سے نہیں ڈرا اس لیے اس نے کبھی بھی شکست نہیں کھائی اس نے اس وقت شکست کھائی جب محبت مصطفی ﷺ کو دل سے نکالا ۔ اس لیے علامہ محمد اقبالؒنے شیطنت کی سٹریجی کو واضح کرتے ہوئے فرمایاکہ شیطان ہمارے دلوں سے محمد مصطفی ﷺ کی محبت کو نکالنا چاہتا ہے۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگي تخيلات
اسلام کو حجاز و يمن سے نکال دو
افغانيوں کي غيرت دیں کا ہے يہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کي روايات چھين لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
ہم سے شیطان اور موجودہ دور کا شیطان بھی یہی کچھ چاہتا ہے اس لیے ہم نے ذات مصطفی ﷺ کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھنا ہے اور ذات مصطفی ﷺ کے ساتھ تعلق قائم رکھنا ہے۔یہ علامہ اقبال ؒ کا فرمان ہے یہی کامیابی ہے علامہ اقبال ؒ نے ہماری مختلف شناختوں کو قبو ل کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا :
جوہر ما با مقامی بستہ نیست
بادہ ی تندش بجامی بستہ نیست
ہندی و چینی سفال جام ماست
رومی و شامی گل اندام ماست
قلب ما از ہند و روم و شام نیست
مرز و بوم او بجز اسلام نیست
علامہ محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں میرا جوہر کسی مقام کے ساتھ وابستہ نہیں ہے، میرے جوہر کی تندو تیز شراب کسی جام کے ساتھ وابستہ نہیںہے میرا جو تعلق ہند سے ہے یہ میرے بدن کے اوپر والی مٹی ہے اورمیرا جو تعلق روم اور شام سے ہے یہ میرے بدن کے اندروالی مٹی ہے اور میرا دل نہ ہندی ہے اور نہ رومی ہے نہ شامی ہے بلکہ اس کی سرحد اسلام کے علاوہ کوئی اور سرحد نہیں ہے۔
علامہ محمد اقبال ؒتمام مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند دیکھنا چاہتے ہیںآج کے شیطان نے ہمارے لیے مختلف قسم کے جال بچھائے ہوئے ہیں یہ قرآن جس کو علامہ محمد اقبال ؒ نے کہا کہ ” قرآن بھی ایک” آج کا شیطان اس قرآن پر حملہ آور ہے ہمیں ان سازشوں کو دیکھنا ہوگا کہ جو اس قرآن کی حیثیت کو متنازعہ بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔عرب کی سرزمین پر ایک ایسا قرآن تیار کیا جار ہا ہے جس سے جہاد اور دیگر آیات نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اسی عرب کی سر زمین پر ایک یہودی عیسائی اور اسلام کو مکس مذہب بنا کر ایک مکسر تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس دین متین کو ہمیں حفاظت کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیے اس مر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس پر توجہ کریں اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کریں آج اس ملک میں بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے کہ بہت ٹیکنیکل طریقہ سے بعض چیزیں ایسی کی جارہی ہیں کہ ہمارے مسلکوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ پچھلے دنوں ایک بڑی جماعت کے جنرل سیکرٹری نے یہ کہا کہ ہم ایسا قرآن تیار کر رہے ہیں کہ جو ہمارے ائمہ طاہرین کے لکھے ہوئے قرآ ن کے مطابق ہو گا۔
یہ ایک ایسی چیز ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ جب موجودہ قرآن پر تمام امت مسلمہ کا اتفاق موجود ہے اور شیعہ سنی کسی قسم کا افتراق موجود نہیں ہے تو آخر ایک قرآن پر ریسرچ کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی جو اس کو تصدیق کرے جوہمارے پاس قرآن موجود ہے، جس پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے جس نے خود اپنے بار ے میں کہا” لَّا یَاْتِیْهِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ لَا مِنْ خَلْفِهٖ”(سورۃ حم السجدہ آیت ںمبر 42) ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا چاہیے اور ان سازشوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔
میں اپنے تمام مکاتب فکر کے جید علماءکرام سے گزارش کرتا ہوں کہ خداراایسی کوئی بات نہ ہونے دیں جس کی وجہ سے ہمارا اتحاد امت کا کام multiplied by zero ہو جائے ۔ اگر کوئی واعظ یا ذاکر ایسی بات منہ سے نکال دیتا ہے تو قابل معافی ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی ذمہ دار آدمی ایسا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ افتراق پیدا کرنا چاہتا ہے یا بیرونی سازشوں کا شکار ہو رہا ہے ۔ ہمیں دونوں اطراف پہ غور و فکر کر کے ایسا کوئی کام نہیں ہونے دینا چاہیے جو امت کی متحدہ چیزیں ہیں جن پر کسی قسم کا کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے اس پر ایک نئے سرے سے ریسرچ شروع کی جائے تا کہ افتراق کا ایسا بیج بویا جائے جو ہم سے استعمار تقاضہ کر رہا ہے یا پھر اسلام دشمن تقاضا کر رہا ہے۔ ہمیں اس پر سوچنا ہو گا، اس پر تفکر کرنا ہوگا۔ ایک ہمارا یہ کام ہے کہ ہم لوگوں کو اتحاد کے لیے اکھٹا کررہے ہیں اور ایک ہمارا یہ کام ہے کہ ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اپنی حکمت عملی سر انجام دینی ہو گی۔ و ما علینا الا البلاغ

اپنا تبصرہ بھیجیں