609

هرمز امن تجویز .محمد جواد ظریف (وزیر خارجہ ایران)

هرمز امن تجویز

محمد جواد ظریف (وزیر خارجہ ایران)

هرمز کا علاقہ بین الاقوامی اور توانائی کی تجارت میں تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ر روز تقریبا 15 ملین بیرل تیل یہاں سے گذر کر صارفین کو پہنچتا ہے اور ساتھ ہی مختلف تجارتی اشیا کا اتنا ہی حجم اس خطے کے اور دوسرے ممالک کے درمیان لین دین ہوتا ہے خطے کے ممالک کے لئے سیکورٹی اور استحکام بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کی ضمانت کے ساتھ ایک ناقابل تردید ضرورت ہے۔ خطےکے ممالک گذشہ کئی صدیوں سے اس علاقے کی سیکورٹی کو پورا کر رہے ہیں۔ جو کہ تعاون اور تعامل کے بغیر میسر نہیں ہو سکتی ہے۔

موجودہ بحرانی حالات یقینی طور پر ہمیں اس سوچ پر مجبور کرتے ہیں کہ علاقائی ممالک کو پایدار سلامتی کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے اور جس سے اب تک محرو م بھی ہیں، وہی بنیادی مشترکہ سوچ ہے کہ سلامتی اور سیکورٹی بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدنے اور ان غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے سے حاصل نہیں ہو سکتی، جنہوں نے مسلسل مداخلت اور صیہونی حکومت کی حمایت کے ذریعے سب سے بڑھ کر خطہ کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کئے ہیں بلکہ حقیقی سلامتی قوم اور قومی صلاحیتوں پربھروسہ کرنے اور علاقے کےدوسرے ممالک کے ساتھ اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی مرہون ہے۔
ہمارا خطہ علاقائی سطح پر مختلف شعبوں میں جامع مذاکرات کے ایسے فقدان کی قیمت چکا رہا ہے جس کے باعث امن اور خوشحالی کی جڑیں مکمل طور پر خشک ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ ہمارے خطے کو اس وقت الزام تراشیوں، تلخ اور جنگی ماحول پیدا کرنے والی بیان بازی، اسلحہ کی دوڑ اور انباروں سے کہیں زیادہ علاقائی مکالمے کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نےسامنے آنے والے خطرات کوسمجھتے ہوئے پہل کی اور علاقائی مکالمہ اسمبلی اور عدم جارحیت معاہدہ کی دو تجاویز پیش کی ہیں۔ اب خطرات اور چیلنجز کے بڑھنے سے خطے کو تباہی کے دہانے سے ہٹانے کیلئے نئے علاقائی مکالمے کے آغاز کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدت سےمحسوس کر رہے ہیں۔

خطہ کے تحفظ کی ذمہ داری مشترکہ طور پر خطہ کے ممالک کے اوپر ہے اور ہمیں اطمینان ہے کہ ہرمز کے علاقے کے تمام ممالک کی شمولیت سے بپھری موجوں میں خطہ کی کشتی کو امن، ترقی اور نمو کے ساحل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ خطہ کی سلامتی یقینی بنانا خطہ کے تمام ممالک کی بنیادی ضرورت ہے اور سلامتی اندرونی اور بغیر غیر ملکی مداخلت کے ہونی چاہئے۔ خلیج فارس کی اقوام کی قسمت مشترکہ دینی، ثقافتی، روایتی، تاریخی، جغرافیائی اور خانوادگی دلچسپیوں کی بدولت ایک دوسرےسے جڑی ہوئی ہے۔ اور سلامتی بھی اس سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ یا تو سب اقوام امن اور سلامتی سے مستفیذ ہونگی یا سب اس سے محروم رہیں گی، اسی بنیاد پر ہرمز امن تجویز کا خاکہ صدر اسلامی جمہوریہ ایران حسن روحانی کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔

ہرمز امن خاکہ متعلقہ آٹھ ممالک، سلطنت سعودی عرب، جمہوریہ عراق، سلطنت عمان، متحدہ عرب امارات ، حکومت کویت، حکومت قطر، سلطنت بحرین اور اسلامی جمہوریہ ایران کی شمولیت سے علاقائی مکالمے کے ذریعےوسیعتر سلامتی کے لیےکافی جاندار منصوبہ ہے جو کہ اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کی پابندی، اچھی ہمسائیگی، سالمیت اور خودمختاری کےاحترام، بین الاقوامی سرحدوں کےاحترام، اختلافات کے پرامن حل، دھمکی اور طاقت سے انکار، ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کے فوجی اتحاد یا معاہدے میں عدم شمولیت، ایک دوسرے کے داخلی اور خارجہ امور میں عدم مداخلت، قومی مذہبی اور تاریخی تقدس اور مظاہر کے احترام، دوطرفہ احترام کے رشتے، دو طرفہ مفادات اور خطہ کی تمام حکومتوں کی برابری کی سطح پر استوار ہے۔ اور امن، استحکام، ترقی اور خطے کے تمام ممالک کی حکومتوں اور عوام کی خوشحالی دو طرفہ تفاہم اور دوستانہ مسالمت آمیز تعلقات کی حوصلہ افزائی، دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے خاتمہ میں تعاون، تناؤ سے پرہیز، ہر قسم کے اختلافات اور جھگڑوں کے مسالمت آمیز اور مذاکرات کے ذریعےحل، تعلقات کی مضبوطی ، بچاؤ کے پیشگی اقدامات، توانائی سکیورٹی کی عمومی ضمانت، بحری جہاز رانی کی آزادی، تیل اور دوسرے وسایل کی محفوظ آزاد ترسیل، زندگانی اور فروغ تعاون کے ماحول کی حمایت، تعاملات، معاشیات، تجارت اور سرمایہ کاری مختلف سطحوں وشعبوں پر اور تمام ممالک عوام اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان اس کی تقسیم جیسے عظیم مقاصد کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ مذکور مقاصدتک رسائی ماہرین ، وزرا اور سربراہان حکومت کی مختلف سطوح پر ملاقاتوں کےذریعہ، دانشوروں، تھنک ٹینک اور پرائیویٹ سیکٹر کے رابطوں اور مختلف عمل درآمد گروپس بنا کر ترجیحات کے مطابق پیشرفت عمل لائی جائیگی۔

عدم جارحیت اور عدم مداخلت معاہدہ، اسلحہ کنٹرول اور اطمینان ساز اقدامات، اجتماعی ہلاکتوں والےاسلحہ سے پاک مختلف علاقوں کا قیام، فوجی رابطوں، ڈیٹا اور انفارمیشن کے تبادلے، ہاٹ لائن رابطوں کا قیام، پیشگی بچا‎ؤ کے نظام، منشیات ، دہشت گردی اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام، توانائی سیکورٹی کو بہتر بنانے، بحری جہاز رانی کی سبکے لیے آزادی، تیل ، گیس، توانائی، ٹرانزٹ اور حمل و نقل میں مشترکہ سرمایہ کاری، نجی شعبے کے دریمان تعاملات کا فروغ، معاشیات تجارت، ثقافتی اور سوشل تعاون، بین المذاہب مکالمہ، ثقافتی اور سیاحتی تبادلہ، سائنسی تعاون جیسے دانشوروں اور طالبعلموں کا تبادلہ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مشترکہ منصوبے، نئے پیدا ہونے والے سائنس شعبوں میں تعاون جیسے سائبر سیکورٹی، جوہری حفاظت ، ماحولیات کی حفاظت، خصوصاً سمندری ماحولیات، گردوغبار کے منفی اثرات سے بچاؤ اور انسانس همدردری کے شعبوں میں تعاون، جیسے مہاجرین ، پناہ گزینوں اور بے گھر افراد کے متعلق تعاون وہ اعلیٰ مقاصد ہیں جو عمل درآمد گروپوں اور آٹھ ممالک کی ملاقاتوں کے ایجنڈے میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ذریعہ ایک بین الاقوامی ڈھال کے قیام، بعض ارکان کی طرف سے ممکنہ تشویش کو برطرف کرنا اور عالمی برادری کے جائز مفادات کی حفاظت کے لیے بھی استعمال میں لایا جائیگا۔

بدیہی طور پر کسی بھی تجویز کی کامیابی کا دارومدار اس میں تمام ارکان کی شمولیت اور ان کے ایک دوسرے پر اعتماد کے اوپر ہے۔ صدر روحانی نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہےکہ مختلف حکومتوں، خطہ کے ماہرین کےنقطہ ہائے نظر جاننے اور هرمز امن تجویز کی تکمیل اور کامیابی کو ماپنے کے لیے اپنی مشاورتی کوششوں کا آغاز کروں ۔ اہل نظر صاحبان، تھنک ٹینک اور نجی شعبہ اپنی تعمیری تجاویز اور آراء ہرمز امن تجویز کو کامیاب بنانے اور تکمیل کے لیے مہیا فرما کر مدد کریں۔ہم اس پہل قدمی کے حقیقت کے روپ میں بدلنے کی امید لیکر خطے کے ممالک کی طرف سے مثبت ردعمل کے انتظار میں ہیں اور پہلے هہی سے مذکورہ بالا اصولوں اور مقاصد کے فریم ورک میں جامع اور وسیع تر مکالمے کے آغاز کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کر رہے ہیں