مولانا کی لیکسس جيپ اور نظر کے کچے
ڈاکٹر رحیق احمد عباسی
پہلے دور میں افواہیں اور غیر مصدقہ خبروں پر یقین کرنے والوں کو کان کا کچا کہا جاتا تھا اب دور بدل گیا ہے اس طرح کی افواہیں فیس بک ٹویٹر اور واٹس ایپ کے ذریعے منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں اور اس میں کردار ادا کرنے والوں کو آنکھ کا کچا ہی کہا جا سکتا ہے -جو کہیں نظر آئے آگے شیئر کردیا ۔اسی طرح کا معاملہ گزشتہ دنوں مولانا طارق جمیل صاحب کے ساتھ ہوا کہ ایم ٹی جے 1 نمبر پليٹ والی ایک جدید ترین لیکسس کی تصویر ان کی ملکیت ظاہر کرکے شیئر ہوتی گئی اور جس کے جی میں جو آیا تبصرہ کرتا چلا گیا جس پر مولانا صاحب کو اپنے آفیشل ٹویٹر سے اس سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ مولانا پر تنقید کرنے والوں میں ذیادہ تر کا تعلق ایسی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے جن کے لیڈر اور ان کے پورے خاندان مہنگی ترین بلٹ پروف گاڑیوں میں سر عام گھومتے پھرتے ہیں جن پر الزام ہے انہوں نے یہ سب کچھ کرپشن کی کمائی سے کیا ۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو کسی نہ کسی پیر کے مرید ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے پیر صاحب کی نسبت ان کو بلا حساب و کتاب جنت میں لیں جائے گی۔ ایسے پیر صاحبان اور ان صاحبزادگان اور آگے ان کی اولاديں اسی طرح کی مہنگی گاڑیوں کا استعمال کرتی ہیں جن کو غریب مریدین سے جمع ہونے والی نذروں سے خریدا جاتا ہے ۔ لیکن یہ سیاسی کارکن اور اندھے مرید انہی کڑوڑوں کی گاڑیوں کو نہ صرف جائز سمجھتےہيں بلکہ ان کا تبرکا بوسہ لینا بھی سعادت سمجھتے ہیں، اور ان گاڑیوں کے ساتھ سیلفیاں فخر کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں- لیکن مولانا طارق جمیل صاحب کی ذات پر کیچڑ اچھالنے میں وہ سب سے آگے ہیں ۔ یہ دوغلہ پن ہمارے معاشرے کا ناسور ہے ۔ ہمارے اپنےلیڈر اور مذہبی پیشوا جو چاہیں کریں ہم نہ صرف اس کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کے لئے ہر طرح کا جواز تراش لیتے ہیں ۔ لیکن وہ ہی عمل جب کسی اورکی طرف چاہے غلط ہی منسوب کر دیا جائے ہم اپنی توپوں کے تمام دھانے بغیر سوچے سمجھے کھول لیتے ہیں ۔ مولانا طارق جمیل صاحب کا تعلق ایک زمیندار خاندان سے ہے۔ وہ کسی حکومتی عہدے پر نہیں رہے کہ ان پر کرپشن کا الزام لگایا جا سکے۔ ان کے مسلک میں اس طرح کی پیری مریدی کو جائز ہی نہیں سمجھا جاتا جس میں پیر صاحب جنت کے ٹکٹ لئے مریدین کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہوں اور ان کا واحد کاروبار ایسے اندھے عقیدت مند مریدوں سے جمع کیا گیا چندہ ہو۔ نہ وہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں کہ سیاسی لین دین کے بدلے وہ مال جمع کر سکیں ۔ نہ وہ کسی مذہبی یا رفاہی تنظیم کے بانی و سربراہ ہیں کہ ان کے بارے میں یہ شک کیا جا سکے کہ ان سے منسوب مہنگی ترین لیکسس کو تنظیم کے فنڈز سے خریدا گیا ہو گا ۔ ان سب امکانات کے نہ ہوتے ہوئے ان سے منسوب گاڑی کی آڑ میں ان پر طعن و تشنیع کی گئی یہ ہمارے معاشرے میں پائے جانے والی بدظنی اور بدظنی پر قائم غیبت و اتہام کی روش کی شرمناک مثال ہے ۔ اسی طرح کی بے جا تنقید مولانا پر ان کے اپنے نام سے کپڑوں کے برانڈ کے اعلان اور افتتاح پر بھی کی گئ۔ یعنی واعظین و مبلغین کا صرف چندے پر گزارا ہونا چاہئے، کاروبار کی سنت پر عمل کرنا ان کے لیے جائز نہیں ۔ الميہ يہ ہے کہ اس بدقسمت صورت حال کے پس منظر میں مذہب کے ایک ایسے تصور کی موجودگی ہے جس کے فروغ میں مولانا طارق جمیل صاحب کا حصہ بھی باقیوں سے کم نہیں ۔ وہ ایک ایسا تصور ہے جس میں دنیا اور دنیا کے مال کو غلیظ ترین شے سمجھا جاتا ہے۔ اچھا مکان اچھی گاڑی اور اچھا لباس یہ دنیا کی چیزیں ہیں ۔ ظاہر ہے جب وعظ میں ذہد کے وہ تقاضے جو صحابہ کرام میں صرف اصحاب صفہ کا خاصہ تھے کو ہر مسلمان کےلئے ترغیب کے طور پر بیان کیا جائے گا اور سلوک کے وہ ضابطے جو تصوف کی کتب میں ذہد کی اعلی منازل کے متخصصین کے لئے بیان کئے گئے ان کو عام انسانوں کے لئے اسوہ کے طور پر بیان کیا جائے گا تو لوگوں میں آئیڈیل اہل مذہب کا جو تصور قائم ہوگا وہ ایسا ہی ہوگا جس کے تحت کسی اچھی گاڑی کا استعمال مولانا طارق جمیل جیسے ذہد و ورع کے مبلغ کے لئے جائز نہیں سمجھا جائے گا ۔ میں مولانا طارق جمیل صاحب يا کسی اور فرد واحد پر اس کا الزام نہیں دے رہا لیکن ہمارے اکثر مبلغین کی صورت حال یہ ہے ان کے بیان میں جن اخلاق کا ذکر ہوتا وہ ان کے برتاو میں نظر نہیں آتا ، وہ خطاب میں جس ذہد و ورع کی ترغیب دیتے ہیں ان کی ذندگی میں اس کی جھلک بھی نہیں ہوتی، وہ اپنی تقریروں کو جن واقعات اسلاف سے مزین بیان کرتے ان کا ظہور ان کی شخصیت سے کبھی نہیں ہوتا، وہ جس کردار کا مطالبہ اپنے سامعین سے کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے اپنی اولاد میں بھی نظر نہیں آتا۔ اس کا دوہرا نقصان ہوتا ہے -پہلا یہ کہ مذہب کا ایک ایسا تصور قائم ہوجاتا ہے جس کے پیمانے پر یہ حضرات خود بھی پورا نہیں اتر سکتے تو دوسرا جس کسی شخص کو ایسے واعظین کی قربت ملتی، ان کے معمولات سے اصل آگہی ملتی ہے تو وہ نہ صرف ان کے قول و فعل کے تضاد کی وجہ سے حضرت واعظ سے متنفر ہو جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات اس کا اعتماد جملہ اہل مذہب سے ہی اٹھ جاتا ہے ۔۔ جب مریدین اور سامعین کے لیے تو بیان کیا جائے گا دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر رہتا ہے اور اپنا عمل ایسا ہو کہ اپنی ذندگی کے آرام و آرائش کی ہی نہیں اپنی کئی نسلوں تک کے مستقبل کے تحفظ کے لئے ایسی بے چینی ہو گی کہ دیکھی نہ جائے تو پھر اس تضاد کو چھپانے کےلئے یہ کہنا پڑے گا کہ” تم خود تو دنیا میں رہو لیکن دل میں دنیا کو نہ بساؤ” ۔ اب دل کا حال تو اللہ کے علاوہ کون جانتا ہے ، سو کسی اور کے پاس دنیا ہو تو اس کے دل میں دنیا کی محبت و لالچ کی علامت ہے جبکہ حضرت مبلغ اور ان اولاديں جنتا چاہیں دنیا کے مال و اسباب جمع کریں ، محلات نما گھروں میں رہیں، مہنگی ترین گاڑیوں گھومیں ،ہوائی سفر بزنس کلاس کے آرام دہ ماحول میں کریں ۔۔ یہ سب تو دنیا میں رہنا ہی ہے دل میں دنیا کو بسانا تھوڑی ہے! اس طرح کے موقف سے چند ارادت مندوں اور مریدوں کی تو مطمئن شايد رکھا جا سکتا ہے معاشرے میں مذہب کو رائج نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے دور میں وعظ و تبلیغ کے مروج انداز اور ان میں استعمال کیا جانے والا مواد شاید اسی لئے دور روس نتائج کا حامل نہیں ۔ مذہب کی منزل معاشرے کی تعمیر ہے ہمارے ہاں مذہب تخریب کا باعث بن رہا ہے ۔ مذہب معاشرے میں امن قائم کرنا چاہتا ہے ہمارے ہاں سب سے ذیادہ جھگڑے اور فسادات مذہب ہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ ہماری مذہبی کاوشيں ان میں سے کسی ایک مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو پا رہی جو قرآن و سنت نے معاشرے کے لئے بیان کئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ مذہب کی ناقص تفہیم اور اہل مذہب میں قول و فعل کا تضاد ہے-
دنیا کی تخلیق اللہ نے اہتمام سے فرمائی اور واضح کیا کہ یہ کوئی کھیل تماشہ نہیں۔ زمین میں اللہ نے خزانے حضرت انسان کے لئے ہی رکھے۔ عقل و سائنس میں انسان کی ترقی اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں سے ہی ممکن ہوئی۔ یہ دنیوی ذندگی ہی آخرت کی کھیتی ہے۔ لہذا دنیا اور اس کے وسائل فی نفسہ انسان کے لئے ہی ہيں۔ کاروبار اور معاشی وسائل کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ انسان کو اس دنیا میں وہ ہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔ منع ظلم و استحصال سے کیا گیا ہے، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ناجائز ہے۔ جائز اور حلال ذرائع سے دنیا کمانا اور اس میں ترقی کرنا کوئی غلط بات نہیں ، اور کسی کے لئے بھی نہیں ۔ کاش واعظين و مبلغين اس طرح کی باتیں اپنے دفاع میں کرنے کے بجائے اپنے وعظ و تبلیغ کا حصہ بنائیں ۔ اپنے مریدین اور پیروکاروں کو جائز ذرائع سے دنیا کمانے اور اس میں ترقی کرنے کی ترغیب دیں ۔ زور ترک دنیا اور مال و زر کے حصول کی مذمت پر نہ دیں بلکہ تہذیب اخلاق اور تعمیر شخصیت پر دیں ۔ تاکہ ہم اسلام کے آئیڈیل معاشرے کی طرف بڑھیں جس میں ہر کوئی خوش اخلاق اور حامل حسن احوال ہونے کے ساتھ ساتھ خوش حال بھی ہو۔