241

منافقت کی تعریف (انشائیہ)

منافقت کی تعریف (انشائیہ)
تحریر: غفران کامل

اگر تعریف کا معنیٰ ستائش ہو تو یہاں منافقت کی تعریف سے مراد منافقت کی تعریف ہرگز نہیں بلکہ منافقت کی درست اور مثبت تنقید ہے جس سے منافقت کی تفہیم میں سہولت ہو اور ہم اسے اپنائیں تو مکمل شفافیت سے اپناسکیں۔ منافقت کرنے میں ہی منافقت سے بچ پائیں تو اخلاص کو بھی شاید پالیں۔ یاد رہے کہ منافقت تب تک منافقت ہے جب تک اخلاص کے لبادے میں ہو بصورتِ دیگر یہ زیادہ غلط جذبہ قطعاً نہیں۔ بس بدنامی کما چکا ہے ورنہ سفید پوشی میں سیاہ کرتوت سرانجام دینا بھی اتنا ہی غیر موزوں ہے جتنا سیاہ پوشی یا سرخ پوشی میں سفیدکاری کی کوشش۔ کیوں کہ سب مانتے ہیں کہ سیاہ دھبے سفید لباس پر برے دکھائی دیتے ہیں مگر یہ بھی سب جانتے ہیں کہ سفیدی کے چھینٹے سیاہ لباس پر پڑیں تو وہ بھی کچھ شاندار نظر نہیں آتے۔
تو بات تعریف و تنقید کی ہونا تھی۔ ایک مدت سے شعر و ادب میں بھی تنقید کے نام پر بے جا تعریف کے پل باندھنے کا رواج پڑتا اور بڑھتا جارہا ہے اور یہ عمل باقاعدہ منافقت کے زمرے میں داخل و شامل ہے سو یہ خیال آنا عین فطری ہے کہ منافقت کو لایعنی توصیف سے ہٹاکر درست تعریف یا تعارف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے تاکہ “دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی” کے مصداق تعریف کی تعریف اور تنقید کی تنقید ہوسکے۔ اگر اب بھی یہ اقدام نہ کیا گیا تو جس طرح سیاسی اور غیر مانوس سیاسی عہدوں کی ہونے والی تعریفیں، پلوں اور انڈر پاس کی صورت میں ہمارے آمنے سامنے اور اوپر نیچے ہیں اسی طرح ادبیات اور حیاتیات بھی رفتہ رفتہ خالی خولی تعریفوں کے کنکریٹ تلے دبتے جائیں گے اور نتیجہ خیزی اندوہناک ہوسکتی ہے۔ تب کچھ بھی کرنے کو نہ ہوگا۔ جس معیار کی شاعری جس مقدار میں ہماری موبائل سکرینز پر پڑھنے کو دستیاب رہتی ہے اور جیسی مغالطہ آمیز حدتک مخلصانہ انداز میں ڈھال کر واہ واہ برسائی جاتی ہے یہ شعر وادب کے لیے سم,قاتل سے بڑھ کر ہے۔ لیکن ایک بات دماغ کی آنکھیں کھول کر پڑھ لیجئے کہ ادب کسی معاشرے میں اکیلے وفات نہیں پاتا بل کہ انسانیت کو بھی لے کر غروب ہوتا ہے۔ تب صرف وحوش اور مشینوں یا کل پرزوں کی معاشرت بچ جاتی ہے۔
بات سمجھانا کس قدر مشکل ہے کہ ابھی تک صرف “منافقت کی تعریف” کی تعریف ہی ہو پائی تھی کہ موضوع بار بار ساتھ چھوڑنے لگ گیا اور ساری بات آگے بہت دور جا پڑی۔ دراصل اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ منافقت کا زمرہ بہت بڑا ہے۔ اس نے ہر شعبہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر کہیں منافقت کی فرینچائز موجود ملتی ہے جہاں دلکش اور پرفریب سلوگنز کے ساتھ ساتھ دیدہ زیب رنگوں میں ملبوس متوازن اجسام والوں کی خوب رو تصاویر والے دیوہیکل پوسٹرز آویزاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اشتہارات نے ہر طرف رات مچا رکھی ہے اور دن دیہاڑے روزناموں کے مدیران اپنے بینک بیلنس کو اوورلوڈ رکھنے کی اشتہا مٹانے کے لیے پردروغ اشتہار چھاپنے کو عین حلال سمجھ بیٹھے ہیں۔ ٹی وی چینلز کی ساری ریٹنگ کی گردش منافقت کے مدار میں ہے جہاں قوس قزح کے رنگ مزید رنگوں میں منتشر ہوتے اور ناظرین کی نظریاتی حق تلفی کا سامان کیے رکھتے ہیں۔
ڈرامے تو خیر پہلے بھی ڈرامے تھے اب تو مارننگ شوز اور ٹاک شوز بھی باقاعدہ “ہدایت کاروں” کے اشاروں پر ناچنے نچانے کے اہتمام پر مبنی ہوتے ہیں۔ لوگ ایجنڈا اوریئنٹڈ اور ڈکٹیٹڈ ڈرامہ اور فلم سکرپٹ کو رو رہے تھے کہ رمضان نشریات کے لیے قبل از وقت تیار ہونے والے پروگرامز سے پالا پڑگیا۔ شیطان جان گیا کہ ہر رمضان میں وہ قید کاٹتا ہے تو کیوں نہ شعبان میں ہی ریکارڈنگ چھوڑ کے جائے۔ یا کم ازکم ریکارڈنگ کی ساری پلاننگ دماغوں میں انسٹال کرکے جائے۔
(جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں