87

ملک مقصودشہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے اہم کردار ملک مقصود کون تھے؟

ملک مقصودشہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کے اہم کردار ملک مقصود کون تھے؟
پاکستان کے مقامی میڈیا چینلز پر جہاں معروف ٹی وی شخصیت اور کراچی سے پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی موت کی خبر دی گئی وہیں پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں اہم ترین کردار قرار دیے جانے والے ملک مقصود کی دبئی میں موت کی خبر بھی گردش کرتی رہی۔
پاکستان کے مقامی میڈیا میں چلنے والی خبروں کے مطابق متحدہ عرب امارات کی وزارت صحت کی جانب سے سات جون کو جاری کردہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں موت کی کسی وجہ کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن کچھ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی موت حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوئی۔
تاہم شریف خاندان کے ملازم ملک مقصود کی دبئی میں موت کی خبر سے متعلق ان کے اہلخانہ نے اب تک تصدیق نہیں کی اور نہ ہی ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق کر سکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے ملک مقصود کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
ملک مقصود کون تھے؟
ملک مقصود جنھیں ’مقصود چپڑاسی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، شریف خاندان کی رمضان شوگر مل کے ماڈل ٹاؤن میں واقع صدر دفتر میں بطور خاکروب کام کرتے تھے۔
ایف آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق ملک مقصود گذشتہ 15 سال سے رمضان شوگر ملز کے صدر دفتر میں تعینات تھے۔ اس صدر دفتر کی نگرانی وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز کرتے تھے۔
سنہ 2020 میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے میں کی گئی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے ملازم ملک مقصود کے نام پر مختلف بینکوں میں سات اکاؤنٹ تھے، جن میں تین ارب 70 کروڑ روپے سامنے آئے تھے۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق ملک مقصود کے نام سے بنے ایک بینک اکاؤنٹ میں جنوری سنہ 2017 سے فروری سنہ 2018 کے دوران تین کروڑ روپے جبکہ اس عرصے کے دوران دوسرے اکاونٹ میں سات کروڑ 41 لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی تھی تاہم ایف آئی اے ریکارڈ کے مطابق ملک مقصود کی ماہانہ تنخواہ صرف 25 ہزار روپے مقرر تھی۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق اس مقدمے میں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف مقدمے میں مبینہ طور پر پچیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوئی جس میں ان دونوں ملزمان کے علاوہ سلمان شہباز بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے رہے ہیں۔
ایف آئی اے نے مقدمے میں شہبازشریف اور ان کے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو مرکزی ملزم نامزد کیا ہے۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے اس مقدمے میں 16 ملزمان نامزد کیے گئے تھے۔ اس مقدمے میں اہم کردار قرار دیے جانے والے ملک مقصود کی موت سے قبل مقدمے کے ایک اور ملزم شبر پانچ ماہ پہلے ہی وفات پا چکے ہیں، اس طرح اب اس مقدمے میں ملزمان کی تعداد 14 رہ گئی ہے۔
یاد رہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں لاہور کے سپیشل جج سینٹرل نے چار جون کو ہونے والی سماعت کے دوران جن چار افراد کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، ان میں سلمان شہباز کے علاوہ ملک مقصود بھی شامل تھے۔
واضح رہے کہ نیب اور ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کے دوران ملک مقصود کے دبئی چلے جانے کی خبریں بھی مقامی میڈیا پر آئی تھی۔
منی لانڈرنگ کے مقدمے کی عدالتی سماعت کی کوریج کرنے والے لاہور کے صحافی ارشد علی کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو نے سنہ 2018 میں جب اس مقدمے کی تحقیقات کی تھیں تو اس وقت ملک مقصود اس مقدمے میں شامل تفتیش نہیں ہوئے تھے۔
’وہ اس عرصے کے دوران ہی دبئی چلے گئے تھے جس کے بعد نیب کی عدالت نے انھیں اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیا تھا۔‘
صحافی ارشد علی کے مطابق ’ملک مقصود اس کے بعد کبھی بھی پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے بھائی اور دیگر رشتہ دار لاہور میں ہی موجود ہیں۔‘
ارشد علی کا کہنا تھا کہ دبئی میں ملک مقصود کی موت کی اطلاعات ملنے کے بعد مقامی میڈیا کے افراد ملک مقصود کے بھائی کی رہائش گاہ پر پہنچے تاہم وہ گھر پر نہیں تھے تاہم اہلِ محلہ کا کہنا تھا ملک مقصود کے دیگر بھائی اور رشتہ دار لاہور کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں منتقل ہو گئے ہیں۔
ارشد علی نے بتایا کہ ’اہلِ محلہ کا کہنا تھا کہ وہ ان کے گھر بھی گئے ہیں جہاں پر انھوں نے ملک مقصود کی موت پر تعزیت کی۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان پریس کانفرنسوں اور جلسوں کے دوران منی لانڈرنگ کے مقدمے ملک مقصود کا نام لے کر وزیر اعظم شہباز شریف پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
عمران خان الزام عائد کرتے ہیں کہ میاں شہباز شریف کو اس وقت ملک کا وزیراعظم بنایا گیا جب انھیں منی لانڈرنگ کے مقدمے میں عدالت کی طرف سے چند روز بعد سزا دی جانی تھی۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد کسی کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہو۔ اس سے قبل وہ ایف آئی اے لاہور زون کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر رضوان کی موت پر تحقیقات کا مطالبہ
ایف آئی اے لاہور زون کے ڈائریکٹر 47 سالہ ڈاکٹر رضوان کی گزشتہ ماہ دل کا دورہ پڑنے سے موت ہو گئی تھی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے قیام سے عین قبل طویل رخصت پر چلے گئے تھے اور بعد میں ان کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان سپریم کورٹ سے اس معاملے کی تحققیات کا مطالبہ کرتے رہے اور وہ موجودہ وزیراعظم پر الزام لگاتے رہے کہ ان کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے ڈاکٹر رضوان کی موت ہوئی۔
یاد رہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے سمیت موجودہ حکومت میں شامل شخصیات کے خلاف مقدمات کی تفتیش میں مبینہ طور پر اثر انداز ہونے سے متعلق سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور عدالت نے ان مقدمات سے منسلک تفتیشی افسران کی تقرری و تبادلے سے روک دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں