dr mujahid mansoori 216

معیاری پرائمری تعلیم، پاکستان کی ناگزیر ضرورت

قارئین کرام! آئیں سمجھیں کہ کس طرح ہمارا بوسیدہ مجموعی طبقاتی نظامِ تعلیم ہمارے جملہ امراض میں مبتلا بیمار سماجی رویے کی تشکیل اور اِس میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ تشویشناک ہوتا وہ بیمار معاشرتی رویہ ہے جو عشروں سے ہمارے مسلسل سیاسی و اقتصادی استحکام اور اخلاقی بانجھ پن کا سب سے بڑا سبب اور اب ایک بڑی جڑ بن چکا ہے۔ اس مجموعی سماجی کیفیت میں ہوتے اضافے کے علاوہ اصلاح و بہتری کے حوالے سے یہ مکمل جامد ہے۔ اسی سے بنا اسٹیٹس کو ہی اب ملک پر مسلط وہ نظامِ بد ہے، جس نے ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار اور اُن کے معدودے چند معاونین کو خلافِ جمہوریت آئین و قانون بڑی مکاری سے اِس عوام دشمن ریاستی ڈھانچے کا لامحدود اور اصل بینی فشری بنایا ہوا ہے۔ اس کے بالکل برعکس عوام الناس کی زندگیاں بدترین سماجی ناانصافی سے سسک رہی ہیں۔ ان کی بنیادی سہولتوں تک کی بڑھتی محرومیوں نے انہیں ذہنی غلامی کے مایوس کن اور مہلک درجے میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہماری اس شدید بیمار کیفیت نے میرٹ کو کارنر کرنے، انفرادی و سماجی کیپسٹی بلڈنگ کو روکنے، نااہلی، کرپشن، چاپلوسی، کام چوری، تن آسانی، ممکنہ حربوں سے بےحد و بےحساب دولت سمیٹنے اقتدار و اختیار بھی خاندان برادری میں باٹنے اور عوام الناس و ملک وقوم سے لاپروائی جیسے انڈے بچے پیدا کئےہیں۔ یہی کچھ مکمل نظام یوں بن گیا کہ جمہوریت کی من گھڑت فلاسفی، تشریح اور بےدردی سے ہونے والی ناجائز لوٹ کھسوٹ میں حصے دار معاونین (بشمول متنازعہ ریاستی اداروں) کی معاونت سے پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ کا آئینی کردار محدود اور متنازعہ ہو گیا اور سیاسی قیادتیں گلی محلے، دیہات، قصبوں اور شہروں سے نکلنے کی بجائے منقسم گھرانوں سے نکل رہی ہیں۔ وہ خاندان جو اقتدار کے حصول، سنبھالنے مرضی سے چلانے اور بیرون ملک ناجائز منافع ٹھکانہ لگانے کے حوالے سے منقسم ہو گئے۔ بیمار و لاغر نظامِ تعلیم اور ری پروڈکٹو ہیلتھ (زچہ و بچہ صحت) کے سرکاری اور نجی بدترین ڈھانچے (جس پر گزشتہ ’’آئین نو‘‘ میں بات ہوئی) نے عوام دشمن متذکرہ سیاسی و حکومتی شیطانی چرخہ چلاتے رہنے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ یہ ایسا سوت تیار کر رہا ہے جس سے تیار ہونے والی رسیوں سے لاغر قوم کو باندھ کر ملک میں گندی سیاست کرپٹ اور نااہل قیادت کا کھیل ہوتا رہا اور جاری ہے۔یقیناً تعلیم کے ہی ذریعے سماجی رویے میں مطلوب تبدیلی برپا کرنے کے لیے ایک معیاری پرائمری تعلیم کا سسٹم جو مطلوب ناگزیر قومی نظام تعلیم کی ہی بنیادی جہت (DIMENSION)ہوگی، پلتے بڑھتے بچوں کی وہ کھیپ قومی سطح پر تیار کرے گا جن کے اسکولوں اور گھروں میں دوران تعلیم و تربیت ہی وہ کچھ ان بیلٹ (رچ بس) ہو جائے گا جو بچوں کو مستقبل قریب میں ایک متوازن پوٹینشل اور نجی اور شہری زندگی کے لیے مطلوب سٹیزن بنائے گا۔ ایسے پرائمری نظام کا پہلا لازمہ اور امتیاز یہ ہو کہ اس میں ملک کے ہر اسکول ایج کے بچے کو اسکول میں داخل کرنے اور بمطابق آئینی حق اسے بنیادی تعلیم سے نوازنے کی مکمل صلاحیت ہو۔ ابتدائی مرحلے میں ہی نظام کی کامیابی یا کمی خامی رہ جانے کا پہلا ٹیسٹ ہی یہ ہو کہ ہر اسکول ایج بچے کو اسکولنگ کے لئے انگیج کرنے میں کتنے فیصد کامیابی یا ناکامی ہوئی ہے ہر دو کی وجوہات ساتھ ساتھ ریکارڈ ہونا لازم ہے۔ یہ طریق ہمارے موجودہ پرائمری اسکول سسٹم میں یونیسکو، یونیسف اور کئی دوسری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسیوں کی طرف سے فراہمی فنڈز کی بنیاد پر اختیار تو کئے گئے لیکن بغیر کسی پالیسی، نظام اور قانون سازی اور موثر مانیٹرنگ سسٹم اور INTENDED BENEFICIARYگھرانوں کو انگیج کئے بغیر نتیجہ لٹریسی میں سست اضافہ، چائلڈ لیبر، اسٹریٹ چلڈرن ہے جو احساسِ کمتری کا شکار، مکمل ڈائرکشن لیس اور یوتھ کا خطرناک و تشویشناک سیکشن بنا۔ مجوزہ نظامِ تعلیم کا اہم ترین جز واسکولوں میں گائیڈنس ٹو فیملی یونٹ کو اساتذہ جتنا اہم اور لازم قرار دے کر قائم کرنا لازمی ہو، جو ماں باپ کی کیپسٹی بلڈنگ کے بنیادی کام کے علاوہ گھرانوں کے پلتے بڑھتے بچوں کی نشوونما میں رکاوٹوں کے حوالے سے آگہی فراہم کرے۔ اس کی نشاندہی اور اصلاح کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اس کام کے لیے ٹیچرز کو بھی لازماً ٹرینڈ کرنا ہوگا جو تدریس کے علاوہ فیملی کیپسٹی بلڈنگ میں ہمارے سوشل سسٹم کے جملہ لوازمات کے فریم میں یہ اضافی کردار بھی ادا کریں، اِس مقصد کے لیے صوبوں کے سوشل نیٹ ڈیپارٹمنٹس سے معاونت لیں، یہ بھی اس نظام کا لازمہ ہے۔ مشاہدہ بمطابق اور خدمت دینے والوں کے لیے اطمینان بخش ہونا لازم ہے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ اتنے وسیع پیمانے پر خواتین اساتذہ کو مائوں کی کیپسٹی بلڈنگ کی ٹریننگ کیونکر ممکن ہوگی؟ اس کے لیے صوبے کی سطح پر ریسورس پرسن تیار کرنے والی ٹرینرز کی ایسی تربیت گاہ قائم کی جائے جس کی صلاحیت یونین کونسل کی سطح پر ٹرینر تیار کرنے والا نظام قائم کرے گی۔ بچوں کو اسکولوں میں لٹریسی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرف شعور بڑھانے کے علاوہ ان کی شخصیت سازی کے لیے انہیں پُراعتماد بنانے تخلیقی سوال کرنے، دوسروں کے احترام، اپنی چیزوں پر ناز اور دوسروں کی BELONGINGSسے دور رہنے اپنے معاملات خود طے کرنے اور ان پر کنٹرول جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے اور بڑھانے اور سب سے بڑھ کر انہیں قدرتی ماحول کے تحفظ کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور احترام آدمیت کو اپنی زندگی کا لازمہ بنانے والے آسان ترین پیکیج سے کیپسٹی بلڈنگ کا اہتمام ہو۔سب سے اہم ناچیز کی تجویز یہ ہے کہ ملک بھر کا پرائمری نظام تعلیم تربیت یافتہ فقط خواتین اساتذہ اور خواتین ہی ریسورس پرسن، ٹرینر اور ماسٹر ٹرینرز کے حوالے کر دیا جائے ۔متذکرہ تجاویز کے مطابق اگر وفاقی حکومت اپنے وسائل سے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بالحاظ آبادی چند ماڈل اسکولز قائم کرے اور پھر پالیسی، ڈاکومنٹس کی تیاری، مزید ماڈل اسکولز کے قیام کے لئے رہنمائی کی آفر کرے بعد از اصل نظام خود صوبے بنائیں اور چلائیں۔ یقیناً اس کے لئے قومی سطح کا ماڈل پروگرام بنانے کے لیے بھی بہت وسائل چاہئیں یقین ہے کہ یہ نظام لاہور کی اورنج ٹرین، پشاور بی آرٹی اور لاہور، اسلام آباد اور ملتان کی میٹرو بس کے متنازعہ پروجیکٹس کے بجٹ کے مجموعی بجٹ کے ایک چوتھائی سے بھی کم بجٹ میں تیار ہو جائے گا۔ باقی آگے صوبوں کا اپنا اپنا رویہ اور صلاحیت ہو گی کہ وہ پورا نظام خود نافد کریں وفاقی حکومت صرف بڑی سہولت کار اور شروعات کرنے کا کردار ادا کرے اس کے لئے پالیسی بنانے، قانون سازی اور ابتدائی ادارہ سازی کرے یقین جانئے پانچ سال میں ہی سماجی رویوں میں تبدیلی بذریعہ اسکول اور فیملی یونٹس آنا شروع ہو جائےگی اور دس سال میں اس کا رنگ ڈھنگ اسکولوں گھروں سے نکلتا گلی محلے، بازاروں، پبلک مقامات اور ہر جگہ نظر آنے لگے گا اس کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس جیسے پروگرامز سے بھی ایک بڑے فیصد کی رقم پروگرام کو شفٹ کر دینی چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں