232

معاہدہ شکنی اور قانون شکنی کا کلچر

رسیدہ بود بلائے‘ولے بخیر گذشت‘ حکومت کی بے تدبیری اور وعدہ خلافی سے جنم لینے والا بحران طاقت استعمال کئے بغیر ٹل گیا‘ایک ڈیڑھ ہفتہ اگرچہ عوام کے صبر کا امتحان لیا گیا‘جی ٹی روڈ کی بندش اور مختلف النوع قیاس آرائیوں نے پوری قوم کا سکون برباد کیا‘معیشت کا نقصان اس پر مستزاد‘آصف علی زرداری نے جب کہا ’’وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘‘ تو سیاسی مخالفین اور میڈیا نے مذاق اڑایا‘تجزیہ نگاروں‘ کالم نویسوں اور ٹی وی اینکرز نے اس طرح مصرع پرخوب گرہ لگائی نوع بہ نوع مضامین کی غزلیں کہیں‘عمران خان کے دور میں مگر یہ تجربہ ہوا کہ زبانی وعدوں اور تحریری معاہدوں سے مکرنا حکمرانوں کا صوابدیدی اختیار ہے۔قرآن مجید میں ہر کلمہ گو کو ’’اوفوابالعہد‘ان العہد کان مسئولا‘‘(وعدے پورے کرو‘بیشک وعدوں کے باب میں تم جوابدہ ہو‘کی تلقین کی گئی۔ کسی ریاست کے ایک نہیں دو وزیر داخلہ اور دیگر حکومتی عہدیدار تحریری معاہدہ کر کے مکر جائیں اور سفارتی نزاکتوں‘بین المملکتی تعلقات اور قانونی مجبوریوں کا سہارا لینے لگیں تو اندرون اور بیرون ملک کون نادان ریاست‘حکومت اور اس کے عہدیداروں پر اعتبار کرے گا؟اس بارے میں کسی نے سوچا نہ فریق مخالف کو مطمئن کرنے کی زحمت گوارا کی۔ معاہدہ شکنی سے حالات خراب ہوئے تو ریاست کی طاقت کو بروئے کار لا کر مذہبی سیاست کے زور پر بائیس لاکھ ووٹ لینے والی تنظیم کو کالعدم اور حافظ سعد حسین رضوی سمیت تحریک لبیک کی سرکردہ قیادت کو گرفتار کر لیا گیا اور کسی مرحلے پر نتائج و عواقب کی پروا نہ کی گئی‘ تحریک لبیک کے مشتعل کارکن دھرنوں کے مواقع پر بلاشبہ قانون شکنی کے مرتکب ہوئے، ویسی ہی قانون شکنی جو تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے ان گھڑ کارکنوں کے مزاج کا حصہ ہے، صرف ڈاکٹر طاہرالقادری اور جماعت اسلامی کے کارکن اس سے مستثنیٰ ہیں، لیکن قانون شکنی کو فروغ تو ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے خود دیا‘بدترین قانونی شکنی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا۔الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے تیس سال تک کراچی میں کم و بیش پندرہ ہزار معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ فوج، رینجرز اور پولیس اہلکار ان میں شامل ہیں، کالعدم مگر یہ جماعت کبھی قرار نہ پائی۔ انتخابی و سیاسی عمل کا حصہ بنی رہی اور لاکھوں ووٹروں کے اعتماد کی حامل، لال مسجد کے عبدالرشید غازی اور اکبر بگتی کے خلاف طاقت کا استعمال حکومتی رٹ کی بحالی کے لیے ہوا مگر قوم ان آپریشنز کے منفی نتائج ومضمرات آج تک بھگت رہی ہے، خون کے دھبے ہیں کہ دھلنے میں نہیں آ رہے نجانے ع خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد بدھ کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پہلے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور پھر وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے پریس کانفرنس میں رٹ آف سٹیٹ بحال کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا عندیہ ظاہر کیا تو قومی سطح پر اندیشہ ہائے دور دراز نے جنم لیا۔ کسی کو لال مسجد کا آپریشن یاد آیا اور کوئی اکبر بگٹی کے قتل کے نتائج سے خائف نظر آیا۔ پنجاب میں رینجرز کی طلبی اور جی ٹی روڈ پر دیواروں کی تعمیر سے خدشات نے جنم لیا مگر حکومتی عہدیدار ڈٹے رہے کہ آپریشن کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے تحریک لبیک کو القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کا چربہ قرار دیدیا اور کہا کہ ریاست نے ان دونوں عسکریت پسند تنظیموں کا قلع قمع کر دیا‘ تحریک لبیک کس باغ کی مولی ہے۔ واقفان حال سے یہ بھی سننے کو ملا کہ وزیر اعظم عمران خان سعد رضوی کو کسی قیمت پر رہا کرنے کے حق میں ہیں نہ تحریک لبیک سے پابندی ختم کرنے کو تیار۔ Come what may۔ہیجانی کیفیت میں، مگر ساری ریاست مبتلا ہوئی نہ طاقتورادارے۔ علماء و مشائخ کا ایک طائفہ شیخ رشید احمد اور پیر نورالحق قادری کی معیت میں صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے ملا اور عقل کے ناخن لینے کی تلقین کی جبکہ ریاست کے ایک ستون نے جلتی پر پانی ڈالنے کی ذمہ داری وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان، عمران خان کے معتوب مفتی منیب الرحمن اور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے علامہ بشیر فاروقی کو سونپی۔ اوّل الذکر نے وزیر اعظم کو آپریشن سے باز رکھنے کی سعی کی اور ثانی الذکر، سعد حسین رضوی اور تحریک لبیک کی قیادت کو ہٹ دھرمی چھوڑنے پر قائل کرتے رہے، مفتی منیب الرحمن نے ماسٹر سٹروک لگایا اور دونوں فریقوں کے لیے آبرومندانہ معاہدے کی راہ ہموار کر دی، بشیر فاروقی نے لگی لپٹی رکھے بغیر معاہدے کی کامیابی کا کریڈٹ ریاست کے اس اہم عہدیدار کو دے ڈالا جو اس کا مستحق تھا، حکومت کی عہد شکنی، نامعقول اقدامات اور ہٹ دھرمی سے پیدا ہونے والی ہیجانی کیفیت کا خاتمہ اس مداخلت کے بغیر ممکن بھی نہ تھا، ثابت یہ ہوا کہ سول ملٹری تعلقات مثالی نہ ہوںتو مقبولیت کے زعم میں مبتلا عقل کل حکمران اور ان کے حاشیہ نشین سعد حسین رضوی اور تحریک لبیک سے ڈھنگ کے مذاکرات کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں نہ چند ہزار مظاہرین کو سمجھا بجھا کر واپس گھر بھیجنے کی اہلیت و قابلیت۔ تازہ معاہدے سے حکومت کی جان مظاہرین سے چھوٹی اور تحریک لبیک پر عائد پابندیوں کے خاتمے کی راہ ہموار ‘معاہدہ شکنی اور قانونی شکنی کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ سبق دونوں کے لیے یہ ہے کہ آئندہ معاہدے سوچ سمجھ کر اور عملدرآمد کی نیت سے کیے جائیں محض دفع الوقتی کے لئے نہیں‘ مظاہرے پرامن اور قانون کے دائرے میں مفید ہیں اور حکومت و عسکری قیادت کا ایک ہی صفحے پر رہنا سول حکمرانوں کے مفاد میں ہے۔ ایک سوال کا جواب ابھی حالات کے ذمے ہے کہ بڑبولے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وزیر مذہبی اُمور پیر نور الحق قادری کو مکھن سے بال کی طرح نکال کر نئی حکومتی کمیٹی کی تشکیل اور مفتی منیب الرحمن کی مذاکراتی عمل میں شمولیت کیا دونوں وزراء کرام پر عدم اعتماد ہے یا عمران خان کے لیے نوشتہ دیوار؟ کیا عمران خان اب بھی اپنی کور ٹیم پر نظرثانی نہیں کریں گے؟ہر حکمران کے اردگرد بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کی صلاحیت رکھنے والے کسی مرد معقول کی موجودگی ازبس ضروری ہے‘دوسروں کو قائل اور قومی مفاد کی حفاظت کرنے والا قول کا پکا‘زبان کا سچامرد معقول۔

اپنا تبصرہ بھیجیں