143

معاہدۂ ابراہیمی اور مشرقِ وسطیٰ کا نیٹواوریا مقبول جان

معاہدۂ ابراہیمی اور مشرقِ وسطیٰ کا نیٹواوریا مقبول جان
امریکہ جس کی ساری معیشت جنگ و جدال پر چلتی ہو، وہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد کیسے خاموش بیٹھ سکتا تھا۔ یوں تو دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے جنگی میدان مسلسل سجے رہتے ہیں مگر ان محاذوں میں استعمال ہونے والے اسلحہ کی مقدار اتنی کم ہے کہ یہ امریکہ اسلحہ سازی کی سلطنت جسے ’’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘ کہتے ہیں، اس کی ہوس پوری نہیں کر سکتی اس لئے امریکہ کو ہمیشہ ایک بڑے بحران کی ضرورت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جب طالبان کے ساتھ افغان سرزمین چھوڑنے کا معاہدہ کر رہا تھا تو ساتھ ہی ایک نئے محاذِ جنگ کی تیاریوں میں بھی مصروف تھا۔ آج ان تیاریوں کی بنیاد پر سجنے والا جنگی میدان (War Theater) بالکل واضح اور عیاں ہے۔ اس میدان کا ہدف یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کسی صورت بھی چین اور روس کو معیشت کے میدان میں آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ نومبر 2019ء میں پینٹاگون نے ہند اور بحرالکاہل (Indo Pacific) کے بارے میں جو پلان اپنے مستقبل کے عالمی منظرنامے کے طور پر پیش کیا، اس کے بنیادی مقاصد دو تھے، (1) چین کو مزید بڑھنے سے روکنا (Containment) اور (2) روس کی طاقت اور قوت کا خاتمہ کرنا۔ یہ دونوں مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں کئے جا سکتے تھے جب تک دو ممالک، پاکستان اور یوکرین کو یا تو مکمل طور پر اپنی کالونی یا گیریژن نہ بنا لیا جائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر دونوں ممالک کو معاشی بدحالی اور خانہ جنگی میں اس قدر مبتلا رکھا جائے کہ روس اور چین کے لئے ان دونوں ممالک کو راستوں کے طور پر استعمال کرنا ممکن نہ رہے۔ یہ بڑی جنگ جن بڑی قوتوں نے لڑنی ہے ان میں یورپ کے تمام ممالک، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اس کا محاذ آہستہ آہستہ گرم ہو رہا ہے۔ یہ سست روی کا شکار بھی ہو سکتا ہے مگر مستقل آمدنی کے لئے تو امریکہ اور اس کے حواریوں نے گذشتہ ایک سو سال سے ایک محاذ کو ہمیشہ گرم کر رکھا اور وہ ہے مشرقِ وسطیٰ۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اتحادی افواج خلافتِ عثمانیہ پر چڑھ دوڑیں اور اس کے حصے بخرے کرنے کے بعد ان کے درمیان دُنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کر کے ایک نہ ختم ہونے والی جنگ اور ایک ایسے میدانِ جنگ کی چنگاری سُلگائی گئی جس کے بارے میں تینوں ابراہیمی مذاہب، یہودیت، عیسائیت اور اسلام دُنیا کے خاتمے سے ذرا پہلے تک ایک بڑی عالمی جنگ کے انتظار میں ہیں۔ ایسا میدانِ کارزار جو کائنات کے اختتام تک چلے گا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ محاذ ایک مسلسل بھڑکتا ہوا الائو ہے۔ قومی ریاستوں میں تقسیم کردہ عرب دُنیا اسے اسلام اور کفر کی نہیں بلکہ عرب اسرائیل تنازعہ اور فلسطینی قومیت کی جنگ سمجھتے ہیں۔ جنگِ عظیم اوّل کے اتحادیوں نے عرب دُنیا کو زیرِنگیں رکھنے کے لئے یہاں کے کچھ ممالک میں عرب قبائلی سربراہوں کو بادشاہ بنایا تھا اور کچھ ممالک میں سیکولر، لبرل ڈکٹیٹر بٹھا دیئے۔ لیبیا سے لے کر عراق تک کے علاقے میں اس عرب لیگ کے بائیس ممبر ملک ہیں، لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس میں اسلامی حکومت قائم ہو۔ ان ممالک کے ڈکٹیٹروں اور مغرب کے سیکولر، لبرل حکمرانوں کے نظریات، بودوباش اور لائف سٹائل میں کوئی خاص فرق نہیں، جبکہ ان عرب بادشاہوں کا رہن سہن اور بودوباش بھی کسی زارِ روس یا رومن سیزر سے مختلف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ستر سالوں میں عرب ممالک کے شہریوں اور ان کے حکمرانوں کے درمیان تصورات و خیالات میں 360 ڈگری کا اختلاف ہے۔ ان تمام عرب ممالک کو پہلے اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک سے بھی اپنے تحفظ کے لئے اسلحہ خریدنا پڑتا تھا اور ساتھ ہی اپنے عوام کی نفرت کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی امریکی افواج کو اپنے ہاں اڈے دینا پڑتے تھے۔ لیکن 1979ء کے ایرانی انقلاب نے جیسے خطے میں ایک طوفان برپا کر دیا ۔ آیت اللہ خمینی نے عرب بادشاہتوں کے خلاف جس جنگ کا اعلان کیا تھا وہ آہستہ آہستہ سُلگنے لگی۔ کبھی معاملہ گرم ہو جاتا اور کبھی ٹھنڈا۔ اس کشمکش کے علاوہ پہلے ایران عراق جنگ، پھر عراق کویت جنگ اور آخر میں امریکہ عراق جنگ نے پورے خطے کے نظامِ امن کو ہی برباد کر کے رکھ دیا۔ عرب دُنیا کے بائیس ممالک کے حکمران اپنے اپنے ملکوں میں موجود باغی گروپوں، پراکسیز (Proxies) اور گیارہ ستمبر کے بعد جہادی گروہوں کے سامنے تقریباً بے بس ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں 2011ء میں ان تمام ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی بالادستی کے لئے ’’عرب بہار‘‘ کے نام پر ایسی تحریکیں شروع ہوئیں جن کے نتیجے میں خطے کے اکثر ممالک خوفناک خانہ جنگی میں جھونک دیئے گئے۔ اور یہ آج تک اس افراتفری سے نہیں نکل سکے۔ ان ممالک میں لبنان، شام، عراق، سعودی عرب اور یمن ایسے گروہوں یا پراکسیز (Proxies) کی جنگ میں مبتلا ہیں جو یا تو ایران کے پاسداران سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر القاعدہ، داعش اور دیگر جہادی گروہوں نے وہاں بنا رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کمزور عرب حکمرانوں کا دفاعی انحصار حیران کن طور پر اسرائیل پر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ یہودی ریاست جس کے ساتھ وہ گذشتہ ستر سال سے حالتِ جنگ میں تھے۔ متحدہ عرب امارات نے حوثی باغیوں کے حملوں سے بچنے کے لئے فروری 2022ء میں، اسرائیل کے گرین پائن (Green Pine) ریڈار حاصل کئے جو اس وقت دُنیا میں میزائلوں کا حملہ روکنے کیلئے سب سے کامیاب سمجھے جاتے ہیں۔ حوثی باغیوں کے حملے سے نہ صرف متحدہ عرب امارات متاثر ہو رہا ہے بلکہ خود سعودی عرب پر بار بار حملوں کی وجہ بھی یہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔ اس خوف کے عالم میں عرب بادشاہ اور سیکولر، لبرل ڈکیٹر دُنیا کی دونوں عالمی قوتوں کی جانب اپنے تحفظ کے لئے مسلسل دیکھ رہے تھے کہ پینٹاگون کا ہند و بحرالکاہل کاپلان آ گیا اور پھر یوکرین جنگ شروع ہو گئی۔ اب عرب ممالک کے تیل تک چین کی دسترس کو روکنا اور اس خطے کو روس کے اثر و نفوذ سے دُور رکھنا امریکہ نے اپنی حکمتِ عملی کا حصہ بنا لیا۔ یوکرین کی جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ کو اپنے قابو میں رکھنے اور وہاں موجود وسائل کو استعمال میں لانے کے لئے گذشتہ دو ماہ سے امریکہ اور عرب ممالک کے پسِ پردہ لاتعداد رابطے جاری تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے بڑی جنگ سے پہلے صف بندیاں ہو رہی ہیں اور عرب ممالک کو خاص طور پر گھیرا جا رہا ہے۔ تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ اب وہ مرحلہ آن پہنچا ہے کہ تمام عرب ممالک اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مل کر ایک ایسا گروپ تشکیل دے رہے ہیں جس کے خدوخال جنگِ عظیم دوّم کے بعد بننے والے نیٹو جیسے ہوں گے۔ اس نئے اتحاد کی بنیاد 13 اگست 2020ء رکھی گئی تھی جب اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین اور امریکہ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا اور پھر 15 ستمبر 2020ء کو ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جسے ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accord) کہتے ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آباد تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے ماننے والے ممالک اپنا ایک مشترکہ دفاعی نظام بنائیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکی کانگریس میں ایک ’’کاکس‘‘ (Caucus) قائم ہے جس نے کانگریس میں 8 جون 2020ء کو ایک بل پیش کیا ہے جس کا نام ہے “Deterring Enemy Force and Enabling National Defense Act” (DEFEND Act)۔ اس ایکٹ کی کانگریس سے منظوری کے بعد کیا کچھ ہو سکتا ہے، یہ سب ایک حیرت کدہ ہے۔
معاہدۂ ابراہمی کے خدوخال تشکیل دینے اور اس پر عرب ممالک کو راضی کرنے کی دو سو سالہ تاریخ ہے جو گذشتہ صدی میں زیادہ زور شور اور منصوبہ بندی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ مسلمانوں میں ایک تصور عام کیا گیا کہ دراصل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا دینِ حنیف ہی ہے جس پر موجودہ عیسائی، یہودی کاربند ہیں اور مسلمانوں کو بھی اسی پر چلنے کو کہا گیا ہے۔ اس کا مقصد عیسائیت اور یہودیت کو تحریفوں سمیت قبول کروانا تھا۔ عیسائیوں کے ساتھ معاملہ کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا کیونکہ دو ہزار سال سے وہ یہودیوں کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا قاتل نہ صرف مانتے چلے آئے تھے بلکہ اس کی بنیاد پر انہوں نے یہودیوں کے ساتھ بدترین، انسانیت سوز اور ذلّت آمیز سلوک بھی روا رکھا۔ مذہبی بنیاد پر ان کو ایک دینِ ابراہیمی کی میز پر بٹھانا ایسا ہی تھا جیسے سیدنا امام حسین ؓ اور یزید کے ماننے والوں کو اس بنیاد پر اکٹھا کر لیا جائے کہ دونوں مسلمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے عیسائیوں کو عیسائیت سے برگشتہ کرنے کے لئے پہلے دو نظریات، کیپٹل ازم اور کیمونزم کے چکر میں اُلجھا کر مذہب بیزار بنایا گیا۔ یہ نظریات ایک دوسرے کی ضد تھے مگر ان میں الحاد اور لبرل اخلاقیات مشترک تھے۔ ایک مذہب کو ذاتی فعل قرار دیتا اور دوسرا مذہب کو افیون کہتا تھا۔ مئی 1804ء میں نپولین کے برسراقتدار آنے پر انقلابِ فرانس نے چرچ کو عیسائیت سمیت نکال باہر کیا اور سو سال بعد اکتوبر 1917ء میں کیمونزم نے روس سے عیسائی مذہب کی شناخت تک مٹا دی۔ معاشرے سیکولر، جمہوری، لبرل اور کیمونسٹ ہوتے چلے گئے، پادری کونوں کھدروں میں دبک گئے۔ مرنجاں مرنج قسم کی کیتھولک عیسائیت وجود میں آ گئی جو خود کو عالمی اور وسیع المشرب کہتی اور پروٹسٹنٹ تو پہلے ہی سے عیسائیت کی بنیادیں ہلا چکے تھے۔ اب پیچھے رہ گئے مسلمان ،تو ان کو دینِ ابراہیمی کے تصور پر اکٹھا کرنے کے لئے کئی محاذوں پر بیک وقت کام شروع کیا گیا۔ پہلا کام وحدتِ اُمت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے خلافتِ عثمانیہ کو توڑ کر عرب قومیت کے زہر آلود پودے کو پروان چڑھایا گیا۔ ایک عربی بولنے والے، ایک اسلام کے پیروکار اور ایک ہی سرزمین پر رہنے والے عربوں کو بائیس قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ گویا قومیت کی تعریف کو زبان، رنگ اور علاقے سے نکال کر چھوٹے چھوٹے نسلی قبائلی گروہوں تک محدود کر کے عرب دنیا کو منقسم کیا گیا۔ وحدتِ اُمت کی علامت اور خلافتِ عثمانیہ کی وارث ترک قوم کو مذہب سے برگشتہ اور سیکولر، لبرل معاشرے میں ڈھالنے کے لئے ان پر دونمیہ (بظاہر مسلمان اور خفیہ یہودی) قوم کے فرزند کمال اتاترک کو مسلّط کیا گیا جس نے بزورِ طاقت ایسا معاشرہ تخلیق کیا جسے کم از کم عرب مسلمانوں سے شدید نفرت تھی۔ اس کے ساتھ ہی، علمی اور ترغیبی سطح پر جدید مذہبی سکالروں کی ایک کھیپ تیار کی گئی اور ان کی تحریروں اور تقریروں کو عام کیا گیا۔ یہ لوگ عمومی طور پر دنیا بھر کے ادیان کے برحق ہونے کے قائل تھے مگر تینوں ابراہیمی مذاہب کو خصوصاً یہ ایک ہی درخت کی شاخیں قرار دیتے تھے۔ آج اس وقت پوری دنیا میں لاتعداد ایسے ادارے، این جی اوز اور تھنک ٹینک، صہیونی اور امریکی سرمائے سے کام کر رہے ہیں جو ان تین ابراہیمی مذاہب کے ’’اتحاد ثلاثہ‘‘ کے قائل ہیں۔اس علمی اور ترغیباتی پسِ منظر کو دنیا بھر کے مسلمانوں پر ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے بعد شدت سے عام کیا گیا اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم علمی ہتھیار سمجھا گیا۔ بائیس عرب ممالک مدتوں سے واضح طور دو ایسے گروہوں میں منقسم ہیں جن کی وجہ سے پورا خطہ ایک ایسا آتش فشاں ہے جو کسی بھی دن لاوا اُگل سکتا ہے۔ محدود حالت میں اس کا آغاز 2011ء میں ’’عرب بہار‘‘ میں ہو چکا ہے۔ منقسم عربوں کا ایک گروہ حکمران ہے اور دوسرا گروہ عرب عوام۔ دونوں کی سوچ اور ترجیحات بالکل مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عرب حکومتیں کمزور ہیں اور اپنے استحکام اور بقا کے لئے انہیں عالمی طاقتوں اور غیر عرب قوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قریب ترین غیر عرب قوت اسرائیل ہے جسے اب عرب حکمرانوں نے اپنی سکیورٹی کی ضمانت سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ سو سالہ نفرت اور تین جنگوں کی تاریخ کو کھرچنا آسان نہیںتھا اور وہ بھی اس پسِ منظر میں کہ جب ایران گذشتہ چالیس سال سے القدس کے تنازعے کو زندہ رکھے ہوئے ہو۔ شام، عراق، لبنان، یمن اور بحرین میں اس کی پراکسیز کی موجودگی نے عرب حکمرانوں کو مزید خوفزدہ کر رکھا تھا۔ اس عالم میں معاہدہ ابراہیمی آ گیا، جس کا مدعا ابراہیمی مذاہب کے اتحاد کے نعرے کو خوش کن بنا کر پیش کرنا اور کمزور عرب حکمرانوں کا تحفظ کرنا تھا۔ 13 اگست 2020ء کو ہونے والے اس معاہدہ پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید النہیان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط ہیں۔ اس ابراہیمی معاہدے کے بعد ستمبر 2020ء میں بحرین، اکتوبر 2020ء میں سوڈان اور دسمبر 2020ء میں مراکش نے اسرائیل کے ساتھ معاہدات پر دستخط کئے اور سفارتی تعلقات بحال کر لئے۔ اس اہم ترین تبدیلی کے بعد فلسطین اتھارٹی اور حماس نے شدید ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے غداری اور صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کا راستہ قرار دیا۔ معاہدے پر عرب دنیا کے تمام حلقوں میں جو بے چینی پھیلی اس کو زائل کرنے کے لئے سعودی خفیہ ایجنسی کے سربراہ شہزادہ بندر بن سلطان نے فلسطینیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطین کے ’’سنٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ‘‘ نے اس معاہدے کے بارے میں سروے کروایا تو 80 فیصد فلسطینیوں نے اسے غداری اور ذلّت سے تعبیر کیا۔ یہ معاہدہ جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی کاوشوں کا نتیجہ تھا وہ آج بھی امریکی ریاست اور اسرائیلی حکومت کا اہم ترین پالیسی ستون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ کی آغوش (Fold) میں دیگر مسلمان ملکوں کو لانے کی بھر پور کوششیں جاری ہیں۔ سعودی عرب اور عمان ایسا بہت پہلے کر گزرتے اگر انہیں اپنی رعایا کے ردّعمل کا خوف نہ ہوتا۔ پاکستان پر اس معاملے میں پہل کرنے کے لئے دبائو مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ کئی اخبارات کے مطابق عمران خان کے دو ٹوک انکار نے سب کچھ کھٹائی میں ڈال دیا۔ انڈونیشیا کی سیکولر حکومت یہ قدم اٹھانے کے لئے پر تول رہی ہے لیکن اس کی زیادہ اہمیت نہیں اور دوسرا وہ بھی اپنی رعایا سے خائف ہیں۔ اسی خوف کے تحت اب ایک نئی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے کہ عرب دنیا چونکہ بیک وقت اندرونی دہشت گردی اور ایرانی اثرات کی وجہ سے سخت سکیورٹی خدشات کا سامنا کر رہی ہے، اس لئے تمام مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بشمول اسرائیل کا ایک ایسا دفاعی اتحاد بنایا جائے جو نیٹو کی طرز پر ہو۔ عرب حکمران کتنے بھی ایک دوسرے کے خلاف ہوں، سب کا امریکہ ہی سرپرست ہے اور وہ ان سب کو آسانی سے ایک میز پر لا کر بٹھا سکتا ہے۔ بلکہ اب تو یوں لگتا ہے فلسطینی بھی رام ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ماہ جب میں استنبول میں حماس کے سربراہ خالد مشعل کی محل نما عمارت میں وہاں موجود قیادت سے ملا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اگر ترکی اور سعودی عرب وغیرہ کے تعلقات بہتر ہو گئے تو حماس بھی کتنی آسانی سے ابراہیمی معاہدے کا حصہ بن سکتی ہے اور اب تو یہ تعلقات بہتر ہو ہی چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا نیٹو عرب حکمرانوں کی ضرورت ہے اس لئے کہ ان کی حکومتیں عوامی ردّعمل سے بچ سکیں اور یہ اعتماد امریکہ کی اس لئے ضرورت ہے کہ روس یوکرین جنگ میں یہ خطہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مخالف نہ کھڑا ہو۔ نیٹو کا آغاز ایک میزائل ڈیفنس سسٹم سے کیا جا رہا ہے جس کی کمانڈ اور کنٹرول بظاہر مشترکہ ہو سکتی ہے لیکن اصل میں اسرائیل کے پاس ہی ہو گی ۔ یہ میزائل ڈیفنس سسٹم کن لوگوں کے حملوں سے عرب حکمرانوں کو بچانے کے لئے بنایا جا رہا ہے، یقیناً عرب عوام کے حملوں سے بچنے کے لئے۔ (ختم شد)

اپنا تبصرہ بھیجیں