542

معاشی استحکام کی نوید

ملک کی اقتصادی حالت سے پریشان قوم کے لئے یہ ایک بڑی خوش خبری ہے کہ عالمی معاشی درجہ بندی کے ادارے موڈیز نے اپنی تازہ رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کو منفی سے ہٹا کر مستحکم کا درجہ دے دیا ہے اور اس کی وجہ حکومت کی طرف سے بین الاقوامی ادائیگیوں میں توازن، پالیسیوں میں ردوبدل اور کرنسی میں لچک کے مثبت اقدامات بتائے ہیں۔ موڈیز نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت کے دانشمندانہ فیصلوں کی بدولت ملکی معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور پاکستان اب سرمایہ کاری کے اعتبار سے بھارت سے بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ موڈیز کی طرف سے پاکستان کے معاشی منظر نامے کو منفی سے نکال کر مستحکم میں ڈالنا ملک کے معاشی استحکام کے لئے حکومتی اقدامات کی کامیابی کی تائید ہے جبکہ مشیر اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کے مطابق اس کا یہ مطلب ہے کہ حکومت کے مشکل فیصلوں کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ موڈیز کی رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کے مثبت پہلو اجاگر کئے گئے ہیں جبکہ منفی پہلوئوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اب بھی کم ہیں جن کے بڑھنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس وقت جتنا زرمبادلہ موجود ہے وہ صرف دو ڈھائی ماہ تک اشیاء کی درآمد کے لئے

کافی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مقرر کیا جانے والا ریونیو کا ہدف مکمل طور پر حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہوگا۔ تاہم بیرونی اقتصادی خطرات میں کمی آئے گی۔ اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کا رجحان دیکھا گیا ہے اور ہنڈرڈ انڈیکس 10ماہ بعد 40ہزار کی نفسیاتی حد عبور کر گیا ہے جو کاروبار میں بہتری کی علامت ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی آئی جو درآمدات میں کمی سے مزید کم ہو گا۔ ڈیزل کے بجائے بجلی کی پیداوار میں کوئلے اور قدرتی گیس کے استعمال اور پن بجلی پر توجہ سے تیل کی درآمدات بھی بتدریج کم ہوںگی۔ اس کے ساتھ ہی تجارت میں بہتری کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہو گا جو تجارتی عدم توازن دور کرنے کیلئے ضروری ہے۔ مالیاتی خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کے 8.6فیصد کے لگ بھگ رہ گیا ہے اور مستقبل میں جی ڈی پی کے تناسب سے حکومت کا ریونیو بڑھنے کا امکان ہے۔ حکام ٹیکس چوری روکنے اور سیلز ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے انکم ٹیکس فائلنگ کا خود کار نظام متعارف کرا رہے ہیں۔ وزیراقتصادی منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ موڈیز نے 15ماہ بعد ہی حکومتی اقدامات کے نتیجے میں معیشت میں بہتری کی تصدیق کردی ہے جو یقیناً حوصلہ افزا بات ہے اور وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود ملکی معیشت میں استحکام آیا ہے مگر اصل معاشی استحکام اس وقت آئے گا جب اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں گے۔ سردست تو غریب طبقہ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ اسے خوش کن اعداد و شمار سے بہلایا نہیں جا سکتا۔ اس کی پریشانی اس وقت دور ہو گی جب اشیائے خوردنی سمیت ناگزیر ضروریات زندگی اس کی قوت خرید کے اندر ملیں گی۔ اس کے ساتھ ہی کاروباری طبقے کے حالات سازگار ہوں گے۔ اس کے لئے شرح سود کم کرنا بھی ضروری ہے۔ 13فیصد سے زائد شرح سود کی موجودگی میں کاروبار کے لئے قرضے لینا مشکلات میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے اگرکاروباری حالات بہتر نہیں ہوں گے کارخانے اور فیکٹریاں نہیں لگیں گی۔ تجارت عام نہیں ہو گی تو بے روزگاری بھی دور نہیں ہو گی۔ معیشت میں حقیقی استحکام کے لئے مہنگائی، بے روزگاری اور اس طرح کے دوسرے مسائل پر قابو پانے کے لئے بھی حکومت کو مزید محنت کرنا ہوگی۔