ansar-abbasi urdu articles 330

مسجد میں رقص۔ توبہ توبہ

ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی حدیں پار کی جا رہی ہیں لیکن ریاستِ پاکستان سو رہی ہے۔ لڑکی کی شادی لڑکی کے ساتھ ہوئی اور یہ اُسی پاکستان میں ہوا جو اسلام کے نام پر بنا۔ مسجدجس کو کورونا کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا اور جو اللہ کا گھر ہے اُس کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ناچنے گانے والوں کے لئے کھول دیا گیا۔

یہ بھی اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں ہی ہوا۔ شادی کرنے والی ایک لڑکی کو دارلامان بھیج دیا گیا دوسری کے عدالت میں عدم پیشی کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ واقعہ بالکل اُسی طرح کا ہوا جس کا مغرب میں رواج پیدا کیا جا رہا ہے۔

یعنی عورت کی عورت سے اور مرد کی مرد سے شادی ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کتنا بڑا جرم ہے، اگر اس بات کا ریاستِ پاکستان کو احساس ہوتا تو ان دونوں لڑکیوں کے خلاف بہت سخت کارروائی ہوتی۔ اب تک اُنہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈالا جا چکا ہوتا اور اُنہیں ایسی مثال بنایا جاتا کہ کوئی ایسی حرکت دوبارہ کرنے کی جرات نہ کرتا۔

مسجد اللہ کا گھر ہے جہاں مسلمان اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کے لئے جاتے ہیں۔ مسجد کا اپنا ایک تقدس ہے جس کا خیال رکھنا ہر مسلمان کے ساتھ ساتھ کسی بھی اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن لاہور کی ایک تاریخی مسجد کو ایک پروڈکشن ہاؤس کیلئے گانے کو پیکچرائز کرنے کیلئے کھول دیا گیا۔

ویسے تو کوئی بھی مسلمان مسجد میں نماز کے لئے جا سکتا ہے چاہے ایک گانے والا ہو یا ایک ناچنے والی لیکن رقص اور گانے کی عکس بندی کے لئے اللہ کے گھر کو کھولنا نہ صرف گناہ کا کام ہے بلکہ خلافِ قانون اور آئین کے منافی بھی ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِس واقعہ پر ریاست حرکت میں آتی اور متعلقہ ناچنے گانے والوں، پروڈکشن ہاؤس کے ذمہ داروں اور اس سب کی اجازت دینے والوں کو گرفتار کیا جاتا، اُنہیں جیل میں ڈالا جاتا لیکن یہاں بھی سوشل میڈیا کی طرف سے اس واقعہ پر شور مچانے پر پنجاب حکومت نے بس اِس واقعہ کا نوٹس لے لیا جبکہ ناچنے اور گانے والوں نے میڈیا کے ذریعے لوگوں کی دل آزاری پر معافی مانگ لی۔

نہ ریاست کی طرف سے کوئی مقدمہ درج ہوا، نہ کسی کی گرفتاری ہوئی۔ ہاں شاید انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مٹی پائو۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر اس واقعہ پر شور نہ مچتا تو حکومت نوٹس لینے والا تکلف بھی نہ کرتی۔ کچھ عرصہ قبل لاہور کی بادشاہی مسجد کے بالکل سامنے کسی پنجابی گانے پر ایک اداکارہ کا انتہائی فحش ڈانس فلمایا گیا جو سوشل میڈیا پر شیئر ہوا لیکن وہ بیہودگی بھی ہماری حکومت اور ریاست کی نظر سے اوجھل رہی۔

اگر کسی جج، جنرل یا کسی اہم حکومتی فرد کے خلاف کوئی نازیبا بات سوشل میڈیا تک میں سامنے آ جائے تو عدالت فوری نوٹس لے کر سخت ایکشن لیتی ہے، حکومت بغیر وقت ضائع کیے ایف آئی اے اور دوسری ایجنسیوں کے ذریعے ایسے افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیتی ہے۔ یعنی ایکشن ایسے انداز میں لیا جاتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی ایسی حرکت دوبارہ نہ کرے لیکن اگر کوئی اسلامی شعار اور شرعی احکامات کا مذاق اُڑاتا ہے، جیسا کے اوپر بیان کیے گئے دو واقعات سے ظاہر ہوتا ہے، تو نہ حکومت اور نہ ہی عدالت اُس انداز میں ایکشن میں نظر آتی ہے جیسے وہ اپنے ذات کی عزت کے تحفظ کے لئے کارروائی کرتے ہیں۔

ہماری ریاست، عدالت، حکومت اور دوسرے متعلقہ اداروں کا یہ رویہ نہ صرف آئینِ پاکستان کی روح کے منافی ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی خلاف ہے اور یہی ریاست کا وہ رویہ ہے جس سے اسلامی احکامات اور اسلامی شعار کا مذاق اڑانے والوں کو اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں روزانہ نئی نئی حدیں پار کرنے کی شہہ ملتی ہے۔