مسئلہ فلسطین اور اتحاد امت
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
07 اکتوبر2023 کو طوفان الاقصیٰ آپریشن حماس کی طرف سے اسرائیل پر ایک ایسا حملہ تھا جس نے صیہونی ریاست کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور اس کے تین لیئرز پر مشتمل دفاعی نظام کی حقیقت کو بھی طشت ازبام کر دیا۔ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ عظیم مجاھد اور مقاومت کا بے مثال ہیرو یحیٰ سنوار تھا۔ جسے صیہونی فوج نے 17 اکتوبر 2024 کو غزہ کے میدان میں شہید کر دیا۔ یحی سنوارنے ساری عمر یا تو میدان کارزار میں گزاری یا اسرائیل کے عقوبت خانوں میں۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا۔
مقام فیض کو ئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئی یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
یحیٰ السنوار ایک مضبوط اور طاقتور مزاحمتی رہنما تھا جس نے سیاست کے ساتھ ساتھ عملی جہاد میں بھی حصہ لیا۔ وہ شہادت کے عظیم مرتبے کا متمنی تھا سو اللہ نے اسے عطا فرما دیا۔ وہ کہتا تھا کہ میں اب عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا ہوں جو موت کے قریب ہے ، اس عمر میں کوئی ہارٹ اٹیک سے مرتا ہے تو کوئی فالج اٹیک ، سے ، میں چاہتا ہوں کہ مجھے اللہ ایسی موت دے جو ڈرون اٹیک, میزائل اٹیک یا ایف 16 کے اٹیک سے ہو۔ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا۔ وہ شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہو گیا۔ وہ میدان جہاد میں کھڑا رہا۔ دشمن اس کے حوصلے کبھی پست نہ کر سکا۔ اس کا عزم صمیم اور اس کا شوق شہادت اسے کامیاب کر گیا، وہ کربلا کے شہیدوں کے ساتھ جا ملا۔
مسئلہ فلسطین کے حل کیلیے اور صیہونی قابض درندوں سے مسجد الاقصی آزاد کرانے کے لیے اہل فلسطین ابھی تک ہزاروں قیمتی جانوں کے نظرانے پیش کرچکے ہیں۔ اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کر رہا ہے اور طوفان الاقصیٰ سے لیکر آج تک 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ وہ ہمارے معصوم بچوں کو نہ صرف ہسپتالوں اور سکولوں میں بلکہ ارحام مادران میں بھی انہیں نشانہ بنا رہا ہے۔ فلسطینیوں کی اس خوفناک نسل کشی پر پورا عالم اسلام مجرمانہ چپ سادھے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر اہل غزہ ، فلسطینیوں اور لبنانیوں کی حمایت میں امت مسلمہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا مگر وہ خاموش ہے۔ بلکہ بعض اسلامی ممالک تو غزہ کے مجاہدین کی شہادتوں پرخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ عرب ممالک کے اس غیر دانشمندانہ رویے پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ ایک عرب ملک کے مشہور اخبار ’’عکاظ‘‘ نے یحیٰ السنوار کی شھادت پر وہ خوش ہو کر بڑی ہیڈنگ لگائی۔ اسرائیل تلحق النسوار بھنیہ ، حماس بلا رائس ترجمہ:۔( اسرائیل نے السنوار کو ھانیہ کے ساتھ ملا دیا اب حماس کا کوئی قائد نہیں ہے)۔ میں اپنے قارئین سے التماس کرتا ہوں کہ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ عرب کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
خلافت عثمانیہ کے انہدام کے بعد اسلام دشمنوں نے ہماری طاقت کو توڑنے کے لیے ہمیں جغرافیائی طور پر تقسیم کر دیا۔ خصوصا اہل عرب کو چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں میںمتشکل کر دیا۔ جو اپنا دفاع بھی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پھر ان پراپنے کٹھ پتلی حکمران مسلط کردے ، پھر انہیں بے حس بنانے کے لیے ان کی فکری شناخت اور ان کی روایات کو بھی ان سے چھین لیا۔ آج آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ امت کا کوئی اتحاد نہیں ہے ، کوئی دستور نہیں ہے اور کوئی متفقہ نصب العین نہیں ہے۔ امت مسلم کروڑوں افراد کا ایسا ریوڑ بن چکی ہے جسکا کوئی نگہبان اور محافظ نہیں ہے۔
مغرب نے نہایت چالاکی سے ہمارے خاندانی نظام کو ختم کرنے کے لیے اقتصادی تصور کو بہت حسین اور خوشنما بنا کر ہمیں دکھایا ہے اور امت اس کے اس شیطانی چنگل میں پھنس گئی ہے۔ ہماری اسلامی شناخت بہت تیزی سے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں افواج کے سربراہان امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ اسی طرح سربراہان مملکت بھی اپنے اپنے ممالک میں امریکہ اور مغرب کے ایجنڈے کی ترویج کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے۔ وہ کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ عیاشیوں میں مست قوم اپنی انکھوں کے سامنے ہی اپنے بھائیوں کا خون بہتا دیکھ رہی ہے۔
علامہ اقبال نے فرمایا تھا:۔
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فکر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
تجاویز:۔
۱۔ امت کو تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ قران و سنت کے ایجنڈے پر عمل کریں۔
۲۔ مسلمان صدیوں سے موجود اپنی روایات کا تحفظ کریں۔
۳۔ مسلمانوں کی عسکری قوت میں اضافہ کیا جائے اور تمام اسلامی ممالک کی عسکری قوت کے تحفظ کے لیے کوئی عملی منصوبہ بندی کی جائے۔
۴۔ مغربی میڈیا کے مقابلے میں مسلم ممالک ایک مشترکہ میڈیا ہاؤس تشکیل دیں۔
۵۔ ملت اسلامیہ ایک متفقہ دفاع کونسل تشکیل دے جس کے تمام مسلمان ممالک رکن ہوں۔ اسلامی ممالک کے درمیان ایک مضبوط دفاعی معاہدہ ہو اور ایک اسلامی ملک پر حملہ تمام اسلامی ممالک پر حملہ تصور کیا جائے۔
۶۔ امت اپنی جوان نسل پر بھرپور توجہ دے اور ان کی محرومیوں کو ختم کیا جائے تاکہ وہ مغرب کی طرف ہجرت کرنے کا نہ سوچیں۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں اضطراب اور مستقبل کی فکر انہیں اسلام مخالف قوتوں کی گود میں جا پھینکتی ہے ، اس سے انہیں بچایا جائے۔ تمام اسلامی ممالک اتحاد امت کو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا حصہ بنائیں۔
۷۔ سنی شیعہ اختلافات کو شیعہ سنی دشمنی نہ بننے دیا جائے۔ مسلکی دیواروں کو اگر ہم توڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو ناقابل شکست ہو سکتے ہیں۔
وماتوفیقی الاباللہ