200

مزاحیہ اور سنجیدہ باتیں. ڈاکٹر عبدالقدیر خان

ہر قوم، ہر ملک، ہر فرقہ، ہر قبیلے میں مزاحیہ لطیفے ہوتے ہیں۔ مجھے اس کا احساس اس وقت ہوا جب میں یورپ میں 15 برس قیام پذیررہا ۔ جرمنی، ہالینڈ اوربیلجیئم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ہالینڈ میں ملازمت کی۔ جب میں کراچی میں رہائش پذیر اور طالب علم تھاتو اس وقت مجید لاہوری کا نمکدان(دو آنے قیمت) بہت مشہور تھا ۔ یہ رسالہ لطیفوں سے بھرا ہوتا تھا‘ اس میں خاص طور پر سکھوں کے بارے میں بہت لطیفے ہوتے تھے۔ ایک دوست نے سردار جی کے بارے میں لطیفہ بھیجا تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

(۱)لندن میں ایک گاہک ایک دکان پر گیا اور پوچھا سرسوں کا تیل ہے؟ دکاندار نے پوچھا کیا تم سردار جی ہو؟ گاہک غصّہ سے بولا، جی ہاں! میں سردار ہوں لیکن ایک بات کا جواب دو! اگر میں زیتون کا تیل مانگتا تو تم پوچھتے کہ کیا میں اٹالین ہوں؟ اگر میں نے تم سے ساسج مانگا ہوتا تو کیا تم مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں جرمن ہوں؟ اگر میں تم سے جھٹکے کا ہاٹ ڈاگ مانگتا تو کیا تم مجھ سے پوچھتے کہ میں یہودی ہوں؟ اور اگر میں تم سے حلال گوشت مانگتا تو کیا تم مجھ سے پوچھتے کہ میں مسلمان ہوں؟ اور اگر میں تم سے ٹاکو مانگتا تو کیا تم مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں میکسیکن ہوں؟ دکاندار نے کہا نہیں میں نہیں پوچھتا۔ تو پھراگر میں نے تم سے سرسوں کا تیل مانگا تو تم نے مجھ سے کیوں پوچھا کہ میں سردار ہوں؟ دکاندار نے جواب دیا۔ اسلئے کہ یہ شراب کی دکان ہے!

(۲)میرے پیارے مرحوم آرکیٹیکٹ دوست اقبال خان لندن کی ایک فرم میں کام کرتے تھے وہاں ایک سکھ بھی کام کرتا تھا۔ ایک روز ان کے ایک انگریز دوست نے کہا کہ اس نے سنا ہے کہ سرداروں کے بارے میں بہت مزاحیہ باتیں مشہور ہیں۔ اقبال خان نے کہا سچ ہے۔ اچھا تم اس کے پاس ٹھیک دن کے بارہ بجے جانا اور پوچھنا مسٹر سنگھ کیا وقت ہوا ہے۔ وہ ٹھیک بارہ بجے اس کے پاس گیا اور پوچھا ! کیا وقت ہوا ہے؟ سردار جی نے گھڑی کی طرف دیکھا اور غصّہ سے کہا تم کو کس نے یہ بات بتائی‘ ہے مجھے بتائو اس کا سر پھاڑ دوں گا۔

(۳)اسی طرح اقبال خان کا بیٹا جنید خان اسکول میں پڑھتا تھا اس سے اس کے کلاس فیلو سکھ لڑکے نے پوچھا کہ وہ بڑا ہو کر کیا کرے گا۔ جنید خان نے کہا میں چاند پرجائوں گا۔ جنید نے سردار سے پوچھا تم کیا کرو گے وہ بولا میں سورج پر جائوں گا۔ جنید نے کہا وہاں تو بہت سخت گرمی پڑتی ہے کہ انسان جھلس کر مرجاتا ہے۔ سردار مسکرایا اور بولا اتنا تو مجھے بھی معلوم ہے‘ میں رات کو جائوں گا!

اب آئیے چند اعلیٰ اقوال اور نصیحتیں بیان کرتا ہوں۔

(۱)مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں کہ زاہد کا زہد اپنی جگہ مگر عارف چونکہ ﷲ تعالیٰ کے عشق میں سرشار ہوتا ہے‘ اس لئے عشق کی منازل طے کرنا اس کے لئے مشکل نہیں اور وہ اپنے اسی جذبۂ عشق سے سرشار عِشق کی وجہ سے وہ مقام ایک لمحہ میں حاصل کرلیتا ہے جو زاہد پچاس برسوں میں بھی طے نہیں کرسکتا۔(۲)مولانا رومیؒ نے فرمایا کہ چالاکی سے بچو کہ کہیں تم آزمائش میں مبتلا نہ ہوجائو۔ ﷲ پاک کے طلبگار بنو اور اپنی زندگی کا مقصد خالقِ حقیقی کو بنالو۔ ﷲ پاک نے حضور نبی صلی ﷲ علیہ وسلم سے فرمایا کہ جب لوگ آپؐ سے میرے متعلق دریافت کریں تو ان سے کہہ دیں کہ میں ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ اگر طلب سچی ہے تو یقیناً مقصدِ حقیقی مل جاتا ہے۔(۳)مولانا رومیؒ بیان کرتے ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی تخلیق کی حقیقت کو جانے اور اپنے بنائے جانے کا مقصد جانے۔ انسان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا وہ اس مقصد پر غور کرے اور اس مقصد کو جاننے کی کوشش کرے۔ انسان ظاہر کی بجائے باطن سے محبت کرنا سیکھے اور ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو اس کے باطن کو سنواریں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ بادشاہ تھے مگر جب حقیقت ان پر آشکار ہوئی تو تخت و تاج چھوڑ کر جنگلوں میں چلے گئے اور پھر نابغہ روزگار اولیاء ﷲ میں شمار ہوئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سے بلقیس کو محبت ہوئی مگر اس کے دل میں تخت سے محبت بھی تھی جبکہ ایک دل میں دو کی محبت کا ہونا محبت کی دلیل نہیں۔(۴)مولانا رومیؒ بیان کرتے ہیں کہ ساتھ رہنے کے لئے قدر مشترک ہونا ضروری ہے یعنی نیکوں کی صحبت اختیار کرنے کیلئے پہلے نیک ہونا لازم ہے۔ بروں کی صحبت میں برے ہی بیٹھتے ہیں اور نیکوں کی صحبت میں نیک ہی بیٹھتے ہیں۔ اگر ابلیس‘ جو کہ اپنی عبادت و ریاضت پر مغرور تھا ‘حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کردیتا تو پھر حضرت آدم علیہ السلام کو نیکوں کے ساتھ شامل کرنے میں اعتراض آجاتا کہ انہیں ابلیس جیسے مغرور نے بھی سجدہ کیا تھا۔ پس حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ کرنا بھی دلیل ہے اور ابلیس کا سجدہ نہ کرنا بھی دلیل ہے۔(۵)مولانا رومیؒ بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی حدیث کو کسی مقام پر بیان کرنے سے قبل اس کے سیاق و سباق پر غور کرو اور اس کے مفہوم پر غور کرو۔ ظاہر کی محبت کی بجائے باطن کی محبت پر توجہ دو اور ظاہر کو سنوارنے کی بجائے باطن کو سنوارو۔ ﷲ عزوجل کے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں سے بغض و عداوت نہ رکھو کہ ان سے بغض و عداوت رکھنا تمہارے لئے خسارے کا باعث ہے۔ آپ کے ذوقِ نظر:

(1)

جو گزر رہی ہے گزار دو، نہ گلہ کرو، نہ بُرا کہو

جو تمھارا حال ہے دوستو وہی سارے ملک کا حال ہے

(2)

خون سے جب جلا دیا ایک دیا بجھا ہوا

پھر مجھے دے دیا گیا ایک دیا بجھا ہوا!

اپنا تبصرہ بھیجیں