religion-politics 706

مذہب کو سیاست دانوں سے بچائیں تحریر مفتی گلزار احمد نعیمی

مذہب کو سیاست دانوں سے بچائیں
مذہب انسانی زندگی کی ایک اشد ضرورت ہے جس طرح انسان اشیائے خورد ونوش کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا بالکل اسی طرح وہ مذہب کے بغیر بھی اپنی زندگی کے معاملات نہیں چلا سکتا۔مذہب ایک ضرورت بھی ہے اور ایک بڑی حقیقت بھی۔دنیا کا کوئی شخص مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا۔شرق وغرب میں رہنے والے تمام انسان کوئی نہ کوئی مذہب ضرور رکھتے ہیں۔اب دنیا میں ایک ایسا طبقہ ہیدا ہورہا ہے جو مذہب بیزار ہے اور مذہب کے بغیر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔اسی طرح ایک اور طبقہ ہے جو مذہب کو اس کے تقاضوں کے مطابق اپنانا تو نہیں چاہتا مگر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو استعمال کرنا چاہتا ہے اور کر بھی رہا ہے۔
ہم سب پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور اس کے بانیان کے پاکستان کے بارے میں واضح بیانات موجود ہیں جن سے مترشح ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کا مقصد محض زمین کا ایک خطہ حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایسا ملک بنانا مقصود تھا کہ جس میں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔اکابرین پاکستان نے پاکستان کی انہی بنیادوں پر پاکستان کی تعمیر کی اور قرارداد مقاصد میں واضح طور پر لکھ دیا کہ اس ریاست کا سپریم لاءقرآن وسنت ہوگا اور یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جو قرآن وسنت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہو۔چناچہ ایسا ہی ہوا۔اس ملک میں قادیانیوں کے دجل سے اہل پاکستان کو بچانے کے لیے انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا۔ان اکابرین کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جب اقتدار کی زمام انکی اولادوں اور متبعین کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے اپنے اکابرین کے نقطئہ نِظر سے انحراف کیا اور مذہب کی نشرواشاعت اور اسکی تقویت کی بجائے اسے اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔اس میں مذہبی اور غیر مذہبی دونوں سیاستدان شریک ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ہمیشہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے ساتھ ملکر محض اس لیے انتخابات لڑتے ہیں کہ انہیں مذہبی ووٹ مل سکے۔دیگر مذہبی سیاسی جماعتیں ان بڑی سیاسی جماعتوں سے ملنے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں مگر انہیں کوئی قبول نہیں کرتا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں مذہب کی نشرواشاعت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں انہیں اپنی قوت کو بڑھانے کے لیے اور اپنی تقویت کےلیے مذہبی ووٹ درکار ہوتا ہے۔یہی کچھ ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔1949 سے 1973 تک مختلف مرحلوں میں قرارداد مقاصد ہویا 1973 کے آئین میں قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دینا یہ سب کچھ مذہبی قوتوں کے لیے بہت بڑا مواد ہے سیاست چمکانے کے لیے۔آئین میں ان اسلامی قوانین کے اضافوں کی وجہ سے سیاسی مذہبی جماعتوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی تاکہ نفاذ اسلام کی تحریک کو منظم کیا جاسکے۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مذہبی جماعتوں کی وجہ سے پاکستان میں مذہب کو بہت تقویت ملتی مگر یہ دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ مذہبی جماعتوں کا اسلام کے بارے میں بالکل غیرسنجیدہ رویہ ہے۔مغربی طاقتیں پاکستان سے اسلام کو دیس نکالا دینے کے لیے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدان عمل میں مصروف ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بہت بڑی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔پچھلی حکومت کا وومین پروٹیکشن بل منظور کرنا کسی معاشرتی ضرورت یا عوامی دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ بیرونی دباؤ کے تحت ایسا کیا گیا۔یہ بل عوامی خواہشات کے بالکل برعکس اور اسلامی تعلیمات کے بالکل مخالف تھا۔اس میں مرد کے بجائے عورت کو گھر کااصل مالک بنا کر عورت کو مرد کا آقاء بنا دیا گیا۔اس کی منظوری میں بھی ایک مذہبی جماعت نے اپنی خدمات پیش کیں جو ہر ایسے موقع پر حکومتوں کے لیے یہ” خدمت” سرانجام دیتی ہے۔یہ جماعت ہر پارٹی کی حکومت میں ساتھ ساتھ رہی ہے تاکہ “بوقت ضرورت کام آسکے” جب بھی کسی اسلامی روایت یا حکم کو ذبح کیا گیا اس مذہبی پارٹی نے اس کو نہلانے کفنانے اور دفنانے کے جملہ انتظام وانصرام اپنے ذمہ لے لیے اور اہل مذہب کو خاموش رکھنے اور انکی دلجوئی کے بھی جملہ اخرجات اپنی جیب سے کیے کہ یہ جیب پہلے ہی “غائبی امداد “سے بھر دی جاتی رہی ہے۔ مذہب کے خلاف جو حکومت جتنا کام کرنا چاہتی ہے وہ کرسکتی ہے بشرطیکہ اسے کسی معروف مذہبی جماعت کی سپوڑ حاصل ہو۔
یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ یہاں مذہب بہت ہی قابل افسوس حد تک سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے۔اگر کسی حکومتی عہدیدار سے مذہبی حوالہ سے کو غلطی سرزد ہوجائے تو اسے سیاسی پوانٹ سکورننگ کے لیے خوب استعمال کیا جاتا ہے۔غلطیوں پرپردہ ڈالنے کے بجائے اسے خوب اچھالا جاتا ہے تاکہ مذہب بدنام ہو اور مذہب کے لیے نفرت کے جذبات ہیدا ہوں۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب کو مذہبی بیروپیوں اور سیاسی پنڈتوں کے استحصال سے بچانے کے لیے کوئی مضبوط حکمت عملی اپنائی جائے۔اس مقصد کے حصول کےلیے مذہب کے حقیقی اور مخلص محافظین میدان میں آئیں اور ایک شاندار جدوجہد کے ذریعے نفاذ اسلام کے لیے بھرپور کوشش کریں۔
ہم لوگ جو سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اگر ہم للھیت اور اخلاص کے ساتھ اس جدوجہد کا آغاز کردیں تو بہت اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرے بہت سے دوست یقینا ایسے کمنٹ کریں گے کہ نعیمی صاحب آپ بسم اللہ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔لیکن اتنا کافی نہیں ہے بلکہ عملی کام کے ساتھ سامنے آئیں میری ہر قسم کی خدمات حاضر ہیں۔دوستوں سے گزارش ہے کہ بے شک مجھ سے ہی آغاز کریں کوئی اکٹھ کرنا ہے تو میں اس کے لیے حاضر ہوں کوئی اور قابل عمل خدمت ہے تو میں حاضر ہوں۔
طالب دعاء
گلزار احمد نعیمی