who is Muhammad sheikh 812

محمد شیخ کون ؟ قاری محمد حنیف ڈار

محمد شیخ کوایک روشن خیال اسکالر سمجھ کر مسلمان علماء کو اس سے مناظرے کی ترغیب دینے والے اصل میں ان کو ہانکا کر کے ایک ایسے شخص کے سامنے لا بٹھاتے ہیں جو اپنی گمراھی کی K2 پہ کھڑا ہے ، وہ سیدھا سیدھا آج کا نبی اور رسول ھونے کا دعویدار ہے ، وہ یہ لفظ صاف طور پر استعمال نہیں کرتا بلکہ کوشش کرتا ھے کہ سامنے والا اس کی یہ حیثیت خود سے ھی سمجھ جائے تا کہ اس کو خود سے کوئی خطرہ مول نہ لینا پڑے ـ

آپ جانتے ہیں کہ پہلے In اور Out کی لکیر مار کر پھر لکیروں کا ایک جال اس کے گرد بُن دیا جاتا ھے اور پزل بنا کر آپ کو کہا جاتا ھے کہ باھر کا رستہ ڈھونڈیں ، محمد شیخ بالکل وھی پزل ھے ، مسلمان اس کو مسلمان سمجھ کر اپنے دلائل تیار کرتے اورپیش کرتے ہیں ، اور جب اس کے سامنے پہنچ جاتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ھے کہ وہ ایک چالاک چیتے کا شکار کرنے کے لئے خرگوش کو شکار کرنے والے ہتھیار لائے ہیں۔

آپ مسلمانوں کے کسی فرقے سے بھی بحث کر لیں قرآن کریم وہ متفق دستاویز ہے جس میں سے دلائل پیش کیئے جائیں تو اگلے بندے کے لئے رد کرنا کافی مشکل ھوتا ھے ، مگر محمد شیخ وہ بندہ ھے جو موجودہ قرآن کو کتاب اللہ نہیں کہتا بلکہ اپنی انڈراسٹینڈنگ کو قرآن کہتا ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کا جو یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اسے قران پڑھایا ہے اس کے پیچھے پورا نظریہ ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ جسے ہم قران کہتے ہیں وہ اسے قران نہیں کہتا بلکہ صرف الکتاب کہتا ہے وہ الکتاب کی انڈراسٹینڈنگ کو القران کہتا ہے اور یہ انڈراسٹینڈنگ اس کے بقول اللہ نے اس پر ہی نازل کی ہے ۔ جب ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے والے رسول جو محمد بن عبداللہ ﷺ ہیں کیا ان پر قران نازل نہیں ہوا تو وہ کہتا ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے بھی الکتاب موجود تھی اور ممکن ہے اللہ نے محمد بن عبداللہ پر بھی اس کتاب کی انڈراسٹینڈنگ نازل کی ہو( جو عربی زبان میں ھو ) لیکن قران نے ان کا نام نہیں بتایا ۔ جب ہم پوچھتے ہیں کہ نام تو محمد ﷺ بتایا ہے تو وہ کہتا ہے کہ قران نے جو محمد بیان کیا ہے وہ نہ مرا ہے نہ قتل ہوا اس کے لئے وہ سورہ العمران آیت 145 کا حوالہ دیتا ہے( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ) ۔ اس آیت میں سے بھی وہ پورے جملے میں سے ایک ٹکڑا اٹھا کر اپنا اھرام تعمیر کرتا ھے جبکہ یہ آیت ھی اس کے اس نظریئے کو تہس نہس کر کے رکھ دیتی ھے کہ محمد ﷺ نہ فوت ھوئے ہیں اور نہ قتل ھوئے ہیں ،، غزوہ احد میں نبئ کریم ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کرجب صحابہؓ نے مختلف رد عمل کا اظہار کیا ، کچھ نہ کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہی نہ رھے تو اب جنگ کیسی ؟ کچھ نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہی نہ رہے تو جینے کا مقصد کیا رہ جاتا ھے لہذا وہ اندھا دھند استشہادی نیت سے کفار پر ٹوٹ پڑے۔

اللہ پاک نے اس پورے تصور کو ھی ایڈریس کیا اور فرمایا کہ ۔ وما محمد الا رسول،، محمد ﷺ رسول کے سوا کچھ نہیں خدا تو نہیں ہیں جنہیں موت نہ آئے ، قد خلت من قبلہ الرسل، ان جیسے کئ رسول پہلے فوت ہوگئے اگر یہ بھی ان کی طرح فوت ھو جائیں یا شھید ھو جائیں تو کیا تم الٹے قدم پھر جاؤ گے ؟ [ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ ٱللَّهَ شَيْـًٔا ۗ وَسَيَجْزِى ٱللَّهُ ٱلشَّٰكِرِينَ) ] دیکھئے جو آیت نبئ کریم ﷺ کے وصال کوبطور بشر کنفرم کر رھی ھے ، محمد شیخ اسی کو محمدﷺ کے نہ مرنے کی دلیل کے طور پر بیان کر رھا ھے اور اپنی اسی سوچ کو آج کا قرآن کہہ رھا ھے ـ

اللہ پاک نے قرآنِ حکیم دوسری جگہ فرمایا ہے ؎[ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ ـ الزمرـ ۳۱ ]بےشک آپ نے بھی مر جانا ہے اور ان لوگوں نے بھی مر جانا ھے پھر بےشک تم لوگوں کو اپنے رب کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں مقدمے کا سامنا ھو گا ]

محمد شیخ کا موقف انتہائی زگ زیگ ہے ، اس کے بقول محمد ﷺ نہ مرے ہیں اور نہ شھید ھوئے تو پھر کیا ھوئے ہیں ؟ وہ مختلف شخصیات کی صورت میں ظاھر ھو رھے ہیں ، اور موجودہ دور کا محمد وھی ہے جو الکتاب کو سمجھتا ھے وہ عربی قرآن کو اب پاکستانی اردودان محمد ’’ شیخ ‘‘ کی صورت اردو میں پیش کر رھا ھے ، اور یہ اردو تفہیم و تفسیر ھی اب کلام اللہ ھے ـ یہ موقف صوفیاء کے اس موقف کے قریب ہے کہ حقیقتِ محمدی کبھی موت کا شکار نہیں ھوئی بلکہ مختلف شخصیات کی صورت میں ظاھر ھوتی رھی ھے [ کدی خواجہ پیا بنڑ آناں ایں ، کدی گنج شکر بن جاناں ایں ، نت نویں توں روپ وٹانا ایں ] مگر صوفیاء نے قرآن کو چھیڑا نہیں بلکہ اپنے لئے الگ سے طریقت کا نام تخلیق کر کے اپنے تصورات کو شریعت کی تلوار سے بچا لے گئے مگر محمد شیخ سیدھا قرآن پر حملہ آور ھوا ھے وہ عربی قرآن میں سے اردو قرآن دریافت کرتا ھے اور دعوئ کرتا ھے کہ اس نے یہ اردو تفہیم براہ راست خدا سے سیکھی ہے ، جس طرح ایک واقعہ انجیل میں آیا ھے مگر قرآن نے اس سے مختلف واقعہ بیان کیا ھے تو انجیل والا خود بخود منسوخ ھو گیا اور غلط قرار پایا ھے ، اسی طرح اگر ایک بات عربی محمد ﷺ پر عربی میں نازل ھوئی ھے تو آج اردودان محمد ’’ شیخ ‘‘ پر اردو میں نازل ھو کر تازہ ترین فرسٹ ہینڈ خبر بن گئ ھے ، اورقرآن میں اگر اس سے کچھ مختلف ھے تو اس کی حیثیت اب انجیل کی خبر جیسی بن کر رہ گئ ھے حق وھی ھے جو محمد شیخ کے کمرے میں ہے ـ یہ وہ بات ہے جو وہ بالکل سیدھے سیدھے عوامی زبان میں کہہ دے تو طوفان برپا ھو جائے ،، مگر وہ گھما پھرا کر یہی بات کہہ رھا ھے۔

الکتاب کیا ھے جس کو محمد شیخ اپنے لیکچر میں متعارف کرا کر اس میں سے اپنا شئیر نکال رھا ھے ؟
محمد شیخ کے بقول الکتاب سنگل صیغہ ھے جبکہ اس کے ساتھ استعمال کیئے جانے والے الفاظ جمع کے صیغے میں بیان کیئے گئے ہیں ؎[وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (69) السجدہ ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور کتاب رکھی جائے گی، اور نبیوں اور شھداء کو لایا جائے گا اور ان کے ( اور ان کی امتوں کے) درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔

یہاں سے الکتاب کو اٹھایا ھے محمد شیخ نے اور بقول اس کے اگر فیصلہ آسمانی کتابوں کے مطابق ھونا تھا تو پھر کتاب کی بھی جمع لانی چاہئے تھی کہ کتابیں رکھی جائیں گی جس طرح نبیوں اورشھیدوں کو جمع کے صیغے میں استعمال کیا ھے تو کتاب کے لئے صرف الکتاب کیوں ؟حشر کے اس منظر میں جس الکتاب کا ذکر کیا گیا ھے وہ وھی کتاب ھے جس میں قرآن بھی لکھا ھوا ھے اور تورات زبور انجیل اور صحف ابراھیم بھی لکھے ھوئے ہیں اور ھمارے سمیت امتوں کے اعمال بھی لکھے ھوئے ہیں ـ
پہلے قرآن کو لیجئے ؛؛؛[ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ (21) فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (22).( سورہ البروج)[ (إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ * فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ * لا يَمَسُّهُ إلا الْمُطَهَّرُونَ * تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ) (الواقعة: 77،، 80) اسی کتاب محفوظ میں سے ھر امت کو اس کا حصہ یعنی نصیب نازل کیا گیا ھے ، اس کے لئے اللہ پاک نے الذین اوتوا نصیبا من الکتاب ،، جن کو دیا گیا کتاب میں سے حصہ ،، کا جملہ بول کر بتا دیا کہ ایک ہی کتاب میں سے تمام امتوں کو ان کے حصے کی کتاب دی گئ ،، النساء ۵۱ـ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ
النساء 44 ـ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ. اب آیئے کہ اسی کتاب میں کہ جس میں سے کتابیں نقل کر کے نازل کی گئیں ، اسی کتاب میں ھمارے مقدر بھی اور ھمارے اعمال بھی موجود ہیں اور اس الکتاب کا نام ام الکتاب ہے ،، یہ جو ھمارے دائیں بائیں والے فرشتے کتابت کر رھے ہیں وہ تمام صحیفے وہیں جمع ھو رھے ہیں ،،

[ يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ] ھمارے مقدر اس کتاب میں ہیں جو رب چاھے تو تبدیل کر سکتا ھے ، کسی حادثے کو مٹا بھی سکتا ھے ھماری دعاؤں کے طفیل یا ھماری کسی نیکی کے طفیل ، اور باقی بھی رکھ سکتا ھے ، اس کے ہاتھ کھُلے ھوئے ہیں اور کتابوں کی ماں اس کے پاس ہے۔
ھمارے اعمال اور الکتاب ![ : وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (الکہف ـ 49) اور رکھی جائے گی الکتاب پس تو دیکھے گا مجرموں کو کہ وہ سہمے ہوئے ہیں اس مواد سے جو اس کتاب میں ھے اور کہہ رھے ہیں کہ ھائے ھماری بربادی یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے نہ چھوٹا عمل چھوڑا ھے نہ بڑا مگر اس کو گن گن کر نوٹ کر رکھا ہے، اور جو انہوں نے کیا ھے وہ سب اس میں موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔

اس آخری جملے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا یعنی [ولا یظلم ربک احدا ] اور سورہ السجدہ کی الکتاب والی آیت کا جملہ [ و ھم لا یظلمون ] کی مماثلت کو دیکھ لیجئے کہ وہ الکتاب اعمال والی ھو گی ،،معذرت خواہ ھوں کہ تحریر لمبی ھو گئ مگر آپ یہ پؤواہنٹس نوٹ فرما لیجئے اور پھر محمد شیخ کا کوئی سا بھی کلپ سن لیجئے آپ کو اس بات کے پیچھے کی گھمن گھیریاں خوب سمجھ لگیں گی ،،

تحریر : قاری حنیف ڈار