215

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟

محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟
کہا جاتا ہے کہ سندھ کے حکمران راجہ ڈاہر کو جب اُموی سالار محمد بن قاسم کے ہاتھوں شکست ہو گئی تو اُن کی دو بیٹیوں سوریا اور پریمل کو محمد بن قاسم نے راجہ کی ہلاکت کے بعد خلیفہ ولید بن عبدالملک کے پاس دارالخلافہ بغداد روانہ کر دیا۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک نے جب بڑی بیٹی سوریا سے خلوت کا ارادہ کیا تو سوریا نے چال چلی اور خلیفہ سے کہا کہ محمد بن قاسم پہلے ہی اُن کے ساتھ خلوت اختیار کر چکا ہے چنانچہ وہ اب خلیفہ کے شایانِ شان نہیں رہیں۔
غصے میں خلیفہ کو تحقیق کا ہوش نہیں رہا اور اُنھوں نے اسی وقت محمد بن قاسم کے نام پروانہ جاری کیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں خود کو کچی کھال میں سلوا کر دارالخلافہ کو واپس ہوں۔
محمد بن قاسم نے ایسا ہی کیا اور دارالخلافہ کے راستے میں ہی دو دن بعد اُن کی موت ہو گئی۔
یہ کہانی کتاب فتح نامہ سندھ عرف چچ نامہ میں بیان کی گئی ہے۔
روایت کے مطابق اس کے بعد راجہ ڈاہر کی بیٹی کا ایک طویل خطاب ہے جس میں وہ محمد بن قاسم کی عادل حکمرانی کی گواہی دیتی ہیں مگر اُن کی ہلاکت کی سازش رچنے کو اپنے والد کا بدلہ قرار دیتی ہیں۔
اسی خطاب میں وہ محمد بن قاسم کے بارے میں بھی کہتی ہیں کہ اُنھیں فرمانبرداری میں بھی عقل سے کام لینا چاہیے تھا اور خلیفہ کو بھی کہتی ہیں کہ اُسے بھی سنی سنائی بات پر اتنا سخت حکم جاری کرنے سے قبل تحقیق کر لینی چاہیے تھی۔
چچ نامہ کے مطابق راجہ ڈاہر کی بیٹی نے کہا: دانا بادشاہِ وقت پر واجب ہے کہ جو کچھ بھی دوست یا دشمن سے سنے، اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور دل کے فیصلوں سے اس کا موازنہ کرے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ پاک دامنی کے اعتبار سے محمد بن قاسم ہمارے لیے باپ اور بھائی جیسا تھا اور ہم کنیزوں پر اس نے کوئی دست درازی نہیں کی۔ لیکن چونکہ اُس نے ہند اور سندھ کے بادشاہ کو برباد کیا تھا اس لیے ہم نے انتقاماً خلیفہ کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔
اس پر خلیفہ نے غضبناک ہو کر دونوں بہنوں کو دیوار میں چُن دینے کا حکم دیا۔
بنو اُمیہ کے دور میں سندھ فتح کرنے والے نوجوان سالار محمد بن قاسم اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور کی ’مبینہ‘ کنیز انارکلی کی موت کی کہانیوں میں خواتین کے دیوار میں چُنوائے جانے کی قدر مشترک ہے۔
انارکلی کے بارے میں کہانی یہ منسوب ہے کہ اکبر بادشاہ نے اُنھیں شہزادہ نور الدین محمد سلیم (بعد میں جہانگیر) سے معاشقے کی وجہ سے دیوار میں چُنوا کر ہلاک کروا دیا تھا۔
مگر انارکلی کے وجود کے بارے میں ہی مؤرخین کو شبہ ہے اور اُن کے بارے میں تاریخی ثبوت دستیاب نہیں ہیں۔ چنانچہ اُن کی موت کی کہانی تو دور کی بات ہے۔
اور محمد بن قاسم اور راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کی ہلاکت سے متعلق اس پوری کہانی پر بھی مؤرخین کو اعتراضات ہیں۔
تو پھر محمد بن قاسم کی موت واقعتاً کیسے ہوئی اور مندرجہ بالا واقعے کی تاریخی حقیقت کیا ہے، اس پر بات کریں گے لیکن اس سے پہلے کچھ محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں اور پھر یہ دیکھیں گے کہ محمد بن قاسم سندھ فتح کرنے کے بعد گئے تو گئے کہاں؟
محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی ’مبینہ‘ قبریں بلوچستان میں
اگر آپ کراچی سے گوادر جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے تو آر سی ڈی ہائی وے پر کوئی دو گھنٹے کی ڈرائیو کریں گے جس کے بعد بائیں جانب مکران کوسٹل ہائی وے کا آغاز ہوتا ہے جو اپنے آپ میں حیرتوں سے بھرپور سڑک ہے۔
یہیں پر تھوڑا آگے جا کر بائیں جانب ایک پتھر کی تختی پر لکھا ہے کہ یہاں فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبریں موجود ہیں۔
نامور مصنف و محقق سلمان رشید کے مطابق یہ قبریں محمد بن قاسم کے ساتھیوں کی نہیں ہیں کیونکہ آٹھویں صدی میں عرب سندھ کے چوکنڈی قبرستان جیسی نقش و نگار سے مزیّن قبریں نہیں بنایا کرتے تھے، اور ویسے بھی قبروں کا یہ طرزِ تعمیر تقریباً سولہویں صدی کا قرار دیا جاتا ہے۔
ایک اور تحقیق کے مطابق یہ قبریں اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کا تذکرہ منان احمد آصف نے اپنی کتاب ’اے بُک آف کونکوئسٹ‘ میں بھی کیا ہے۔
مگر پاکستان میں محمد بن قاسم سے متعلق متنازع باتوں میں سے یہ صرف ایک بات ہے۔
مطالعہ پاکستان کی درسی کتب میں اکثر و بیشتر یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اُسی دن پڑ گئی تھی جس دن محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔
محمد بن قاسم اُموی دورِ حکومت کے وہ سالار تھے جنھوں نے 712 سنِ عیسوی میں سندھ پر حملہ کیا اور یہاں کے راجہ ڈاہر کو شکست دی۔
کچھ لوگوں کے نزدیک محمد بن قاسم کے آنے سے جنوبی ایشیا میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، سندھ فتح ہوا اور یوں واقعات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو بالآخر پاکستان کے قیام پر منتج ہوا۔
مگر مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق پیغمبرِ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب تاجر برِصغیر میں رہائش پذیر تھے اور کچھ کے نزدیک یہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں تک کر رہے تھے۔
کتاب ’دی گریٹ مغلز اینڈ دیئر انڈیا‘ میں مصنف ڈرک کولیئر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انڈیا کے جنوب مغرب میں مالابار کے ساحلی علاقے (موجودہ کرناٹک اور کیرالہ) میں عرب تاجر یہاں پہلے سے مقیم تھے اور جب خطہ عرب میں اسلام آیا تو ممکنہ طور پر ان عربوں نے بھی اسلام قبول کیا ہو گا۔
اپنی کتاب کے ابتدائیے میں اُنھوں نے خطہ برِصغیر میں اسلام کے پھیلنے کے حوالے سے متعدد نظریات کا ذکر کیا ہے جس میں ہجرت، تلوار، خوف، صوفیا کے عمل اور تبلیغ، سماجی رتبے کے حصول اور پرامن روابط مثلاً تجارت اور باہمی شادیاں شامل ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب کی تبدیلی کے (چند) واقعات کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، تاہم کئی دیگر علاقوں مثلاً مالابار کے ساحلوں میں اسلام کی کامیابی کا تعلق جبر یا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی برتری سے نہیں تھا۔
اس کے علاوہ اُن کے نزدیک نئے مذہب کے مضبوط اور مساوات پر مبنی پیغام کا اثر بالخصوص نچلی ذات کے افراد پر ضرور ہوا ہو گا۔
چنانچہ وہ اس علاقے میں پہلے سے عربوں کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم کی آمد سے کہیں قبل برِصغیر میں اسلام کی آمد کا عرصہ متعین کرتے ہیں۔
لہٰذا پاکستان کی درسی کُتب میں عام طور پر پڑھائے جانے والے بیانیے کے برعکس تاریخی بیانیے بھی موجود ہیں۔
کتاب فُتوح البلدان نوویں صدی عیسوی میں عباسی دورِ حکومت میں تحریر کی گئی اور اسے اسلامی فتوحات کی تاریخ کی اہم ترین اور مستند کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں مصنف احمد بن یحییٰ البلاذری نے محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بعد کے واقعات خصوصی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے بہت سے مفتوحہ علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلے، واپس فتح ہوئے، کسی نے واپس اپنا پچھلا مذہب اختیار کر لیا تو کسی نے مسلمانوں سے اپنا معاہدہ توڑ لیا۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محمد بن قاسم سے پہلے کوئی مسلمان مہم سندھ میں آئی تھی یا نہیں۔
بلاذری کے مطابق خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب کے دور میں 15 ہجری میں اُنھوں نے عثمان بن ابوالعاص الثقفی کو بحرین اور عمان پر گورنر مقرر کیا، تو عثمان نے ایک فوج تھانہ (یا تانہ) کی جانب بھیجی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ عثمان کے بھائی الحکم نے اپنے بھائی المغیرہ ابن ابوالعاصی کو خلیجِ دیبل کی جانب بھیجا جہاں اُنھوں نے دشمن پر فتح پائی۔
فتوح البلدان کا اردو ترجمہ سید ابوالخیر مودودی نے کیا ہے جس میں اُنھوں نے دیبل کو تو دریائے سندھ کے قریب واقع ایک بڑا تجارتی شہر قرار دیا ہے مگر تھانہ کا تذکرہ نہیں کیا کہ یہ کون سا شہر ہے۔
اس کا تذکرہ ہمیں ابنِ بطوطہ کے سفرنامے میں ملتا ہے جب اُنھوں نے یمن کی بندرگاہِ عدن کے بارے میں بتایا ہے کہ یہاں انڈیا کے کئی شہروں بشمول ’تھانہ‘ سے بھی جہاز آتے ہیں۔
چنانچہ یہ شہر ’تانہ‘ انڈین ریاست مہاراشٹر کا شہر تھانے یا تھانہ ہے جو ممبئی کا پڑوسی شہر ہے اور یہاں تک وسائی کھاڑی (ندی) کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے جو اس شہر کو ساحل سے کافی دور ہونے کے باوجود بحیرہ عرب سے ملا دیتی ہے۔
خطہ سندھ اور بلوچستان میں اوّلین اسلامی مہمات
موجودہ پاکستان کے دیگر خطوں میں محمد بن قاسم سے پہلے مسلمانوں کی آمد کے بارے میں ایک اور روایت فتوح البلدان سے ہی ملتی ہے جس کے مطابق سنہ 38 یا سنہ 39 ہجری میں حضرت علی کے دور میں اور پھر سنہ 44 ہجری میں حضرت امیر معاویہ کے دورِ خلافت میں قیقان (موجودہ قلات) اور بنہ (موجودہ بنوں) پر حملے کیے گئے۔
اگر محمد بن قاسم کی سندھ پر لشکر کشی پہلی فوجی مہم نہیں تھی اور اس سے قبل بھی اس علاقے پر حملے کیے جاتے رہے تھے تو پھر اس واقعے کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق عراق کے گورنر حجاج بن یوسف نے ایک مظلوم عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو سندھ کی جانب بھیجا؟
یہ کہانی بھی چچ نامہ میں کافی تفصیل سے موجود ہے۔
چچ نامہ یا فتح نامہ سندھ، خطہ سندھ کی فتح پر لکھی گئی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے قبل مؤرخین نے سندھ اور ہند کی فتح پر باب تو باندھے ہیں لیکن مکمل کتابی صورت میں صرف چچ نامہ ہی ملتی ہے۔
چچ نامہ تیرہویں صدی میں علی کوفی کی فارسی میں ترجمہ کردہ کتاب ہے جو اُن کے مطابق اُنھوں نے ایک عربی کتاب سے فارسی میں منتقل کی، تاہم وہ عربی کتاب اب تک باقاعدہ دریافت نہیں ہو سکی ہے نہ ہی اس حوالے سے معلومات ہیں کہ وہ کس کی تصنیف تھی۔
تاہم اس کتاب میں موجود روایات اور تاریخی حوالوں کو محققین پرکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
چچ نامہ میں بیان کیے گئے دیگر واقعات کے برعکس مسلمان قیدیوں کے بارے میں تحریر اس واقعے کی شروعات میں اس کی سند موجود نہیں ہے۔
مایہ ناز مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی اور محقق و مصنف منان احمد آصف کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ درست نہیں ہے۔
اس کے علاوہ تاریخ ابنِ خلدون میں بھی دیبل کی فتح کے باب میں اس واقعے کا تذکرہ نہیں ہے۔
مذکورہ واقعہ حجاج کے گورنر محمد بن ہارون بن ذراع النمری کے دور میں پیش آیا تاہم بلاذری اور چچ نامہ، دونوں ہی نے وہ سال نہیں لکھا جب یہ واقعہ پیش آیا۔
محمد بن ہارون النمری کا تقرر چچ نامہ کے مطابق سنہ 86 ہجری میں ہوا اور محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ 93 ہجری یا 712 عیسوی میں ہوا۔ اس حوالے سے تاریخ خاموش ہے کہ اگر یہ واقعہ پیش آیا تو کس سال میں ہوا اور یہ کہ اس واقعے کے کتنے عرصے بعد محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی۔
اس کے علاوہ اگر حضرت عمر کے دور سے لے کر ولید بن عبدالملک کے دور تک کا جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سندھ پر محمد بن قاسم کی لشکر کشی کئی دہائیوں طویل سلسلے میں تازہ ترین کوشش تھی جس میں اُنھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔
پھر تاریخ کی کتب میں یہ بھی تذکرہ ہے کہ اس وقت علافی یا علوی گروہ کے کئی لوگ مکران میں آ بسے تھے۔ اُن میں سے ایک کو حجاج کے عملدار سعید بن اسلم کلابی نے قتل کیا تھا، چنانچہ بدلے میں علافیوں نے بھی سعید بن اسلم کو قتل کر دیا، جس پر حجاج بن یوسف نے علافیوں کی سرکوبی کا فیصلہ کیا تھا۔
جب خلافتِ اُموی کی طرف سے مکران میں بسے ان علافیوں کے خلاف بار بار مہمات کی گئیں تو یہ لوگ سندھ میں راجہ ڈاہر کے پاس چلے گئے چنانچہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ خود حجاج بن یوسف کے دور میں مکران اور سندھ کی طرف بنو اُمیہ کے مخالفین موجود تھے۔
اس کے علاوہ سندھ کی فتح کی اس مہم پر بلاذری کے مطابق چھ کروڑ درہم خرچ ہوئے اور اس کے بدلے میں 12 کروڑ درہم کا مالِ غنیمت حاصل ہوا۔
چنانچہ منان احمد آصف اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’جب السند (سندھ) پر حملہ ہوا تو اس کا تعلق بنو امیہ کی شاخِ مروان کے مالیاتی اُمور یا باغیوں کے خلاف سرحدی خطے پر قبضے سے تھا، نہ کہ قزاقوں کی کسی رومانوی داستان سے۔‘
محمد بن قاسم کی ہلاکت کے بارے میں مشہور افسانہ
چچ نامہ میں کہا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی ہلاکت راجہ ڈاہر کی دو بیٹیوں کی سازش کی وجہ سے ہوئی مگر اس حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کا دعویٰ ہے کہ یہ کہانی من گھڑت اور افسانوی ہے۔
سندھ کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان (این اے) بلوچ نے چچ نامہ کی صحت اور اس میں موجود تاریخی حوالوں کے بارے میں جرح کی ہے۔
ڈاکٹر این اے بلوچ کا چچ نامہ پر تحریر کیا گیا مقدمہ بھی اپنے آپ میں ایک پوری کتاب ہے جس میں اُنھوں نے محمد بن قاسم کی ہلاکت اور پھر راجہ ڈاہر کی بیٹیوں کے بغداد کی کسی دیوار میں چُن دیے جانے کی کہانی کو کہانی ہی قرار دیا ہے، حقیقت نہیں۔
سب سے پہلے تو اس کہانی کے مطابق خلیفہ نے محمد بن قاسم کو دارالخلافہ بغداد بلوایا۔ حالانکہ اُس زمانے میں بغداد کا وجود نہیں تھا، بلکہ دارالخلافہ دمشق تھا۔
اس کے بعد اس میں لکھا گیا ہے کہ محمد بن قاسم کی موت خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر ہوئی تاہم بلاذری اور دیگر مؤرخین کے مطابق یہ واقعہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں پیش آیا۔
بلاذری کے مطابق ولید بن عبدالملک کی موت کے بعد سلیمان بن عبدالملک حکمران ہوئے تو اُنھوں نے صالح بن عبدالرحمان کو عراق کا والی اور یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا عملدار مقرر کیا۔
یزید نے محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے صالح کے پاس عراق بھیج دیا جہاں اُنھیں حجاج بن یوسف کے سابقہ انتظامی ہیڈکوارٹر واسط کے ایک عقوبت خانے میں قید کر کے ایذا رسانیاں کی گئیں اور وہ ہلاک ہو گئے۔
اسی بیان کی تصدیق تاریخ ابنِ خُلدون سے بھی ہوتی ہے۔
فُتوح البلدان میں لکھا ہے کہ جب محمد بن قاسم قید میں تھے تو اُنھوں نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر یہ اشعار کہے:
ہر چند کہ میں واسط میں بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں
مگر کبھی میں نے ایران کے کتنے ہی شہ سوار زیر کیے
اور اپنے جیسے کتنے ہی پہلوانوں کو پچھاڑا ہے
ایک اور شعر جو محمد بن قاسم سے منسوب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے:
اُنھوں نے مجھے ضائع کر دیا، جوان بھی ایسا کہ مردِ نبرد اور سرحد کا محافظ تھا۔
چنانچہ محمد بن قاسم کی معزولی اور ہلاکت سے اُس دور میں ہونے والی سیاسی سازشیں اور آپسی دشمنیاں بھرپور انداز میں عیاں ہو جاتی ہیں۔

رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب کے بعد بعد صوبہ سندھ میں راجہ داہر کو بھی سرکاری طور پر ہیرو قرار دینے کے مطالبے نے شدت اختیار کر لی ہے۔
پاکستان میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پنجاب کے پہلے پنجابی حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب اور انھیں ’شیرِ پنجاب‘ قرار دینے کے بعد صوبہ سندھ میں راجہ داہر کو بھی سرکاری طور پر ہیرو قرار دینے کے مطالبے نے شدت اختیار کر لی ہے۔رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پنجاب کو مبارک باد پیش کی جا رہی ہے کہ اس نے اپنے حقیقی ہیرو کی تعظیم اور احترام کیا ہے۔
راجہ داہر سندھ کے ہیروکوئٹہ کے صحافی جاوید لانگاہ نے فیس بک پر لکھا ہے کہ آخر کار راجہ رنجیت سنگھ بادشاہی مسجد کے جنوب مشرق میں واقع اپنی سمادی سے نکل کر شاہی قلعہ کے سامنے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی سابقہ سلطنت اور راجدھانی میں پھر سے نمودار ہو گئے ہیں۔

انھوں نے مزید لکھا کہ پنجاب دہائیوں تک اپنی حقیقی تاریخ کو جھٹلاتا رہا ہے اور ایک ایسی مصنوعی تاریخ گھڑنے کی کوشش میں جتا رہا جس میں وہ راجہ پورس اور رنجیت سنگھ سمیت حقیقی قومی ہیروز اور سینکڑوں کرداروں کی جگہ غوری، غزنوی، سوری اور ابدالی جیسے نئے ہیروز بناتا اور پیش کرتا رہا جو کہ پنجاب سمیت پورے برصغیر کا سینہ چاک کر کے یہاں کے وسائل لوٹتے رہے۔
درم خان نامی شخص نے لکھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کے بچوں کو سکولوں میں سچ بتایا جائے اور انہیں عرب اور مغل تاریخ کے بجائے اپنی تاریخ پڑھائی جائے۔
صحافی نثار کھوکھر پنجاب کے عوام سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ رنجیت سنگھ پنجاب پر حکمرانی کرنے والا پہلا پنجابی تھا، اگر سندھ حکومت ایک ایسا ہی مجسمہ سندھی حکمران راجہ داہر کا نصب کر دے تو آپ کو غصہ تو نہیں آئے گا، کفر اور غداری کے فتوے تو جاری نہیں ہوں گے؟
سندھ کے فن و فکر کو محفوظ رکھنے والے ادارے سندھیالوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اسحاق سمیجو بھی راجہ داہر کو سندھ کا قومی ہیرو قرار دینے کی رائے کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ جن بھی کرداروں نے اپنے وطن کے تحفظ کے لیے جان کے نذرانے پیش کیے ان کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاریخ میں رنجیت سنگھ کا کردار تو پھر بھی متنازع رہا ہے، راجہ داہر نے نہ تو کسی ملک پر حملہ کیا اور نہ ہی عوام پر مظالم ڈھائے تاہم حکمرانوں سے عوام کو شکایت ایک فطری عمل ہو سکتا ہے۔‘
راجہ داہر کون تھے؟
راجہ داہر آٹھویں صدی عیسوی میں سندھ کے حکمران تھے۔ وہ راجہ چچ کے سب سے چھوٹے بیٹے اور برہمن خاندان کے آخری حکمران تھے۔
سندھیانہ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق مہا بھارت سے قبل کئی کشمیری برہمن خاندان سندھ آ کر آباد ہوئے، یہ پڑھا لکھا طبقہ تھا، سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے بعد انھوں نے رائے گھرانے کی 184 سالہ حکومت کا خاتمہ کیا اور چچ پہلا برہمن بادشاہ بنا۔
نظامِ حکومت
مورخین کے مطابق راجہ داہر کی حکومت کی سمت مغرب میں مکران تک، جنوب میں بحر عرب اور گجرات تک، مشرق میں موجودہ مالواہ کے وسط اور راجپوتانے تک اور شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب کے اندر تک پھیلی ہوئی تھی۔
سندھ سے زمینی اور بحری تجارت بھی ہوتی تھی۔
ممتاز پٹھان تاریخِ سندھ میں لکھتے ہیں کہ راجہ داہر انصاف پسند تھے۔ تین اقسام کی عدالتیں تھیں جنھیں کولاس، سرپناس اور گناس کہا جاتا تھا، بڑے مقدمات راجہ کے پاس جاتے تھے جو سپریم کورٹ کا درجہ رکھتے تھے۔
سندھ پر حملہ
آٹھویں صدی میں بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر ان کے بھتیجے اور نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کر کے راجہ داہر کو شکست دی اور یہاں اپنی حکومت قائم کی۔
سندھ میں عرب تاریخ کی پہلی کتاب چچ نامہ یا فتح نامہ کے مترجم علی کوفی لکھتے ہیں کہ سری لنکا کے راجہ نے بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کے لیے کچھ تحائف بھیجے تھے جو دیبل بندرگاہ کے قریب لوٹ لیے گئے۔ ان بحری جہازوں میں خواتین بھی موجود تھیں۔ کچھ لوگ فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچ گئے اور انھیں بتایا کہ خواتین آپ کو مدد کے لیے پکا رہی ہیں۔
مورخ کے مطابق حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کو خط لکھا اور حکم جاری کیا کہ خواتین اور لوٹے گئے مال و اسباب کو واپس کیا جائے تاہم راجہ داہر نے انکار کیا اور کہا کہ یہ لوٹ مار ان کے علاقے میں نہیں ہوئی۔
سندھ کے بزرگ قوم پرست رہنما جی ایم سید حملے کے اس جواز کو مسترد کرتے تھے۔ انھوں نے سندھ کے سورما نامی کتاب میں لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ بحری قزاقوں نے لوٹ مار کی ہو ورنہ راجہ داہر کو اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
’یہ الزام تراشی ہے ورنہ اس سے قبل عربوں نے جو سندھ پر 14 بار حملے کیے اس کا کیا جواز تھا۔‘
علافیوں کی بغاوت
عمان میں معاویہ بن حارث علافی اور اس کے بھائی محمد بن حارث علافی نے خلیفہ کے خلاف بغاوت کر دی جس میں امیر سعید مارا گیا، چچ نامہ کے مطابق محمد علافی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکران میں پناہ حاصل کر لی جہاں راجہ داہر کی حکومت تھی۔بغداد کے گورنر نے انھیں کئی خطوط لکھ کر باغیوں کو ان کے سپرد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے اپنی زمین پر پناہ لینے والوں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ حملے کی ایک وجہ علافی کی حوالگی بھی سمجھی جاتی ہے۔
ریاستی انتشار
راجہ داہر کے تخت نشین ہونے سے قبل ان کے بھائی چندر سین حکمران تھے جو بدھ مت کے پیروکار تھے اور جب راجہ داہر اقتدار میں آئے تو انھوں نے سختی کی۔
چچ نامہ کے مطابق بدھ بھکشوؤں نے محمد بن قاسم کے حملے کے وقت نیرون کوٹ اور سیوستان میں ان کا استقبال اور مدد کی تھی۔
سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید لکھتے ہیں کہ کہ چندر سین نے بدھ ازم کو فروغ دیا اور بھکشوؤں اور پجاریوں کے لیے خصوصی رعایتں دیں، راجہ داہر نے ان پر سختیاں نہیں کیں بلکہ دو گورنر بدھ مذہب سے تھے جبکہ دیگر مذاہب سے ان کا تعلق اور احترام کا ایک ثبوت یہ ہے کہ محمد علافی کا نام سکے کی دوسری طرف نقش کروایا گیا تھا۔
راجہ داہر کی بہن کے ساتھ شادی
چچ نامہ میں مورخ کا دعویٰ ہے کہ راجہ داہر جوتشیوں کی بات کا گہرا اثر لیتے تھے۔
انھوں نے جب بہن کی شادی کے بارے میں جوتشیوں سے رائے لی تو انھیں بتایا گیا کہ جو بھی اس سے شادی کرے گا وہ سندھ کا حکمران بنے گا۔ انھوں نے وزیروں اور جوتشیوں کے مشورے پر اپنی بہن کے ساتھ شادی کر لی۔
مورخین کا کہنا ہے کہ جنسی مباشرت کے علاوہ دوسری تمام رسمیں ادا کی گئیں۔
جی ایم سید اس کہانی کو تسلیم نہیں کرتے۔ انھوں نے لکھا کہ برہمن بہن تو دور کی بات ہے کزن سے بھی شادی کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
وہ دلیل دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ کسی چھوٹے راجہ کو رشتہ نہ دے کر لڑکی کو گھر بٹھا دیا گیا ہو کیونکہ ہندوں میں ذات پات کی تفریق ہوتی ہے اور اسی لیے کسی کم ذات یا کم درجے والے شخص کو رشتہ دینے سے انکار کیا گیا ہو۔
ڈاکٹر آزاد قاضی ’داہر کا خاندان تحقیق کی روشنی‘ نامی مقالے میں لکھتے ہیں کہ چچ نامے کے مورخ نے اروڑ کے قلعے سے راجہ داہر کے حراست میں لیے گئے رشتے داروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان میں راجہ کی بھانجی بھی شامل تھی جس کی کرب بن مخارو نامی عرب نے شناخت کی۔ اگر چچ نامے کی بات مانی جائے کہ یہ راجہ داہر کی بہن کے ساتھ رسمی شادی تھی تو یہ لڑکی کہاں سے آئی۔
راجہ داہر کی بیٹیاں اور محمد بن قاسم
چچ نامہ میں مورخ لکھتا ہے کہ راجہ داہر کی دو بیٹیوں کو دارالخلافہ بھیج دیا گیا، خلیفہ ولید بن عبدالمالک نے غم خواری کی خاطر حرم سرائے کے حوالہ کیا تاکہ ایک دو روز آرام کر کے خلوت کے لائق ہوں۔
ایک شب دونوں کو طلب کیا گیا۔ خلیفہ نے ترجمان سے کہا کہ معلوم کر کے بتائے کہ کون بڑی ہے۔
بڑی نے اپنا نام سریا دیوی بتایا اور اس نے چہرے سے جیسے ہی نقاب ہٹایا تو خلیفہ ان کا جمال دیکھ کر دنگ رہ گیا اور لڑکی کو ہاتھ سے اپنی طرف کھینچا تاہم سریا دیوی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’بادشاہ سلامت رہیں، میں بادشاہ کی خلوت کے قابل نہیں کیونکہ عادل عمالدین محمد بن قاسم نے ہمیں تین روز اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد خلیفہ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ شاید آپ کا دستور کچھ ایسا ہے، بادشاہوں کے لیے یہ بدنامی جائز نہیں۔‘
مورخ کے مطابق خلیفہ ولید بن عبدالمالک محمد بن قاسم سے بہت ناراض ہوا اور حکم جاری کیا کہ وہ صندوق میں بند ہو کر حاضر ہوں۔ جب یہ فرمان محمد بن قاسم کو پہنچا تو وہ اودھپور میں تھے۔ فوری تعمیل کی گئی لیکن دو روز میں اس کا دم نکل گیا اور انھیں دربار پہنچا دیا گیا۔ بعض مورخین کا ماننا ہے کہ راجہ داہر کی بیٹیوں نے اس طرح اپنا بدلہ لیا۔
چچ نامہ پر اعتراض
چچ نامہ کے مترجم علی بن حامد ابی بکر کوفی ہیں۔ انھوں نے اچ شریف میں رہائش اختیار کی اور اس وقت ناصر الدین قباچہ کی حکومت تھی۔
وہاں ان کی ملاقات مولانا قاضی اسماعیل سے ہوئی جنھوں نے انھیں ایک عربی کتاب دکھائی جو ان کے آباؤ اجداد نے تحریر کی تھی، علی کوفی نے اس کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا جس کو فتح نامہ اور چچ نامہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بعض مورخین اور مصنف چچ نامہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مرلی دھر جیٹلی کے مطابق چچ نامہ سنہ 1216 میں عرب سیلانی علی کوفی نے تحریر کیا تھا جس میں حملے کے بعد لوگوں سے سنی سنائی باتیں شامل کی گئیں۔
اس طرح پیٹر ہارڈے، ڈاکٹر مبارک علی اور گنگا رام سمراٹ نے بھی اس میں موجود معلومات کی حقیقت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
جی ایم سید نے لکھا ہے کہ ہر ایک سچے سندھی کو راجہ داہر کے کارنامے پر فخر ہونا چاہیے کیونکہ وہ سندھ کے لیے سر کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں سب سے اول ہیں۔ ان کے بعد سندھ 340 برسوں تک غیروں کی غلامی میں رہا، اس وقت تک جب تک سندھ کے سومرا گھرانے نے حکومت حاصل نہیں کر لی۔
قوم پرست نظریے کے حامی اس موقف کو درست قرار دیتے ہیں جبکہ بعض محمد بن قاسم کو اپنا ہیرو اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔
اس نظریاتی بحث نے سندھ میں دن منانے کی بھی بنیاد ڈالی جب مذہبی رجحان رکھنے والوں نے محمد بن قاسم ڈے منایا اور قوم پرستوں نے راجہ داہر کا دن منانے کا آغاز کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں