syed saqib akbar 727

محاذ یمن:پاکستان کے لیے ثالثی کا نادر موقع تحریر : ثاقب اکبر

محاذ یمن:پاکستان کے لیے ثالثی کا نادر موقع
ثاقب اکبر
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نے متعدد مرتبہ یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ یمن کے مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری رائے میں اس وقت ایسا کردار اداکرنے کے لیے قدرت نے ایک نادر موقع پیدا کر دیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات گذشتہ سوا چار سال میں نفسیاتی اور ذہنی طور پر شاید اس جنگ کے خاتمے کے لیے اتنے آمادہ نہ ہوئے ہوں جتنے اس وقت معلوم ہوتے ہیں۔ اگرچہ انھوں نے واضح طور پر ایسا نہیں کہا لیکن حالات کا جائزہ لے کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر اس وقت پاکستان یا کوئی اور اہم موثر ملک اس جنگ کے خاتمے یا جنگ بندی کے لیے کوششیں شروع کرے تو نتیجہ خیز ہونے کا خاصا امکان ہے۔ اس کے لیے ہمارے دلائل یہ ہیں:
۱۔ گذشتہ روز (18 جون 2019) کو قطر کے ٹی وی الجزیرہ نے خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے یمنیوں سے خفیہ طور پر رابطہ کرکے درخواست کی ہے کہ وہ سعودی عرب پر میزائل اور ڈرون حملوں کا سلسلہ روک دیں۔ الجزیرہ کے مطابق سعودی عرب کے اہم تنصیبات اور ہوائی اڈوں پر یمن کے بڑھتے ہوئے میزائل اور ڈرون حملوں کی وجہ سے سعودی عرب اور یمن کے مابین نئے سرے سے مذاکرات کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ یمن کے وزیر اطلاعات ضیف ا للہ الشامی نے اپنے ٹویٹر اکانٹ پر خبر دی ہے کہ سعودی عرب ا ور امارات کی اہم تنصیبات پر یمنی حملوں کے بعد، یہ حملے روکنے کے لیے بین الاقوامی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کردار برطانیہ ادا کررہا ہے۔ الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے تحریک انصار اللہ کے اہم رکن محمد البخیتی نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر تحریک انصار اللہ کے میزائل اور ڈرون حملے روکنے کے لیے ثالثی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ انھوں نے یہ کہا کہ یہ کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہ حملے کامیاب رہے ہیں۔
۲۔ جس سابق یمنی صدر کو یمن کا جائز حکمران قرار دے کر سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد نے یمن پر سوا چار سال پہلے حملے شروع کیے تھے وہی ریاض کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے امریکا روانہ ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ مارچ 2015 میں سعودی عرب نے یہ کہہ کر یمن پر حملہ شروع کیا تھا کہ وہ یمن میں ’’قانونی حکومت‘‘ بحال کرناچاہتے ہیں۔ سعودی عرب نے یمن کے مستعفی صدر عبدربہ منصور ہادی کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی اوران کے نام پر جنوبی یمن میں زمینی طور پر فوجی پیش رفت شروع کی تھی۔ بعدازاں یہ جنگ وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ اب جب کہ گذشتہ روز 18جون کو منصور ہادی اپنے خاندان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ریاض سے روانہ ہو کرامریکی ریاست اوہایو چلے گئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سعودی اتحاد کس کی ’’قانونی حکومت‘‘ بحال کرنے کے لیے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔
۳۔ یمن کے مستعفی اور اب حتمی طور پر فراری صدر منصور ہادی کی کابینہ کے متعدد اراکین سعودی عرب اورامارات کی قیادت میں قائم اتحاد پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔ منصور ہادی کے مشیر عبدالعزیز جباری نے ایک ٹی وی چینل سہیل کو گذشتہ روز انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی اتحاد کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس نے یمن میں ’’قانونی حکومت‘‘ کو واپس لانے کے لیے حملہ کیاہے کیونکہ وہی یمن کی حکومت کو واپس نہیں آنے دے رہا۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کی کمان میں عرب اتحاد نے ان علاقوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے جو ہمارے پاس تھے اور اب وہ ہماری واپسی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے علاقوں کے 80فیصد حصے میںکوئی میٹنگ تک نہیں کرسکتے۔ انھوں نے یہ کہہ کر اپنے ناظرین کو حیران کر دیا کہ یہ اتحاد منصور ہادی کی درخواست پر یمن میں داخل نہیں ہوا۔ منصور ہادی اگر اپنے خون سے بھی درخواست لکھ کر اس اتحاد کو دیتے تو وہ یمن کا رخ نہ کرتا یہ تو اپنے مفادات کی خاطر سب کچھ کررہا ہے۔ اس سے پہلے منصور ہادی کے وزیر داخلہ احمد المسیری بھی سعودی امارتی اتحاد کے مشرقی یمن پر تسلط پر شدید تنقید کر چکے ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاض اور ابو ظہبی یمنی علاقوں پر اپنا تسلط ختم کریں۔
۴۔ یمن کا ایک بڑا علاقہ تو انصار اللہ اور اس کے حامیوں کے کنٹرول میں ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعا پر بھی پہلے دن سے انہی کی حکومت قائم ہے لیکن وہ علاقے جو سعودی قیادت میں عرب اتحاد نے اپنے قبضے میں لیے تھے وہاں مختلف گروہوں کے مابین اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر ہے۔ ایک علاقے پر القاعدہ کا کنٹرول ہے، ایک اور علاقے پر منصورہادی کے حمایتی قابض ہیں۔ کچھ علاقوں پر متحدہ عرب امارات کا کنٹرول ہے اور کچھ گروہ ابھی تک سعودی عرب کے وفادار ہیں۔ نئے حالات میں جب کہ منصور ہادی منظر سے نکل گئے ہیں تو ان گروہوں کے مابین باہمی رسہ کشی تیز ہونے کا امکان ہے۔ چنانچہ یمن کے جزیرہ سقطر میں متحدہ عرب امارات اور منصور ہادی کے وفاداروں کے مابین شدید جنگ شروع ہو گئی ہے۔ یہ جنگ گذشتہ رات سے شدت اختیار کر چکی ہے۔ اسی طرح کی خبریں دیگر علاقوں سے بھی آناشروع ہو گئی ہیں۔
۵۔ گذشتہ چند دنوں میں سعودی شہروں، تنصیبات اور ہوائی اڈوں پر یمنی حملوں میں شدت پیدا ہو چکی ہے۔ ابہا، جیزان اور نجران کے ہوائی اڈوں پر یمنیوں نے میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے حملے تیز کر دیے ہیں۔ یہ اڈے گذشتہ سوا چار سال سے یمنی علاقوں پر بمباری کے لیے استعمال ہورہے تھے۔ ان ہوائی اڈوں سے سعودی فضائیہ کے طیارے اڑ کر یمن کے شہروں، بازاروں،ہوائی اڈوں، ہسپتالوں، گھروں،پلوں اور سکولوں پر حملے کررہے تھے۔ اب چند دنوں سے ان ہوائی اڈوں پر ٹریفک کا سلسلہ معطل ہو چکا ہے۔ اس دوران میں سعودی عرب کی تیل کی پائپ لائنز بھی حملوں کا ہدف بنی ہیں۔ پہلی مرتبہ یمنی حملوں کے خلاف سعودی حمایتی بعض حکومتوں نے زبان کھولی ہے۔ یہ حکومتیں آج تک یمنیوں کی مظلومیت کے لیے ایک لفظ تک نہیں کہہ سکیں۔ یمنیوں کے حملوں کی مذمت پہلی مرتبہ شاہ سلمان کی سربراہی میں سعودی وزرا کے اجلاس میں بھی کی گئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمنیوں کے خوف نے صورتحال کو تبدیل کردیا ہے۔
۶۔ ایک طرف بعض عرب ممالک سعودی عرب کی حمایت میں بیانات دے رہے ہیں اور دوسری طرف اس کا سب سے قریبی حمایتی متحدہ عرب امارات نسبتاً محتاط ہو گیاہے۔ اس کی طرف سے جیسے پہلے سعودی عرب کے لیے اور یمنیوں کے خلاف بیانات آتے تھے کچھ عرصے سے نہیں آرہے۔ شاید اس کی وجہ ابوظہبی کے ایئرپورٹ پر چند روز پہلے کا یمنی حملہ ہو۔ متحدہ عرب امارات اچھی طرح سے یہ سمجھتا ہے کہ ایسے چند حملے اور ہو گئے تو سرمایہ دار اور سرمایہ امارات سے اڑ جائیںگے۔
نتیجۂ کلام
انہی دلائل اور وجوہات کے پیش نظر ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرے۔ یمنی تو ایک عرصے سے خواہشمند ہیں کہ پاکستان ایک حقیقی ثالث کے طور پر سامنے آئے اور اب شاید سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی نسبتاً زیادہ آمادہ ہوں گے کہ پاکستان یہ کردار ادا کرے۔ البتہ پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے اپنی غیر جانبداری کا اظہار کرنا ہوگا۔ غیرجانبداری کے اظہار کے لیے مناسب ہوگا کہ ہم اپنے سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل(ر) راحیل شریف کو پاکستان واپس بلا لیں جو اس نام نہاد اسلامی لشکر کی قیادت کررہے ہیں جس کی فرد عمل میں سوائے غریب فقیر اور کمزور ملک یمن کی تباہی و بربادی کے کچھ نہیں لکھا جاسکا۔ پاکستان نے ابھی تک اس منصور ہادی کے نمائندے کو پاکستانی سفیر کی حیثیت رکھا ہوا ہے جو اب امریکا جا بسا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اسی سفیر سے ہمارے وزیراعظم ملاقات کرکے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کر چکے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ کسی ایک گروہ سے نیک خواہشات کے اظہار کے بجائے یمن کے مظلوم لوگوں سے محبت کا اظہار کیا جائے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے دوستی کا حقیقی تقاضا اب یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یمن کی دلدل سے نکلنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اگرچہ انھوں نے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ یمنی قتل کیے ہیں، پچاسی ہزار سے زیادہ بچے بھوک سے مار دیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ہر دو گھنٹے میں ایک عورت اور چھے یمنی بچے لقمۂ اجل بن رہے ہیں، اقوام متحدہ کے نمائندے بھی یمن کی ہولناک صورتحال پر بیانات دے رہے ہیں۔ اس انسانی المیے کو جنم دینے والوں کو قدرت معاف نہیں کرے گی اور وہ اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے لیکن پاکستان کو بہرصورت ثالثی کے لیے اب قدم اٹھانا چاہیے ورنہ شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی کیونکہ ان تمام تر قربانیوں کے باوجود یمنیوں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور یمنی قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ اب سعودی عرب کی سرزمین پر لڑی جائے گی۔