89

ماں بولی کی اہمیت

ماں بولی کی اہمیت
مظہر برلاس
ڈاکٹر شازیہ اکبر اسلام آباد کے ایک کالج میں پڑھاتی ہیں۔ فتح جنگ ضلع اٹک کے ایک گائوں کی رہنے والی یہ شاعرہ اپنی ماں بولی کو کبھی نہیں بھولتیں، انہیں ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ میری دھرتی، میری بولی سلامت رہنی چاہئے۔ماہیے، دوہڑے، ٹپے، یہاں کی رونق ہیں، یہ رونق قائم رہنی چاہئے، اس دھرتی کے لوک گیت دلوں پر راج کرتے ہیں، یہ راج سلامت رہنا چاہئے۔ کھیتوں میں سرسوں کے پھولوں سے محبت رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ اکبر ماں بولی کے حوالے سےکہتی ہیں… ’’مائوزے تنگ کو انگریزی بہت اچھی آتی تھی مگر انہیں چینی زبان سے اتنی محبت تھی کہ کوئی انہیں انگریزی میں لطیفہ سناتا تو وہ سمجھنے کے باوجود خاموش رہتے اور پھر جب انہیں ترجمہ کرکے وہی لطیفہ چینی زبان میں سنایا جاتا تو وہ خوب ہنستے‘‘۔ ایک روسی شاعر رسول حمزہ توف ہیں۔ ان کی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ ہے۔ پورا عالمی ادب رسول حمزہ توف کے نام سے واقف ہے۔ گائوں کا رہنے والا رسول حمزہ توف اپنی دھرتی سے محبت کرتا ہے، ماں بولی سے محبت اس کی تحریروں سے بولتی ہے۔ حمزہ رسول توف بتاتے ہیں کہ میں پیرس کے ادبی میلے میں شریک ہوا تو میری آمد کا سن کر ایک مصور مجھ سے ملنے آیا اور کہنے لگا… ’’میں داغستانی ہوں، فلاں گائوں کا رہنے والا ہوں لیکن تیس برس سے فرانس میں مقیم ہوں…‘‘ وہ سارا دن میرے ساتھ رہا، خوب گپ شپ ہوئی، میں نے داغستان واپس پہنچ کر اس مصور کی والدہ کو ڈھونڈا مگر اس کے خاندان کویقین تھا کہ ہمارا مصور بیٹا مر چکا ہے۔ بیٹے کے زندہ ہونے کی خبر سن کر ماں بہت خوش ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ آپ کا بیٹا فرانس میں خوش و خرم ہے۔ مصور کی ماں نے مجھ سے پوچھا ’’بتائو اس کےبالوں کی رنگت کیسی ہے، اس کے رخسار پر جو تل تھا کیا اب بھی ہے؟ اور اس کے بچے کتنے ہیں، تم نے اس کے ساتھ کتنا وقت گزارا؟‘‘۔ میں نے ان سوالوں کے جواب دیے تو مصور کی ماں نے پوچھا کہ اس نے تم سے بات چیت تو اپنی مادری زبان میں کی ہوگی؟ میں نے عرض کیا، نہیں ہم نے ترجمان کے ذریعے گفتگو کی، میں ازبک بول رہا تھا اور وہ فرانسیسی کیونکہ وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے۔ مصور کی بوڑھی ماں نے جب یہ سنا تو سر پر بندھے سیاہ رومال کو کھول کر اپنے چہرے کو چھپا لیا، جیسے پہاڑی علاقے کی مائیں بیٹے کی موت کا سن کر کرتی ہیں۔ عجیب منظر تھا، ہم داغستان میں تھے چھت پر بڑی بڑی بوندیں گر رہی تھیں، ہم سے بہت دور دنیا کے اس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا، آنکھوں سے برستے ان انمول آنسوئوں کی آواز سن رہا ہوگا۔ منظر میں خاموشی تھی پھر خاموشی کے تالے کو توڑتے ہوئے مصور کی ماں بولی…’’ رسول تم سے غلطی ہوئی میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی، جس سے تم ملے وہ میرا بیٹا نہیں کوئی اور ہوگا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کس طرح بھلا سکتا ہے جو میں نے اسے سکھائی تھی…‘‘میں حیرت اور صدمے سے کوئی جواب نہ دے سکا تو اس بوڑھی عظیم ماں نے کہا …’’رسول! اگر وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے تو میرے لئے وہ زندہ نہیں، مر چکا ہے…‘‘ یاد رہے کہ داغستان کے رہنے والے اس خطے کے لوگوں کی مادری زبان ’’آوار‘‘ ہے، ستر ہزار سے زائد افراد آوار بولتے ہیں، انہی افراد میں گائوں ’’سدا‘‘ کے رہنے والے رسول حمزہ توف بھی ہیں۔ میں نے مائوزے تنگ اور رسول حمزہ توف کی باتیں آپ کو اس لئے سنائی ہیں کہ آپ کو مادری زبان کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔ ہماری اپنی زبان پنجابی کے بہت سے الفاظ ہماری ثقافت اور ہمارے وسیب سے جڑے ہوئے ہیں۔ فرض کریں کہ میں نے بطور ماں اگر اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان منتقل نہ کی تو میں قصور وار ہوں اور اگر میں نے صرف پچیس فیصد الفاظ منتقل کئے تو اس کا مطلب ہے کہ میری تیسری نسل تک یہ الفاظ صرف پانچ فیصد منتقل ہوں گے۔ اس لئے ہمیں اپنی مادری زبان کی حفاظت کرنی چاہے۔ اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان سکھانی چاہئے۔ ہمیں اپنی زبان پر فخر کرنا چاہئے…

ڈاکٹر شازیہ اکبر کی باتیں درست ہیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ علامہ اقبالؒ بھاٹی والے گھر میں حقہ کشی کرتے تھے، دھوتی پہن کر بیٹھتے تھے جب کوئی آکر انگریزی یا فارسی میں بات کرنے لگتا تو اس سے پوچھتے کہ آپ کو پنجابی آتی ہے ، وہ اگر اثبات میں سرہلاتا تو علامہ اقبالؒ کہتے کہ’’تے فیر پنجابی وچ گل کر‘‘۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2018ء میں غزالہ حبیب کی دعوت پر نوشی گیلانی، وصی شاہ اور یہ خاکسار ایک مشاعرہ پڑھنے امریکہ گئے۔ میں نے ایک پنجابی کی نظم سنائی تو تقریب میں سے ایک بوڑھا شخص میرے پاس آیا، اس نے میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور پھر کہنے لگا …’’ اج بڑا کجھ یاد کرا دتا ای…‘‘ مجھے طالب علمی کے زمانے کا افضل ساحر نہیںبھولتا جو مجھے اکثر کہا کرتا تھا کہ ہمیں پنجابی میں زیادہ لکھنا چاہئے۔ آج کل ہمارا راوین علی عثمان باجوہ پنجابی ادبی سنگت کے گیت گاتا ہے، پھر پنجابی کیلئے ایک شمع ڈاکٹر صغرا صدف نے بھی جلا رکھی ہے، آج میں آخر میں دو چار مصرعے اپنے ہی پیش کر رہا ہوں:

مکدے مکدے اج مک گئے نیں

چھنیاں چھنے، کجیاں کجے، گھگو گھوڑے

سب مک گئے نیں

چھاواں والے رکھ مک گئے نیں

جد دے کوٹھے پکے پا لئے

ساہڈی رہتل پچھے رہ گئی

اپنا تبصرہ بھیجیں