122

لداخ میں عسکری انفراسٹرکچر پر امریکی تنبیہ اور چین کا سخت رد عمل

لداخ میں عسکری انفراسٹرکچر پر امریکی تنبیہ اور چین کا سخت رد عمل
چین نے مشرقی لداخ میں چینی انفراسٹرکچر سے متعلق امریکی جنرل کے بیان کو ‘آگ میں ایندھن’ ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ لداخ میں ایل اے سی پر ہونے والی پیش رفت پر اس کی گہری نظر ہے۔
چین کی وزارت خارجہ اپنے سخت رد عمل میں، لداخ سے متعلق ایک امریکی جنرل کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے بیانات “آگ میں ایندھن” ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بیان کو “قابل نفرت فعل” قرار دیا۔
واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل ہی نئی دہلی کے دورے کے دوران امریکی فوجی جنرل چارلس اے فلین نے کہا تھا کہ مشرقی لداخ میں چینی فوج جس انداز سے انفراسٹرکچر کھڑا کر رہی ہے وہ کافی خطرناک ہے اور اس طرح اس خطے میں عدم استحکام بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
چین کا رد عمل
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے امریکی جنرل کے بیان کے رد عمل میں کہا، “سرحدی مسئلہ چین اور بھارت کے درمیان ہے، دونوں فریق اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے مناسب طریقے سے حل کرنے کی خواہش اور صلاحیت بھی رکھتے ہے، تاہم کچھ امریکی حکام اس معاملے میں آگ میں ایندھن ڈالنے کا کام کرنے کے ساتھ ہی انگلیاں اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
بیجنگ میں روزانہ کی بریفنگ میں اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں چینی ترجمان نے کہا، “یہ ایک قابل نفرت فعل ہے۔ ہمیں تو اس بات کی توقع ہے کہ وہ علاقائی امن اور استحکام کے لیے مزید بہتر کردار ادا کریں گے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب بھارت-چین سرحد پر صورتحال “مجموعی طور پر” مستحکم ہو رہی ہے اور دونوں ممالک کے فرنٹ لائن فورسز کے مابین مغربی حصے کے بیشتر علاقوں میں کشیدگی کم بھی ہوئی ہے۔
بھارت کا رد عمل
امریکی جنرل کے بیان کے حوالے سے حب نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ سے سوال کیا گیا، تو انہوں نے امریکہ کا ذکر کیے بغیر کہا کہ حکومت علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے تمام مناسب اور موثر اقدامات کے لیے پر عزم ہے۔
ھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت سرحدی علاقوں میں ہونے والی پیش رفت کی بہت “غور سے نگرانی” کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت اور چین نے اس معاملے میں کور کمانڈر کی سطح کے مذاکرات کے ایک اور دور کے انعقاد پر اتفاق بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا، “ہماری توقع ہے کہ ان مذاکرات میں چینی اور بھارتی فریق مل کر بقیہ مسائل کے باہمی طور پر قابل قبول حل تک پہنچنے کے لیے کام کریں گے۔ اس حقیقت کے پیش نظر دونوں فریق اس بات پر بھی متفق ہیں کہ موجودہ صورت حال کو طول دینا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔”
امریکی جنرل نے کیا کہا تھا؟
امریکی جنرل چارلس اے فلین نئی دہلی کے دورے پر تھے، جو ہند بحرالکاہل میں امریکی فوج کے کمانڈنگ افسر ہیں۔ بدھ کے روز نئی دہلی میں صحافیوں سے بات چیت انہوں نے کہا کہ مشرقی لداخ میں جس تیزی سے چین کی عسکری سرگرمیاں جاری ہیں وہ خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا، “مجھے یقین ہے کہ سرگرمی کی یہ سطح آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ میرے خیال سے جو کچھ بھی بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا رہا ہے وہ تشویشناک ہے۔ ان کے تمام فوجی ہتھیاروں سے متعلق بالآخر یہ سوال پوچھنا ہی پڑتا ہے
آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور اس کے پیچھے ان کا مفاد کیا ہے؟”
بھارت اور چین کے درمیان لداخ پر ہونے والی بات چیت میں تعطل کو دور کرنے کے لیے فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، “میرے خیال میں جو بات چیت چل رہی ہے وہ معاون ہے، تاہم رویہ بھی اہم بات ہے۔ لہذا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اس کو سمجھنا ایک چیز ہے، لیکن جس طرح سے وہ کام کر رہے ہیں اور ان کا جو برتاؤ ہے، وہ سبھی کے نزدیک تشویشناک ہے۔”
امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ اسی طرح کے چیلنجز کے مد نظر بھارت اور امریکہ جیسے ممالک مل کر کام کر رہے ہیں اور مشترکہ مشقوں کا انعقاد کر رہے ہیں جو باہمی تعاون کو بہتر بنا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی اگلی مشترکہ مشق آئندہ اکتوبر میں بھارت کے دس ہزار فٹ کی اونچائی والے علاقے میں منعقد کی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں