539

قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس

قومی علماء و مشائخ کونسل کا اجلاس
قومی علماء و مشائخ کونسل کا نواں اجلاس 23 جنوری 2020 کو کراچی کے ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں منعقد ہوا۔یہ اجلاس اس حوالہ سے بہت خوش آیند تھا کہ اس میں روایتی قسم کا ہلا گلا اور شور شرابہ نہیں تھا جیسا کہ عموما دیکھنے میں آتا ہے۔
یہ اجلاس جناب پیرزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری وفاقی وزیر برائے مذہبی امور وبین المذاہب ہم آہنگی کی صدارت میں منعقد ہوا۔آپ نے اجلاس کا افتتاح اپنی گفتگو سے کیا۔اپنے افتتاحی خطاب میں علماء ومشائخ کا شکریہ ادا ہوئے فرمایاکہ میں چاہتا ہوں کہ اس کونسل کے اجلاس تمام صوبوں کے صدر مقامات پر ہونے چاہییں۔ان فکری نشستوں میں ہم اپنے خیالات ایک دوسرے سے شئر کریں۔میرا منصبی فرض ہے کہ آپکی آواز کو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم تک پہنچاوں۔ہم آپکو کوئی فکر نہیں دینا چاہتے بلکہ آپکی فکر سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے فروری کے اوائل میں صدر مملکت کے ساتھ علماء و مشائخ کی میٹنگ کا بھی عندیہ دیا۔اور پھر مارچ میں دوسری نشست کا بھی اعلان کیا۔انہوں نے وراثت کے قوانین میں نقائص کودور کرنے کی بھی بات کی، ائمہ کے لیے تربیتی کورسز کے آغار کرنے کا بھی اظہار فرمایا۔انہوں نے کہا کہ ماحولیات کی آلودگی اور کلین اینڈ گرین پاکستان کے لیےعلماء اپنا کردار ادا کریں۔ اسی طرح بہود آبادی اور روزمرہ کے قوانین اور ٹریفک کے قوانین کے حوالہ سے بھی شعور وآگہی پیدا کرنے کے لیے علماء جمعہ کے خطبات میں اظہار خیال فرمائیں۔بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے حوالہ سے انہوں نے بہت دکھی دل کے ساتھ فرمایا کہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے کہ ہم دینی افتخار کی بات کرتے ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ آئے دن زیادتیاں ہورہی ہیں۔انہوں کاکاخیل زیارت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ وہاں معصوم بچی کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے میں اسے کبھی نہیں بھول سکوں گا۔
ان خیالات کے اظہار کے بعد مجھے اندازہ لگانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی کہ صاحبزادہ صاحب ان مذکورہ مسائل کے حل کے لیے بہت ہی سنجیدہ ہیں۔
پیرزادہ صاحب بہت ہی پرعزم شخصیت کے مالک ہیں اور اپنی ملنساری کی وجہ سے تمام مکاتب فکر میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں۔اس اجلاس میں جو بہت ہی اہم بات مجھے نظر آئی وہ یہ ہے کہ وزیر محترم کی شخصیت پر تمام مکاتب فکر کے علماء کو بھرپور اعتماد ہے۔اس اجلاس میں ان کے اپنے مکتب فکر کے شرکاء میں سے بعض کی طرف سے انہیں سخت جملوں اور سخت رویہ کا سامنا کرنا پڑا۔جس پر مجھے ذاتی طور پر تکلیف بھی ہوئی مگر چونکہ اس فورم کے اجلاس میں میری پہلی شرکت تھی اور “چند زور آور” لوگ کسی اور کوبولنے بھی نہیں دے رہے تھے اس لیے خاموش رہا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت کی کابینہ میں دین بیزار طبقہ کی نمائندگی موجود ہے۔ مختلف مافیاز کی بھی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔اہل مذہب کی بھی پیرزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری کی صورت میں ایک مضبوط نمائندگی موجود ہے۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کے ہاتھ کتنے مضبوط کرتے ہیں۔میں تمام مکاتب فکر کے علماءو مشائخ اور دانشوروں کی خدمت میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اس ملک میں مذہب اور مذہبی روایات کا تحفظ چاہتے ہیں تو اسکا یہی طریقہ ہے کہ ہم کابینہ میں اپنے نمائندہ کے ہاتھ مضبوط کریں۔صاحبزادہ صاحب شاندار خانقاہی پس منظر رکھنے کے باوجود نہ صرف مسالک کا خیال رکھتے ہیں بلکہ اقلیتوں کے بھی تمام پروگرامز میں جاتے ہیں اور کھلے دل سے شرکت کرتے ہیں۔مسلکی عصبیت اور مذہبی تنگ نظری سے پاک شخصیت کا وجود اللہ کی نعمت سے کم نہیں ہے۔صاحبزادہ صاحب نے تمام لوگوں کے سوالات کے جوابات بہت خندہ پیشانی سے دیئے۔جب شرکاء نے کابینہ کے کچھ وزراء پر اعتراضات اٹھائے توانہوں نے جوابا کہا کہ حکومت ایک لشکر ہےاور لشکر میں اندھے، کانے، بہرے اور ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔یہ لوگ جنکی آپ بات کررہے ہیں وہ صرف 2 یا تین ہیں جبکہ کابینہ میں کافی لوگ وہ ہیں جو اسلام اور اسلامی اصولوں کی بات کرتے ہیں۔
صاحبزادہ صاحب اس کونسل کو آئینی وقانونی حیثیت دلوانے کے لیے بہت پر عزم دکھائی دے رہے ہیں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم انہیں غیر مشروط تعاون دیکر مضبوط کریں۔
اصلاح معاشرہ میں محراب ومنبر اور مسجد و مدرسہ کا کلیدی کردار ہے۔اگر ہم وابستگان مسجد و مدرسہ اپنی ذمہ داری کا پورا احساس کریں اور ان اداروں کو معاشرتی اصلاح کے لیے استعمال کریں تو حکومتوں کو مجبوراہماری ہر جائز بات کو ماننا پڑے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم خطبات جمعہ میں روایتی موضوعات کے بجائے معاشرتی اصلاح پر مبنی موجودہ حالت سے ہم آہنگ خطبات پیش کریں۔کونسل کے اجلاس میں خطبات کے حوالہ سے بہت مفید بحث ہوئی۔میں سمجھتا ہوں کہ وزرات کو ان خطبات کی تیاری پر بھرپور توجہ دینی چاہیے اور ہنگامی بنیادوں پر ان خطبات کو تیار کر کے ائمہ وخطباء کی خدمت میں جلد از جلد پیش کردینا چاہیے۔اہل فکر ونظر سے ان خطابات کو تیار کروانا چاہیے۔اور وزارت مذہبی امور ان خطبات کے لیے ایک اچھی سی ویب سائیٹ تیار کرکے ان خطبات کو اس پر اپ لوڈ کردے تو یہ عمل اور آسان اور جلد ہوسکتا ہے۔
اس اجلاس میں بعض شرکاء کی طرف سے سود کے خاتمے پر بھی بات کی گئی۔سود کے خاتمے کے حوالہ سے پہلے ہی اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات پیش کر چکی ہے بلکہ وفاقی شرعی عدالت سود کے خاتمہ پر اپنا حکم بھی صادر کر چکی ہے۔لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی جس کے نتیجے میں عدالت عظمہ نے وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا۔سپریم کورٹ کے اس آرڈر کے تحت ملک میں سودی بنکنگ سسٹم چل رہا ہے ورنہ وفاقی شرعی عدالت تو امتناع سود کا حکم بہت پہلےجاری کرچکی تھی۔سود سے چھٹکارے کا حل مفتی منیب الرحمن صاحب نے پیش کیاجنہوں نے قومی علماء ومشائخ کے اجلاس میں تقریبا دوسال سے زائد عرصہ کے بعد شرکت کی۔انہوں نے کہا کہ “ہمارے پاس ایک بابا ہے جس کے پاس حل ہےاور وہ کہتا ہے کہ ہم نے جن ممالک سے قرضہ لیا ہوا ہے انہیں کہیں گے ہم تمہارا پیسہ واپس نہیں کرتے”۔۔۔یقینا یہ ایک غیر سنجیدہ بات تھی اس پر محترم وزیر صاحب نے ہنستے ہوئے مفتی صاحب سے فرمایا”اس قسم کے بےہودہ حل پیش کرنے کی آپ سے توقع نہیں تھی”۔اس پر پورا ایوان کھلکھلا اٹھا۔
جب مدارس کی اصلاحات کی بات آئی تو ہمارے علماء میں سے بعض نے کہا کہ ہمارے مدارس پہلے سے ہی ٹھیک چل رہے ہیں انکو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی معقول بات نہیں تھی مگر اس پر بھی وزیر محترم نے بہت ہی خوبصورت الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ اصلاح کی کنجائش ہر جگہہ موجود ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر یہ اجلاس بہت مفید رہااور اگر وزارت مذہبی امور علماء کی ذھن سازی کرنے میں کامیاب ہوجائے اور مسجد میں دیئے جانے والے تمام خطبات کو بامقصد بنانے میں کامیاب ہوجائے تو یہ پاکستان کی بہت عظیم خدمت ہوگی۔اللہ سبحانہ وتعالی صاحبزادہ صاحب کی حفاظت فرمائے اور علماء و مشائخ کو سنجیدہ فکری کےساتھ عوام الناس کی تربیت میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین