148

قومی سلامتی اعلامیہ میں سازش کا لفظ نہیں، امریکا نے اڈوں کا مطالبہ نہیں کیا، اداروں کا آئینی دائرے میں رہنا ملکی مفاد میں، آرمی چیف نے توسیع مانگی نہ قبول کریں گے، 29 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے، فوجی ترجمان

راولپنڈی(ایجنسیاں)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے‘ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیے جاتے اور بھی وجوہات ہوتی ہیں‘اعلامیے میں لکھا ہوا ہے کہ غیرسفارتی زبان استعمال کی گئی‘ امریکا کی جانب سے فوجی اڈوں کا مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو فوج کا بھی وہی موقف ہوتا جو سابق وزیراعظم کا تھا۔تمام اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے‘فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے‘ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا‘سابق وزیراعظم نے سیاسی بحران حل کرانے کیلئے فوجی قیادت سے رابطہ کیااور اپوزیشن سے تین آپشنز پر بات کرنے کیلئے کہا‘ فوج مستقبل میں بھی آئینی کردار ادا کرتی رہے گی‘پاک فوج ملکی سلامتی و دفاع کے لئے ہمہ وقت چوکس اور تیار ہے، عوام کی حمایت فوج کی طاقت کا منبع ہے اور اس کے خلاف کوئی بھی سازش برداشت نہیں کی جائے گی‘ فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ‘ سیاست میں نہ گھسیٹاجائے ‘ پچھلے 74سال میں تمام سیاسی جماعتوں کاایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ اب ہم نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔پچھلے ضمنی انتخاب میں کسی نے الزام نہیں لگایا کہ فوج کی طرف سے مداخلت کی گئی، بلدیاتی انتخابات میں بھی کسی نے کوئی الزام نہیں لگایا‘تعمیری تنقید مناسب ہے‘بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں‘پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے،عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کامیاب نہیں ہو گی‘پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہے اور اس کا دفاع کرنا سب کا فرض ہے‘ ان شاءاللہ پاکستان میں کبھی مارشل لاء نہیں آئے گا، آرمی چیف نہ تو مدت میں توسیع کے خواہشمند ہیں اور نہ قبول کریں گے‘آرمی چیف نومبر 2022 میں ریٹائر ہوجائیں گے‘ آرمی چیف کی اپوزیشن سے پاکستان یا بیرون ملک ملاقاتوں کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں‘ ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں ‘ ان سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کیلئے کچھ قانون ہیں،ان پر عمل کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، آرمی چیف جس ادارے کے سربراہ ہیں وہ حکومت کے ماتحت ہے، فوج کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال ملکی مفاد میں نہیں‘ادارے کےسربراہ کے خلاف کوئی بات ہوئی توحکومت کی ذمہ داری ہے کہ کارروائی کرے ، ہمیں اپنی سوسائٹی کوانسولیٹ کرنےکیلئے بہت مربوط اقدامات کرنے پڑیں گے، ہماری فوج ڈس انفارمیشن مہم کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے، سوسائٹی کو سوشل میڈیاکے اثرات سے بچانے کیلئے بہت مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔جس دن وزیراعظم نے حلف لیا اسٹاک مارکیٹ اوپرگئی اور ڈالر نیچے گیا‘ یہ ایک طرح کا معاشی استحکام لگتاہے ۔ جمعرات کو یہاں پریس بریفنگ میں انہوں نے کہا کہ دو روز قبل آرمی چیف کی زیر صدارت فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس ہوئی جس میں ملکی سلامتی کے حوالے سے لیےگئے اقدامات بالخصوص اندرونی سکیورٹی اور آئین و قانون کی بالادستی کو پیش نظر رکھنے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اسے درست سمت میں بہترین قدم قرار دیا‘سب نے اتفاق کیا کہ جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی ، قانون کی بالادستی اور سب اداروں کا آئین کے دائرہ کار میں رہنا ملکی مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے مراسلے کے معاملے پر اپنا موقف قومی سلامتی کمیٹی میں پیش کر دیا تھا، اس کا اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ہماری ایجنسیاں اور ادارے مستعد اور بھرپور طریقے سے کام کررہے ہیں، کسی نے ملک کی جانب میلی آنکھ سے دیکھا تو وہ آنکھ نکال دیں گے۔ سازش کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خود دیکھ لیں قومی سلامتی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ ہے یانہیں؟ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ اجلاس کے منٹس کو حکومت ہی ڈی کلاسیفائی کرسکتی ہے ‘ایک اور سوال پرڈی جی آئی ایس پی آر نےکہا کہ 9 اپریل کی رات وزیراعظم ہاؤس میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، اس حوالے سے سب باتیں جھوٹ ہیں ، بی بی سی نے بہت ہی واہیات اسٹوری شائع کی، اس سے بڑا جھوٹ کسی انٹرنیشنل لیڈنگ ایجنسی کی طرف سے نہیں ہوسکتا، یہ ایک مکمل من گھڑت اسٹوری تھی۔ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں صدر کے چیمبر میں دو اعلیٰ افسران کی ملاقات سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں‘عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیراعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں‘ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے جہاں ان کے بعض رفقاء کی موجودگی میں بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیراعظم کا استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد اور وزیراعظم کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن شامل تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تیسرے آپشن پر وزیراعظم نے کہا کہ ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں جس پر آرمی چیف نے پی ڈی ایم کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گےاوراپنے منصوبے پر عمل کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، کسی ضمنی انتخاب یا بلدیاتی انتخاب میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی، اگر کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے مداخلت کی تو سامنے لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ انتشار کے لیے ریٹائرڈ افسران کے جعلی آڈیو پیغام پھیلائے جارہے ہیں، پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف متعلقہ ادارے کارروائی کررہے ہیں۔شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کے شریک نہ ہونے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی اس روز طبیعت ٹھیک نہیں تھی، وہ آفس بھی نہیں آئے تھے۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ فوج میں کسی قسم کی تقسیم نہیں ‘ فوج یونٹی آف کمانڈ پر چلتی ہے، جس طرف آرمی چیف دیکھتا ہے، سات لاکھ فوج ادھر دیکھتی ہے‘نیوٹرل کا لفظ فوج کے کردارکو ظاہر نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے بلکہ ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے۔ میجرجنرل بابرافتخار کا کہنا تھاکہ کہ جلسے اور ریلیاں جمہوریت کا حصہ ہیں، یہ آزاد فضا بہت محنت اور قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کہہ لیں یا فوج کہہ لیں لیکن حکومت کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں، کوئی اختلافات نہیں ہیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بہت اچھا اور احترام کا تعلق رہا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے دورہ روس سے قبل اعتماد میں لیا تھا، وہ جب روس گئے تھے تو ادارہ جاتی رائے مانگی گئی تھی اور فوج اس معاملے میں ان کے ساتھ تھی کہ جانا چاہیے، اس دن کسی کے خام وخیال میں نہیں تھا کہ جس دن وزیراعظم وہاں ہوں گے، وہ اسی دن جنگ کا آغاز کردیں گے جو بہت شرمندگی کا باعث تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں