فتنہ قادیانیت اور ہمارہ زمہ داری 1,043

فتنہ قادیانیت اور ہماری ذمہ داری تحریر مفتی گلزار احمد نعیمی

فتنہ قادیانیت
اور
ہماری ذمہ داری
آج ایک دفعہ پھر فتنہ قادیانیت نے سر اٹھایا ہےاور اب یہ پہلے سے زیادہ منظم اور مضبوط ہوکر میدان عمل میں اترے ہیں۔اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی قوت نہیں ہے جو انکا مقابلہ کرسکے۔پاکستان میں اہل مسجد اور اہل مدرسہ شور مچار رہے ہیں مگر اب یہ فتنہ اپنی جڑیں بین الاقوامی سطح پر بہت مضبوط کرچکا ہے۔محض فیس بک پر پوسٹ چڑھا دینے سے یاسیمینار اورکانفرنس کر دینے سے اب اسکا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔( اگرچہ یہ کام بھی بہت مفید ہے)قادیانی اپنے آپکو احمدی مسلم کمیونٹی کے عنوان سے پوری دنیا میں کامیابی کے ساتھ متعارف کروا چکے ہیں۔امریکہ کے وائیٹ ہاوس تک انکی رسائی کا آپ بچشم خود ملاحظہ کر چکے ہیں کہ کس طرح “شکورے چھابڑی والے” نےاپنا کیس امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے سامنے پیش کیا ہے۔اس نے کس طرح اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کیا ہے کہ ہم احمدی مسلمانوں کو صرف پاکستان میں ہی لوگ غیر مسلم کہتے ہیں اور ہمارے حقوق پامال ہورہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں بھی وہ بہت ہی گہرے روابط پیدا کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے پچھلی حکومت (نواز شریف )کو باقاعدہ طور پر ایک خط کے ذریعہ کہا کہ پاکستان میں احمدی مسلمانوں پر بہت سخت پابندیاں ہیں اس لیے آپ انہیں ریلیکس کریں۔اسی خط کے نتیجے میں نواز حکومت نےقائداعظم یونیورسٹی کے فزکس سینٹر کا نام تبدیل کیا تھا۔اور ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھا تھا۔اب خدا جانے اسکی کیا صورت حال ہے۔اس حکومت نےقانون ختم نبوت کی تبدیلی کی ابتداء بھی کی تھی مگر پھر اللہ نے انہیں مہلت نہ دی،حکومت ختم ہوئی اور ابھی تک ان کے گھروں پر رسوائیوں کے ڈیرے ہیں۔اب یہ مسئلہ پاکستان یا اسکی اسمبلی کا نہیں رہا بلکہ اس میں اقوام متحدہ اور امریکہ براہ راست دلچسپی لے رہے ہیں۔اس دفعہ حکومت پراتنا بڑا پریشر ڈالا جائے گا کہ شاید حکومت اس پریشر کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔بہت سے وزراء بھی موجودہ حکومت میں قادیانی نواز ہیں وہ بھی بہت زیادہ راہ ہموار کررہے ہیں۔لیکن اسی کابینہ میں بہت سے ایسے وزراء بھی ہیں جو ختم نبوت کے قانون کے محافظ بھی ہیں۔ہمیں حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے۔حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے بجا حکومت کو قرآن وسنت کی روشنی میں اس فتنہ کی اصل صورت حال سمجھانی چاہیے۔پیرزادہ نور الحق قادری وزیر مذہبی امور،شیخ رشید،علی محمد خان اور دیگر مذہبی پس منظر رکھنے والے وزراء اور ایم این ایز کو اپنے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ دعوت دینی چاہیے اور ان لوگوں سے کام لینا چاہیے۔
ہمارے بزرگوں نے مسلکی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مسئلہ پر متفقہ موقف اپنایا تھاجس کے نتیجے میں 74 کی اسمبلی نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا تھا۔مگر اس کے بعد بدقسمتی سے ہم نے مسئلہ ختم نبوت پر کو قابل ذکر کام نہیں کیا۔عرب ممالک سے ہماری کچھ جماعتوں نےمالی مفادات تو بہت لیے ہیں مگر انہیں اس بات پر قائل نہیں کیا کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔آج بھی دوبئی،متحدہ عرب امارات اور گلف کی دوسری ریاستیں انہیں احمدی مسلمان کے طور پر مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ سمجھتی ہیں۔ہم نے عرب ممالک کو انکے عقائد سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ہم نے “البریلویہ” لکھ کر عربوں کو اس بات پر توقائل کرنے کی ضرور کوشش کی کہ بریلوی مشرک ہیں لیکن کوئی ایسا “توحید پرست” عالم نہیں اٹھا جس نے “القادیانیہ” لکھ کر عربوں کو قادیانیوں کے عقائد بتانے کی کوشش کی ہو۔اس لیےاہل عرب قادیانیوں کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔میری تجویز ہے کہ ملک کی بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کو میدان عمل آنا چاہیے اور قادیانی نظریات کو عربی اور انگریزی میں ترجمہ کر کے عربوں تک پہنچانا چاہیے اور اس فتنے کے خلاف اپنے وفود بھیج کر ان سے مدد طلب کرنی چاہیے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے سامنے” شکورے چھابڑی والے” نےواضح طور پر کہا کہ پوری دنیا میں صرف پاکستان میں ہی ہمیں غیر مسلم کہا جاتا ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ پاکستان کے علاوہ سب مسلمان ممالک ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں۔اگر ہم اس مسئلہ پر متفقہ حکمت عملی اپنائیں تو اب بھی مثبت نتائج مرتب ہو سکتے ہیں اگرچہ کافی دیر ہو چکی ہے۔عرب ممالک کو اس مسلئہ پر ہمیں ساتھ ملانا چاہیے گو اب بہت مشکل ہے کیونکہ امریکہ کی غلامی میں اب وہ سر تاپا ڈوب چکے ہیں۔ وہ اسلام کو بچانے کے بجائے اپنی بادشاہتوں کو بچانے کے لیے زیادہ فکر مند ہیں۔اس لیے اب ان سے توقع کم ہی ہےکہ وہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیں۔
برطانیہ قادیانیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے اور ہم سب جانتے ہیں کی قادیانیت کا یہ خاردار اور بدبودار پودا لگانے والے برطانوی انگریز ہی ہیں۔اس حقیقت سے بھی ہم واقف ہیں کہ یہ جھوٹا نبی تخلیق کرنے کا مقصد حضور صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو مسلمانوں کے دلوں سے نکالنا تھا۔بقول علامہ محمد اقبال۔۔
یہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو۔
فکر عرب کو دیکر فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
اس حقیقت کو جاننے کے باوجود برطانیہ میں مقیم ہمارےمسلمانوں نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے کوئی بڑاکام نہیں کیا۔برطانیہ میں بھی بین المسالک لڑائی عروج پر رہتی ہے بلکہ ہم مسلک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں مگر اس فتنہ کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں ہےالا ماشاء اللہ۔میری برطانیہ،امریکہ اور یورپ کےممالک میں رہنے والے مسلمانوں سے دست بستہ گزارش ہے خدا را۔۔! نبی کی ناموس کی خاطر اور فتنہ قادیانیت کے مقابلہ کے لیے ایک ہوجائیں۔اگر قادیانی اپنے آپ کو مسلمان منوانے میں کامیاب ہوگئے تو یاد رکھیں ہماری نمازیں،روزے اور دیگر عبادات کسی کام کی نہیں رہیں گی۔ جس طرح قایانی اپنا کیس اقوام متحدہ میں لیکر گئے ہیں آپ بھی لیکر جائیں۔یاد رکھیں اگر اقوام متحدہ نے انہیں مسلمان ڈیکلیئر کردیا تو پاکستان کے لیے انہیں غیر مسلم برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گاکیونکہ پاکستان نے ابھی تک اتنی جرآت نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی حکم عدولی کر سکے۔آپ اقوام متحدہ میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر کے انکا مقابلہ کریں۔امریکی مسلمان ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کر کے اصل صورت حال سے اسے آگاہ کریں۔
ہمیں قانون کا رستہ اپنانا ہوگا۔پاکستانی مسلمانوں کو اپنی حکومت کی قربت اختیار کر کے اسے اس فتنہ کے خلاف قائل کرنا ہوگا۔
آخر میں ایک بات عرض کروں کہ یاد رکھیں جھنڈا اونچا ہمیشہ آمنہ کے لال کا ہی رہے گا۔پہلے بھی بہت سے کذاب آئے،آج انکا نام ونشان نہیں ملتا۔یہ بدبخت بھی بے نشان ہوجائے گا۔”ورفعنا لک ذکرک” کے اعزاز والا نبی ہی دنیا کےدل پر راج کرے گا ان شاء اللہ۔