Seerat-ul-Nabi 162

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ غزوہ حمراءالاسد اور کفّار کی پسپائی

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ غزوہ حمراءالاسد اور کفّار کی پسپائی
یہ اعلان قریش کو ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ انھیں معلوم ہوجائیں کہ آنحضرت ﷺ ان کے تعاقُّب میں تشریف لارہے ہیں – اور ساتھ میں انھیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی طاقت موجود ہے – اُحد کی شکست کی وجہ سے وہ کمزور نہیں ہوگئے –
اس طرح تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے سب لوگ زخمی تھے لیکن کسی نے بھی اپنے زخموں کی پرواہ نہ کی -…… جبکہ حالت یہ تھی کہ بنو سلمہ کے چالیس آدمی زخمی ہوئے تھے – خود اللّہ کے رسول بھی زخمی تھے – اور اسی حالت میں صحابہ کو لیکر روانہ ہوئے آپ ﷺ کے زخموں کی صورت یہ تھی کہ چہرہ مبارک زرہ کے گڑجانے کی وجہ سے زخمی تھا – چہرہ مبارک پر پتھر کا ایک زخم بھی تھا – نچلا ہونٹ اندر کی طرف سے زخمی تھا – ایک روایت میں اوپر کا ہونٹ زخمی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے – ان زخموں کے علاوہ آپ ﷺ کا دایاں کندھا بھی زخمی تھا – اس کندھے پر ابن قیمیہ نے اس وقت وار کیا تھا جب آپ گڑھے میں گرے تھے گڑھے میں گِر جانے کی وجہ سے آپ ﷺ کے دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے – ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہے ؟
انھوں نے فرمایا :
” یہیں ہیں اللّٰه کے رسول! ”
یہ کہ کر وہ گئے اور ہتھیار پہن کر آگئے حالانکہ ان کے سینے پر صرف نو زخم تھے جبکہ پورے جسم پر ستّر زخم تھے….. اللّٰہ اکبر –
آپ ﷺ کا لشکر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حمراءالاسد کے مقام پر ٹھہرا – یہ جگہ مدینہ منوّرہ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے – اس مقام پر مسلمانوں نے تین دِن تک قیام کیا – ہر رات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑاو میں جگہ جگہ آگ روشن کرتے رہے تاکہ دشمن کو دور سے روشنیاں نظر آتی رہیں – اس تدبیر سے دشمن نے خیال کیا کہ مسلمان بڑی تعداد کے ساتھ آئے ہیں – چنانچہ ان پر رعب پڑ گیا –
اس مہم کو غزوۂ حمراءالاسد کہا جاتا ہے – حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس غزوے میں مسلمانوں کے پاس کھانے کے لیے صرف کھجوریں تھیں یا صرف اونٹ ذبح کیے جاتے تھے –
کفّار نے جب یہ خبر سنیں کہ مسلمان تو ایک بار پھر تیاری کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو وہ مکّہ کی طرف لوٹ گئے جب حضور ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے بھی مدینہ کوچ فرمایا –
حمراءالاسد کے مقام پر مسلمانوں نے ابوعزہ شاعر کو گرفتار کیا – یہ شخص مسلمانوں کے خلاف اشعار کہا کرتا تھا – غزوہ بدر کے موقع پر بھی گِرفتار ہوا تھا – گِرفتار ہوکر حضور اکرم ﷺ کے سامنے لایا گیا تھا تو گِڑ گڑانے لگا تھا – آپ ﷺ نے اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا – لیکن یہ اپنے وعدے سے پھر گیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف اشعار کہتا رہا تھا – اس موقع پر یہ پھر گِرفتار ہوا- اب پھر اس نے رونا گِڑ گِڑانا شروع کیا… لگا معافی مانگنے…. اس نے کہا “اے محمّد مجھے چھوڑدیجئے! مجھ پر احسان کیجیے! میری بیٹیوں کی خاطر رہا کردیجیے میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا – ”
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
” نہیں اب تو مسلمانوں کو دکھ نہیں پہنچا سکے گا ” اس کے بعد اس کو قتل کردیا گیا –
حضور اکرم ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا :
” مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا -” حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کی وضاحت علماء نے یہ بھی لکھی ہے کہ مومن کو چاہیے کوئی اسے دھوکہ دے تو اس سے ہوشیار رہے اور پھر اس کے دھوکے میں نہ آئے –
اسی سال یعنی ٣ہجری میں شراب حرام ہوئی –
۴ہجری میں غزوہ بنو نضیر پیش آیا – اس کی وجہ یہ بنی کہ نبی اکرم ﷺ بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے – آپ ﷺ کو ایک ضروری معاملہ میں بنو نضیر سے بات طئے کرنا تھی – یہ یہودیوں کا قبیلہ تھا – آپ ﷺ نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو کسی کا خون بہادینا پڑا تو بنو نضیر بھی اس سلسلہ میں مدد کریں گے – حضور اکرم ﷺ جب ان کے محلے میں تشریف لے گئے تو صحابۂ کرام کی ایک مختصر جماعت بھی ساتھ تھی – ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی – ان میں حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے – حضور اکرم ﷺ نے وہاں پہنچ کر ان سے بات شروع کی تو وہ بولے :
“ہاں ہاں ! کیوں نہیں …. ہم ابھی رقم ادا کردیتے ہیں ” آپ پہلے کھانا کھالیں :” اس طرح وہ بظاہر بہت خوش ہوکر ملے ” لیکن دراصل وہ آپ ﷺ کے قتل کی سازش پہلے سے تیار کر چکے تھے – آپ ﷺ کو انھوں نے ایک دیوار کے ساتھ بٹھایا – پھر ان میں سے ایک یہودی اس مکان کی چھت پر چڑھ گیا – وہ چھت سے حضور اکرم ﷺ کے اوپر ایک بڑا سا پتھر گرانا چاہتا تھا – ابھی وہ ایسا کرنے ہی والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا – انہوں نے آپ ﷺ کو اس سازش سے باخبر کردیا – آپ ﷺ تیزی سے وہاں سے اٹھے – انداز ایسا تھا جیسے کوئی بات یاد آگئی ہو… آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر مدینہ منورہ لوٹ آئے –
جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی واپسی میں دیر ہوئی صحابہ کرام حیران ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کی تلاش میں نکل پڑے – انہیں مدینہ منورہ سے آتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا… صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھا – اس نے بتایا کہ وہ آپ ﷺ کو مدینہ منورہ میں دیکھ کر آرہا ہے – اب صحابہ رضی اللہ عنہم فوراً مدینہ منورہ پہنچے – تب حضوراکرم ﷺ نے انہیں سازش کے بارے میں بتایا –
آپ ﷺ نے محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو بنو نظیر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ پیغام دیا:
“میرے شہر (یعنی مدینہ) سے نکل جاؤ، تم لوگ اب اس شہر میں نہیں رہ سکتے – اس لیے کہ تم نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ غداری تھی -”
تمام یہودیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپ ﷺ کے خلاف انہوں نے کیا سازش کی تھی، اس لیے کہ سب کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا – سازش کی تفصیل سن کر یہودی خاموش رہ گئے – کوئی منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا – پھر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا:
“آپ ﷺ کا حکم ہے کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص بھی یہاں پایا گیا، اس کی گردن مار دی جائے گی -”
حضور نبی کریم ﷺ کا حکم سن کر یہودیوں نے وہاں سے کوچ کی تیاریاں شروع کردیں … اونٹوں وغیرہ کا انتظام کرنے لگے، لیکن ایسے میں منافقوں کی طرف سے انہیں پیغام ملا کہ اپنا گھربار اور وطن چھوڑ کر ہرگز کہیں نہ جاؤ، ہم لوگ تمہارے ساتھ ہیں ، اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور اگر تم لوگوں کو یہاں سے نکلنا ہی پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے -”
یہودیوں کو روکنے میں سب سے زیادہ کوشش منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے کی، اس نے یہودیوں کو پیغام بھیجا:
” اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر مت جاؤ، اپنی حویلیوں میں جمے رہو… میرے ساتھ دو ہزار جانباز ہیں ، ان میں میری قوم کے لوگ بھی ہیں اور عرب کے دوسرے قبائل بھی ہیں ، وقت آن پڑا تو یہ لوگ تمہاری حویلیوں میں پہنچ جائیں گے اور آخر دم تک لڑیں گے، تم پر آنچ نہیں آنے دیں گے، تم سے پہلے جانیں دیں گے… ہمارے ساتھ قبیلہ بنی قریظہ کے لوگ بھی ہیں اور قبیلہ غطفان کے لوگ بھی… یہ سب تمہاری طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں -”
بنی نظیر کو یہ پیغامات ملے تو انہوں نے جلاوطن ہونے کا خیال ترک کردیا… چنانچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو پیغام بھیجا:
“ہم اپنا وطن چھوڑ کر ہرگز نہیں جائیں گے… آپ کا جو جی چاہے، کرلیں -”
یہ پیغام سن کر آپ ﷺ نے کلمہ تکبیر بلند کیا، آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا:
“یہودی جنگ پر آمادہ ہیں لہٰذا جہاد کی تیاری کرو -”
مسلمانوں نے جہاد کی تیاری شروع کردی، اس وقت یہودیوں کو جنگ پر ابھارنے والا شخص حیی بن اخطب تھا، اسی شخص کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو بعد میں حضور اکرم ﷺ کے نکاح میں آئیں اور ام المومنین کا اعزاز پایا – حیی بن اخطب بنو نضیر کا سردار تھا، بنو نظیر کے ایک دوسرے سردار سلام بن مشکم نے اسے سمجھانے اور جنگ سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن حیی بن اخطب منافقوں کی شہہ پر باز نہ آیا اور جنگ پر تلا رہا، اس پر سلام بن مشکم نے اس سے کہا:
“تم نے میری بات نہیں مانی، اب تم دیکھنا، ہم اپنے وطن سے بے وطن کردیئے جائیں گے، ہماری عزت خاک میں مل جائے گی، ہمارے گھر والے قیدی بنا لیے جائیں گے اور ہمارے نوجوان اس جنگ میں مارے جائیں گے -”
حیی بن اخطب پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں