275

عیدالاضحیٰ اور فلسفہ قربانی

قربانی مسلمانوں کا اہم مذہبی فریضہ ہے جو نہ صرف سنت ابراہیمیؑ کی عظیم یاد تازہ کرتی ہے بلکہ ایثار وقربانی ، مستحقین کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا درس دیتی ہے، اللہ تعالی کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اسے اس کی ضرورت ہے مگر فلسفہ قربانی یہ ہے کہ اللہ کو مسلمانوں کا تقویٰ مطلوب ہے اور اسی تقویٰ کی بنیاد پر قربانی کی سنت ادا کرنے کا حکم ہے، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے عید الاضحیٰ پر کروڑوں مسلمان جذبہ ایمانی کے تحت حلا ل جانور کی قربانی کرتے ہیں۔ عیدالاضحی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید کا مفہوم ختم ہوکر رہ جائے گا،امت محمدی کو اللہ تعالی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کیلئے قربانی کا گوشت حلال کردیاگیا اور اسے کھانے کی اجازت دی گئی ،عید قربان صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کیلئے گنجائش پیدا کریں، 10ذی الحج وہ تاریخی، مبارک اور عظیم الشان قربانی کی یاد کا دن ہے جب حضرت ابراہیمؑ نےاپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو حکم الٰہی کی خاطر قربان کرنے کیلئے ایسا قدم اٹھایا کہ آج بھی اس منشائے خداوندی کی تعمیل پر چشم فلک حیران ہے جب کہ دوسری طرف فرمانبرداری وجانثاری کے پیکر آپ کے فرزندحضرت اسماعیلؑ نے رضا مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کر کے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے امرکرنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود رضا بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئی ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اسی وقت رب تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور حضرت اسماعیل ؑکی جگہ دنبہ بھیج دیا جسے رضائے خداوندی کیلئے ذبح کیا گیا،اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہے تاجدار کائنات محمد مصطفیﷺ نے سنت ابراہیمیؑ یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقویٰ پر زور دیتا ہے قربانی اور تقویٰ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، قربانی کو ریاکاری کیلئے کرنا اور پھر اللہ کے نزدیک قبولیت کی چاہت رکھنا بے معنی ہے، بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل، مسالہ خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً یہ اللہ کے نزدیک زیادہ باعث سعادت ہوگا، قربانی کی مثال بالکل یوں ہے کہ کوئی اپنے سر کے تاج کو اصل بادشاہ کے قدموں پر رکھے اور بادشاہ اس تاج کو اپنے قدموں سے عزت دے کر پھر اس کے سر پر پہنا دے۔افسوس کہ آج کے ماحول میں قربانی سنت ابراہیمیؑ کی بجائے دکھلاوے کی قربانی بن چکی ہے، لوگ ذاتی نمود ونمائش کے لیے قربانی میں ریاکاری کو شامل کرنے لگے ہیں، اپنی دولت کا رعب جمانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اخلاص وتقویٰ سے اپنا دامن خالی کر رہے ہیں، قربانی کا اصل فلسفہ تقویٰ کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے، اگر اسی جذبے سے قربانی کی جائے تو یقینا وہ بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت کی سندپائے گی۔ رواں سال بھی عید الاضحی ایسے موقع پر آ رہی ہے جب پوری دنیا کورونا کے بحران میں مبتلا ہے، اسکے باوجود قربانی کا فریضہ ادا کرنے کیلئے کروڑوں مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں حسب روایت اللہ کے حکم کی پیروی کریں گے ،اللہ تعالی ہماری قربانی کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطافرمائے اور اس کے صدقے امت مسلمہ سمیت پوری دنیا کو کورونا کے موذی مرض سے نجات دلائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں