mazhar-barlas 431

عمر شیخ جیسے لوگ.مظہر بر لاس

عمر شیخ جیسے لوگ
مظہر بر لاس18 ستمبر ، 2020
Facebook Twitter Whatsapp
شہباز شریف اور عمر شیخ اپنے بیانات پر معذرت کر چکے ہیں لہٰذا ان بیانات کی حیثیت ختم ہو چکی ۔ لاہور کے کسی بھی سی سی پی او پر اتنے تبصرے، اتنی باتیں، اتنا شور بپا نہیں ہوا جتنا شور عمر شیخ کی تعیناتی پر ہوا۔

پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا، سوشل میڈیا، صوبائی و قومی ایوان، پارلیمانی کمیٹیاں، وزراء اور اپوزیشن کے لوگوں نے جتنا تذکرہ عمر شیخ کا کیا کسی اور پولیس افسر کا نہ ہو سکا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمر شیخ کون ہے جس کے اتنے چرچے ہیں لوگ اس کے حق میں بھی ہیں اور اس کے خلاف بھی۔

قائین کرام! عمر شیخ، خان پور ضلع رحیم یار خان کا رہنے والا ہے، ٹاٹ کے اسکولوں سے پڑھ کر سی ایس ایس کر گیا، اس کا پولیس گروپ آیا تو اس نے اسی شعبے میں مہارت حاصل کرنے کی ٹھان لی، وہ بلا کا تفتیش کار ہے، اس نے دوران ٹریننگ ایف بی آئی کے ساتھ کام کیا،برطانیہ کی ایم آئی 6کا طریقہ تفتیش سیکھا، سی آئی اے کے ساتھ بھی کام کیا، وہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں افسر تھا، ایک دن نیویارک گیا اور پولیس چیف کے ساتھ پورا دن رہا، دن کے اختتام پر اس نے نیو یارک پولیس چیف سے کہا ’’بابا جی مجھے کوئی نصیحت کریں‘‘ نیویارک پولیس چیف کہنے لگا ’’تم ایک پولیس افسر ہو، میرے نزدیک پولیس کا آئندہ کام آئی ٹی پر مشتمل ہو گا لہٰذا تم ڈیجیٹل فرانزکس میں کورس کرو‘‘ وہ واشنگٹن واپس آیا۔

اس نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں شام کی کلاسوں میں داخلہ لے لیا، اس مقصد کیلئے اس نے دس ہزار ڈالر اپنی جیب سے خرچ کئے، اس کی اہلیہ کہنے لگیں ’’میں تمہاری تنخواہ سے ہر مہینے دو ہزار ڈالر بچاتی ہوں، تم نے پانچ مہینوں کی جمع پونجی اپنے کورس پر لگا دی ہے‘‘ عمر شیخ کا جواب عجیب تھا، کہنے لگا ’’پھر میں نے کہاں امریکہ آنا ہے، سبب سے آیا ہوا ہوں میں یہ کورس اس لئے کر رہا ہوں تاکہ پاکستان جا کر اپنے ملک کی پولیس ٹھیک کر سکوں، اسے جدید ترین طریقوں سے آگاہ کر سکوں، میرے لئے میرا ملک سب کچھ ہے‘‘۔

صاحبو! یہ تھی عمر شیخ کی اہلیت، جسے لوگ سانولا سمجھ کر، پروموٹی افسر سمجھتے ہیں، نہیں ایسا نہیں، اس وقت وہ پوری پاکستانی پولیس میں شاندار افسر ہے، پولیسنگ کے سلسلے میں جتنا دماغ اس کا کام کرتا ہے شاید ہی کسی دوسرے پولیس افسر کا کرتا ہو، اُس نے ڈیجیٹل فرانزکس میں خالی کورسز ہی نہیں کئے بلکہ ان پر مہارت حاصل کی۔

وہ جہاں بھی گیا، اُسے چیلنجزکا سامنا رہا، اس سے سیاستدان اور پولیس والے تنگ رہے، اہل سیاست اس لئے خلاف ہو جاتے ہیں کہ وہ قبضہ گروپوں اور ڈاکوئوں کا جینا حرام کر دیتا ہے، ناجائز کام نہیں ہونے دیتا۔ پولیس والے اس کے اس لئے خلاف ہو جاتے ہیں کہ وہ نیچے والوں کو کھانے نہیں دیتا اور اوپر والوں تک پہنچنے نہیں دیتا۔

اس لئے اس کے ماتحت اور افسران اس کے خلاف رہے، ہاں البتہ وہ جہاں جاتا ہے لوگ سکھی ہو جاتے ہیں، وہ عام لوگوں کو پولیس کے ظلم سے بچاتا ہے، یہی اس کا قصور ہے۔ جب وہ بہاولنگر اور سرگودھا میں ڈی پی او تھا تو اسے سووموٹوکے تحت سپریم کورٹ طلب کیا گیا مگر پھر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کہنا پڑا ’’اوکے مسٹر ڈی این اے، جائو تم بہت اچھا انصاف کرتے ہو، تم باصلاحیت ہو‘‘۔

اپوزیشن عمر شیخ کو ہٹانے کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے اور اس میں فیصل آباد کے ایک ن لیگی ایم این اے کی آواز زیادہ گردش کیوں کر رہی ہے؟ عمر شیخ کی زیادہ سروس سندھ میں تھی، وہ لاڑکانہ، نواب شاہ، جیکب آباد اور جامشورو جیسے اضلاع میں ڈی پی او رہا، 2001ء میں پنجاب آیا تو اس نے کہا کہ ’’میرا کوئی دھڑا نہیں، کوئی سیاسی سفارش نہیں، مجھے آپ ڈی آئی جی طارق کھوسہ کے ساتھ لگا دیں، انہیں پندرہ دن میں سمجھ آ جائے گی کہ مجھے کام آتا ہے‘‘۔ طارق کھوسہ ڈی آئی جی فیصل آباد تھے سو عمر شیخ کو ایڈیشنل ایس پی فیصل آباد لگا دیا گیا۔

چند روز بعد طارق کھوسہ نے کہا کہ ’’اشفاق چاچو ایک اشتہاری ہے جس نے ڈیڑھ سال پہلے دو پولیس والوں سمیت پانچ افراد کو قتل کیا تھا، اس میں ایک پانچ سالہ بچی بھی شامل تھی۔ اس کی گرفتاری چاہئے‘‘ عمر شیخ نے سی آئی اے سے لڑکے منگوائے، پتہ چلا کہ اشفاق چاچو کو فیصل آباد کے ایک ن لیگی ایم این اے کی پشت پناہی حاصل ہے۔

ماتحتوں کے منع کرنے کے باوجود اس نے گرفتاری کا فیصلہ کیا، پتہ چلا کہ اٹھارہ دن بعد جڑانوالہ کے نزدیک اشفاق چاچو کی بہن کی شادی ہے، عمر شیخ نے بینڈ باجے والوں اور دیگیں تیار کرنے والوں میں سادہ لباس میں پولیس والوں کو شامل کیا۔ جب اشفاق چاچو آ گیا تو انسپکٹر نے فون کیا کہ گرفتار کر لیں تو شیخ عمر کا جواب تھا ’’ابھی نہیں، اس کی بہن کی شادی ہے، جب وہ بہن کو رخصت کر لے تو پھر گرفتار کرنا ہے‘‘ ایسا ہی ہوا، جونہی ڈولی رخصت ہوئی تو گرفتاری ہوئی، یہ ایسے ہی تھا جیسے فلم ’’بشیرا‘‘ کا کوئی سین ہو۔

گرفتاری کے بعد اشفاق چاچو نے خدشے کا اظہار کیا کہ آپ مجھے پولیس مقابلے میں مار دیں گے، جواباً عمر شیخ بولا ’’نہیں میرا ریکارڈ ہے میں نے کبھی ماورائے عدالت قتل نہیں کیا، بے فکر ہو جائو، جو ہو گا عدالت میں ہو گا۔‘‘ پھر فیصل آباد میں ڈکیتی کے ملزموں کو چند گھنٹوں میں گرفتار کر کے 52لاکھ برآمد کروانے والا یہ پولیس افسر امریکہ چلا گیا، واپس آیا تو اشفاق چاچو کا فون آیا، عمر شیخ کے لئے حیرت تھی یہ کیسے زندہ ہے، خیر اس نے بتایا کہ مقتولین سے صلح ہو گئی تھی، دو کروڑ ان کی دوست سیاسی شخصیت نے دیئے تھے۔

اب میں انہی کا پولیٹکل سیکرٹری ہوں۔ آپ کی پوسٹنگ کروانا چاہتا ہوں، دو باتوں پر آپ کا شکر گزار ہوں، نمبر ایک آپ نے مجھے میری بہن کو رخصت کرنے دیا، نمبر دو مجھے ماورائے عدالت قتل نہیں کیا۔

یہ ہے عمر شیخ، جو روایات کا خیال بھی کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے آئی جی پنجاب سے درست کہا ’’سی سی پی او کو مکمل سپورٹ کرو‘‘ میری اہل لاہور سے درخواست ہے کہ آپ بھی اس افسر سے تعاون کریں، آپ کا شہر غنڈوں سے پاک ہو جائے گا۔ آپ کے شہر سے نجی ٹارچر سیل ختم ہو جائیں گے، پچھلے دو سال میں لاہور میں 78قبضے ہوئے ہیں، عمر شیخ 31اکتوبر تک ایک ایک ملزم گرفتار کرے گا۔

اس نے سی سی پی او آفس میں قبضہ گروپ سیل بنا دیا ہے۔ عمر شیخ جیسے لوگ نایاب ہیں۔ وہ یکم جنوری 2021ء تک اسمارٹ لاہور پولیس بنا دے گا، باقی وہ اپنے بارے میں خود کہتا ہے کہ ؎

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے

ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکل