mazhar-barlas 85

عمران خان کو شیخ مجیب الرحمٰن نہ بنائیں

عمران خان کو شیخ مجیب الرحمٰن نہ بنائیں
مظہر برلاس
قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں مگر ہم نے کچھ نہیں سیکھا ۔ہماری پرانی ڈگر برقرار ہے اور ہم اسی روش پر چل رہے ہیں۔ ہم ایک مرتبہ پھر نفرتوںکی آبیاری کر رہے ہیں۔ بلبل پاکستان نیرہ نور کی وفات پر ان کی گائی ہوئی فیض صاحب کی نظم کسی نے بھیجی، یہ نظم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے تھی پھر نصیر ترابی کا کلام یاد آیا ،کیا خوبصورت انداز میں انہوں نے جدائی کا دکھ بیان کیا۔ اسی طرح ناصر کاظمی کی غزل یاد آگئی کہ انہوں نے بھی درد کو لفظوں میں سمو دیا تھا ۔جس دن مشرقی پاکستان الگ ہوا تھا اس روز پاکستانی بہت روئے تھے، پورا ملک سوگوار تھا ،کچھ لوگ تو جاں سے گزر گئے ۔ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس کے والد بزرگوار نے جونہی بی بی سی پر یہ دکھ بھری خبر سنی تو انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ اسی لمحے وطن کی محبت میں زندگی کی بازی ہار گئے ۔

یاد رہے کہ ہم نے پچیس سال مشرقی پاکستان میں نفرت کے بیج بوئے، ہم نے ڈھاکہ کی گلیوں میں قیام پاکستان کیلئے مہم چلانے والے شیخ مجیب الرحمن کو غدار بنا دیا، ہم نے قیام پاکستان کی کوششوں میں نمایاں کردار ادا کرنے والے حسین شہید سہروردی اور مولانا بھاشانی کو بھی غداری کے سرٹیفکیٹ دیئے اور تو اور ہم نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بھی نہ بخشا،انہیں بھی غدار بنا دیا ۔ہمارے ہاں خبریں شائع ہوئیں کہ ’’فاطمہ جناحؒ پانی کا بل جمع کروائیں ورنہ گرفتاری اور جرمانے کیلئے تیار ہو جائیں ‘‘فاطمہ جناحؒ کے خلاف اسی طرح کے کئی جعلی حربے استعمال کئے گئے جب یہ باقی سیاست دان ایک آمر کے تلوے چاٹ رہے تھے تو غدار مجیب الرحمن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کا مقبول ترین لیڈر تھا ۔1970ء کے الیکشن میں اس کے پاس 162 سیٹیں تھیں مگر پاکستان کا ایک سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل گیا حالانکہ اس کے پاس 81 نشستیں تھیں لیکن اقتدار کے لالچ نے آدھا ملک گنوا دیا۔

صاحبو! ہم سوچتے نہیں، اپنی روش نہیں بدلتے ۔آج کے پاکستان میں عمران خان مقبول ترین لیڈر ہے، اتوار کے دن کراچی کے ضمنی الیکشن میں اس کے امیدوار محمود مولوی نے حکومتی اتحاد کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا، عمران خان کے امیدوار کے مقابلے میں پندرہ جماعتوں کا مشترکہ امیدوار تھا مگر اس نے آدھے سے بھی کم ووٹ لئے ۔یوں ایم کیو ایم، جے یو آئی، اے این پی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی مقبولیت بے نقاب ہوگئی ۔ اب تو حالت یہ ہے کہ تحریک انصاف ہر جگہ ان کو شکست دے رہی ہے ۔پی ڈی ایم کے ساتھ تو انتظامیہ بھی ہے ،سارے حربے بھی استعمال کئے جاتے ہیں مگر پھر بھی خان ان سے نہیں ہارتا ۔پی ڈی ایم کی پوری قیادت خوف میں مبتلا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں کیا کرے گی ؟ اسی لئے وہ کبھی ایک طرف سے عمران خان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی دوسری طرف سے ۔پوری حکومت، اس میں شامل سب جماعتیں، عمران خان کے خلاف مہم چلاتی ہیں مگر اس کے باوجود عمران خان کی مقبولیت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔ اس کے جلسوں نے پندرہ جماعتوں کو پریشان کر رکھا ہے ۔پہلے 25مئی کو عام پاکستانیوں کو مارنے کی کوشش کی گئی مگر عمران خان نے تصادم کا یہ خطرہ ٹالا پھر جب اس نے اسلام آباد میں جلسے کا اعلان کیا تو کہیں سے ٹی ایل پی برآمد ہو گئی ،اس نے تصادم کے خطرے کو پھر ٹالا اور جلسہ لاہور منتقل کر دیا اب اس کے ساتھیوں پر مقدمات کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے اس کے حق میں بولنے والوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے ۔ اس کے باوجود لوگ بے خوف وخطر اس کے قافلے کا حصہ بن جاتے ہیں ۔

آخری وار کے طور پر اس کی تقریروں کوبراہ راست دکھانے پر پابندی لگا دی گئی ہے ،امید ہے کورٹ اسے ختم کر دے گی جب اس پابندی سے بھی جی نہ بھرا تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی پھر گرفتاری کا فیصلہ کر لیا گیا ،جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس سے متعلق بتاتا چلوں کہ اس سے زیادہ سخت باتیں خود وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے چیف سیکرٹری اور کمشنر کو دھمکیاں دی تھیں بلکہ ججوں سے متعلق کہا تھا کہ ’’ہم ججوں کا گھیرائو کریں گے‘‘ ان کے لیڈر نے کہا تھا ’’ججوں کے دل بغض سے بھرے ہوئے ہیں ‘‘ اس کے علاوہ ان کی پارٹی کے مختلف رہنما عدالتوں اور پاک افواج سے متعلق کیا کچھ نہیں کہتے رہے ۔1977ء میں تو سپریم کورٹ پر حملہ ہی ہو گیا تھا ۔اب تمام تر کارروائیاں عمران خان کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہیں ، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں سیاسی میدان میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں اور اب تو گریزاں بھی ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے مخالفین کو سیاسی بونے بنا کر رکھ دیا ہے، اب کبھی کہا جاتا ہے عمران خان کی جان کو خطرہ ہے تو کبھی کچھ اور کہا جاتا ہے ۔صورتحال بہت گمبھیر ہے ،ایک گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس نازک صورتحال میں باغبانوں سے گزارش ہے کہ باغ کو اجڑنے سے بچائیں ،عمران خان کو شیخ مجیب الرحمن بنائے جانے سے بچائیں ویسے بھی جمہوریت میں اکثریت کی رائے کا احترام لازم ہے اور اس وقت اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے سوچئے کہ یہ فکر کے لمحات ہیں ہم کدھر جا رہے ہیں ؟ بقول اسلم گورداسپوری

کس قدر بے دست و پا ہے جس کو کہتے ہیں حیات
کتنے بے مقصد ہماری زندگی کے باب ہیں

وہ کسی صورت بھی اسلم پورے ہو سکتے نہیں
جس حماقت کے ہمارے راہبروں کے خواب ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں