179

عمران خان کا روس کا دورہ: پاکستان کو اس دورے سے کیا حاصل ہو سکتا ہے؟

وزیراعظم عمران خان روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے دعوت پر 23 اور 24 فروری کو ماسکو کا دو روزہ دورہ کریں گے جو گذشتہ 23 برسوں میں کسی پاکستان رہنما کا روس کا پہلا دورہ ہے۔ موجودہ عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں ماہرین اس دورے کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کا دورہ ماسکو ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب مغربی ممالک اور روس کے درمیان یوکرین کے معاملے پر کشیدگی بظاہر بلند ترین سطح پر ہے اور پیر کی شب روس کے مشرقی یوکرین میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو بطور آزاد ریاستیں تسلیم کرنے کے فیصلے کے اعلان کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ اعلیٰ سطحی وفد میں کابینہ کے اراکین بھی شامل ہوں گے۔ خیال رہے کہ یوکرین تنازع سے قبل دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے دوران روس کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو اس دورے پر مدعو کیا گیا تھا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’دورے کے دوران دونوں رہنما دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیں گے اور توانائی کے منصوبوں میں تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ خطے اور بین الاقوامی مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا جن میں اسلاموفوبیا اور افغانستان کی صورتحال شامل ہے۔
وزیراعظم اس دورے کے دوران ماسکو میں مسجد کا دورہ بھی کریں گے۔ بظاہر وزیراعظم عمران خان کے دورے میں معیشت اور تجارت ایجنڈے پر حاوی ہوں گے لیکن ماہرین کے خیال میں اس دورے کے سیاسی پیغام کی گونج زیادہ ہو گی۔
پاکستان سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد سے امریکی کیمپ میں رہا ہے اور اس لحاظ سے وزیراعظم عمران خان کے اس دورے کو اس تاریخی سمت میں تبدیلی کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ اس جانب بھی ایک اشارہ ہے کہ پاکستان اب کسی ایک ملک سے جڑنے کی بجائے کثیر ملکی پالیسی میں دلچسپی رکھتا ہے۔
خاص طور پر اپنے خطے کی بڑی طاقتوں سے اس امید پر تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ تجارت اور توانائی کی راہداری کے طور پر اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی معیشت میں بہتری لا سکے۔
خطے کی نازک صورتحال اور دورہ روس
تاہم وزیرِ اعظم عمران خان کا دورہ ماسکو ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے جب مغربی ممالک اور روس کے درمیان یوکرین کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے یہ اشارہ بھی جا سکتا ہے کہ پاکستان امریکہ مخالف اور مغرب مخالف اتحاد کا حصہ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے یوکرین کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور اس دورے کے باعث پاکستان اور یوکرین کے تعلقات کو بھی دھچکا پہنچ سکتا ہے۔
اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز سے منسلک روسی امور کے ماہر تیمور خان کا ماننا ہے کہ پاکستان نے اس دورے کے اعلان سے قبل ضرور اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن پھر بھی یہ دورہ خاصے نازک وقت میں کیا جا رہا ہے جب روس کی تمام تر توجہ اور وسائل یوکرین تنازع پر مرکوز ہیں، یہ اس دورے کے لیے کوئی بہترین وقت تو نہیں ہے اور اس کے باعث پاکستان کو جتنی میڈیا کی توجہ کی توقع ہے وہ اسے نہیں مل پائے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حالانکہ یہ دورہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں تنوع لانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ کسی ایک کیمپ کی حمایت نہیں کرنا چاہتا، جیسے ماضی میں دیکھنے میں آیا ہے، اس دورے کی ٹائمنگ ایسی ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر غلط اشارے بھی جا سکتے ہیں۔
تجارتی تعلقات
تیمور خان نے وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ روس کے پس منظر میں تجارت و توانائی کی شعبوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم کے دورہ روس کے دوران پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے سے متعلق معاہدے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔‘
کراچی سے قصور تک 1100 کلومیٹر طویل پائپ لائن کا پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے میں جو پہلے نارتھ ساؤتھ پائپ لائن کے نام سے جانا جاتا تھا، سالانہ 12.4 ارب کیوبک میٹر گیس منتقل کرنے کی صلاحیت ہے۔
اس معاہدے پر پہلی بار سنہ 2015 میں دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت روس اس پراجیکٹ کو تعمیر اور 25 برس تک آپریٹ کرے گا اور اس کے بعد اسے پاکستان کے حوالے کرے گا۔
تاہم عمران خان کی حکومت میں اس معاہدے پر ازسر نو بات چیت کی گئی۔ اب اس منصوبے کا نام بدل کر ’پاکستان سٹریم‘ پائپ لائن کر دیا گیا ہے اور اس کی پارٹنر شپ سٹرکچر کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ یہ منصوبہ روسی کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کی صورت میں متاثر نہ ہو۔
اس منصوبے میں پاکستان کا حصہ 74 فیصد ہو گا اور منصوبے پر کل 2.3 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق روس کے ایک وفد نے حال ہی میں ٹیکسوں میں رعایت کے حوالے سے پاکستان سے بات چیت کی ہے۔
پاکستان کو توانائی کی کمی کا سامنا ہے اور خصوصاً موسم سرما میں ملک بھر میں گیس کی کمی ہو جاتی ہے۔ ایسے میں پاکستان سٹریم منصوبے سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
جہاں تک روس کا تعلق ہے تو ماہرین سمجھتے ہیں کہ روس کو اس معاہدے سے فوری طور پر یا براہ راست کوئی بڑا منافع نہیں ہو گا۔ ماہرین کے مطابق روس کی اس منصوبے میں شمولیت کمرشل سے زیادہ سٹریٹیجک معلوم ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس کے دوران ہوا بازی، کسٹمز اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں تعاون کی یادداشتوں کے معاہدے ہونے کی امید ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن دونوں ملکوں نے چھوٹے چھوٹے اقدام اٹھائے ہیں جن کی حیثیت علامتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دونوں جانب سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے لیکن معاشی تعاون کے حوالے سے کچھ حاصل نہیں کیا گیا۔‘
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے مطابق ’پاکستان اور روس کے مابین تعاون کبھی اس درجے کا نہیں ہو گا جو پاکستان کا امریکہ اور چین کے ساتھ ہے لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم کا روس کا دورہ تعلقات میں بہتری کے عمل کو شروع کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دورے کی سیاسی اور سکیورٹی وجوہات
جہاں پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ روس سے بہتر معاشی شراکت داری قائم کرے، ماسکو کی دلچسپی اسلام آباد سے سکیورٹی تعلقات قائم کرنے میں ہے۔
روسی امور کے ماہر تیمور خان کے مطابق جب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے سنہ 2014 میں پاکستان پر عائد یکطرفہ پابندیوں کو ختم کیا تو اس سے دونوں ملکوں کو قریب آنے میں مدد ملی۔
ماضی کے حریفوں نے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد روس نے چار روسی ساختہ ایم ائی 35 ایم جنگی ہیلی کاپٹر پاکستان کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا۔
اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور نیٹو کی افغانستان سے روانگی کے بعد دونوں ملک مزید قریب آئے ہیں۔
تیمور خان سمجھتے ہیں کہ ’افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پاکستان اور روس یکساں خیالات رکھتے ہیں، وہ چاہتے تھے کہ غیر ملکی افواج کو افغانستان سے چلے جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی سرزمین پر دہشتگرد گروہوں کی موجودگی دونوں ملکوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔
’دونوں ملک افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ کے حوالے سے بھی ایک صفحے پر ہیں۔ پاکستان اور روس افغانستان انٹرا ڈائیلاگ کے بارے میں بھی یکساں مؤقف رکھتے ہیں اور وہ دونوں ملک ٹرائیکا، کواڈ گروپ، ماسکو فارمیٹ اور افغانستان پر استنبول پراسیس کے بھی حامی ہیں۔‘
تجزیہ کار تیمور خان کے مطابق چین اور روس کے مابین تعلقات میں بہتری بھی پاکستان اور روس کو قریب لانے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔
پاکستان روس تعلقات، کب کیا ہوا؟
پاکستان اور روس (سابق سوویت یونین) نے یکم مئی 1948 سفارتی تعلقات قائم کیے۔ پاکستان نے جلد ہی امریکی فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی جو سرد جنگ کے خاتمہ تک قائم رہی
سوویت یونین نے عالمی فورمز پر کشمیر سمیت ہر معاملے پر پاکستان کے مفادات کے خلاف ووٹ دیا
80 کی دہائی میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی تو پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے جنگ میں حصہ لیا
افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد جب امریکہ نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں تو پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں
جب سنہ 1996 میں چین کی قیادت میں شنگھائی تعاون تنظیم سامنے آئی تو پاکستان نے چین اور روس کے قریب آنے کے لیے اسے ایک موقع تصور کیا
سنہ 1999 میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ماسکو کا دورہ کیا
امریکہ کی انڈو پیسیفک حکمت عملی سامنے آنے کے بعد 2010 سے پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری کے واضح آثار سامنے آئے ہیں
سنہ 2010 میں روس، پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کے سربراہی اجلاس کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ نے پہلی بار ماسکو کا دورہ کیا
سنہ 2010 میں پاکستان اور روس کے مابین تجارت معیشت، سائنسی اور ٹیکنیکل تعاون کا معاہدہ (آئی جی سی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔
سنہ 2014 میں دونوں ملکوں نے دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے
اس معاہدے کے تحت روس نے پاکستان پر سے یکطرفہ پابندیاں ختم کر دیں اور پاکستان نے چار روسی ساختہ ایم آئی 35ایم ہیلی کاپٹروں کا سودا طے پایا
سنہ 2015 میں روس نے کراچی سے لاہور تک نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے پر دستخط کیے
ستمبر سنہ 2016 میں دونوں ملکوں نے پہلی بار خیبر پختونخوا میں مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا
جون سنہ 2017 میں پاکستان کے وزیر اعظم اور روسی صدر کی ملاقات ہوئی۔ اُسی برس نومبر میں ایک بار پاکستانی وزیر اعظم کی روسی صدر سے سوچی میں ملاقات ہوئی
سنہ 2018 میں پاکستان اور روس کی ملٹری مشاورتی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے بعد پہلی بار پاکستانی فوج کے افسران کی روس میں تربیت کی راہیں کھلیں
سنہ 2019 میں روس نے انٹرنیشنل ڈیفنس ایگزیبشن اینڈ سیمینار (آئیڈیا) میں شرکت کی۔ روس نے کثیر الملکی نیوی مشقوں میں حصہ لیا
سنہ 2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے کرغستان میں ایس ای او میٹنگ کے دوران روسی صدر سے غیر رسمی بات چیت کی
سنہ 2021 میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے پاکستان کا دورہ کیا۔ روسی وزیر خارجہ نے اس دورے میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آف چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں
سنہ 2021 میں پاکستان اور روس پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن (سابقہ نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن) پر دستخط کیے۔ کراچی سے قصور تک 1100 کلو میٹر لمبی پائپ لائن بی او ٹی بینادوں پر بچھائی جا رہی ہے
سنہ 2021 میں روس پاکستان فوجی مشاورت کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد ہوا جس کے بعد پاکستان کی سپیشل فورسز کے دستوں نے انسداد دہشتگردی مشق، دروزبھا ششم میں حصہ لیا
گذشہ کئی مہینوں میں پاکستان اور روس کے رہنماؤں کے مابین کئی رابطے ہوئے۔ جنوری سنہ 2022 میں وزیر اعظم عمران خان نے صدر ولادیمیر پوتن سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے صدر پوتن کے موقف کو سراہا
بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے بعد چین اور روس کی جانب سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی جس نئی جہت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اگر وہ ایسے ہی آگے بڑھے تو عالمی سیاست کی ایک نئی شکل ابھر کر سامنے آئے گی۔
تیمور خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان روس اور چین کے مابین ایک پُل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
سنہ 2018 میں پاکستان اور روس کے مابین مشترکہ فوجی مشاورتی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت پہلی بار پاکستان کے فوجی افسران کی روس میں فوجی تربیت کے دروازے کھلے تھے۔
دونوں ملکوں نے انسداد دہشتگردی کی حوالے سے کئی مشترکہ مشقیں کی ہیں جن میں پاکستانی فوج کے سپیشل سروسز گروپ نے حصہ لیا ہے۔
روس کی بیرونی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ نے چند ماہ پہلے خطے کے ممالک کے انٹیلیجنس سربراہان کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
اب جب امریکہ کی جانب سے پاکستان کی امداد میں کمی ہو رہی ہے تو ماہرین سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان روس سے اسلحہ خرید سکتا ہے جو امریکہ کے مقابلے میں سستا اور معیار میں چینی اسلحے سے بہتر ہے۔
صدر پوتن کے اسلاموفوبیا کے حوالے سے بیان کو پاکستان میں بہت پسند کیا گیا۔ صدر پوتن نے دسمبر میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیغمبر اسلام کی توہین ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور اسلام کے پیروکاروں کے مقدس احساسات کی خلاف ورزی ہے۔‘
وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹر پیغام میں صدر پوتن کے پیغام کا خیرمقدم کیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر پوتن کے بیان کو پاکستان میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا جس کی وجہ سے وقتی طور پر دونوں ملکوں میں خیر سگالی کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔
انڈین عنصر
روسی امور کے ماہر تیمور خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے مابین قربتیں بڑھنے سے روس اور انڈیا کے خصوصی تعلقات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تیمور خان کہتے ہیں کہ ’انڈیا دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ ہے اور ہر ملک انڈیا کی مارکیٹ میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری سے روس اور انڈیا کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور روس انڈیا کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھے گا اور وہ پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرے گا جس سے اس کے انڈیا سے تعلقات خراب ہوں۔‘
تیمور خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کا روس اور انڈیا کے تعلقات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ملکوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم آٹھ ارب ڈالر ہے جبکہ پاکستان اور روس کی تجارت صرف 150 ملین ڈالر ہے جو انڈیا کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔
انڈیا اور روس نے سنہ 2030 تک باہمی تجارت کو 30 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عہد کیا ہے۔ گذشتہ برس صدر پوتن کے انڈیا کے دورے کے دوران 28 معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں انڈین فوج کے لیے چھ لاکھ بندوقوں کی تیاری کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
گذشہ برس انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ انڈیا اگلے سات آٹھ برسوں میں اپنی سکیورٹی کے نظام کو جدید بنانے پر 130 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تیمور خان سمجھتے ہیں کہ چونکہ روس انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لہٰذا روس انڈیا کی جانب سے اپنے سکیورٹی نظام میں جدت کے پروگرام میں سب سے بڑا سٹیک ہولڈر ہو گا۔
تیمور خان سمجھتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ روس نے انڈیا کو یقین دہانی کرائی ہو کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی انڈیا کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہو گی۔
تاہم اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کے ماسکو کے دورے کے موقع پر انڈیا کی جانب سے روس پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے کچھ بیان بازی ہو سکتی ہے۔
عالمی تناظر
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر روس انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو اتنی ترجیح دیتا ہے تو وہ انڈیا کے حریف پاکستان کے قریب ہونے کا خطرہ کیوں مول لے رہا ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’روس عملیت پسندی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور روس اپنے لیے نئے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ انڈیا نے سنہ 2000 میں امریکہ اور یورپ سے تعلقات کے امکانات کا جائزہ لینا شروع کیا تھا۔
’روس بھی وہی کچھ کر رہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی اور معاشی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی شراکت داریاں تلاش کر رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’خطے اور عالمی سیاست کے محرکات بدل رہے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس کو معاشی مسائل کا سامنا تھا لیکن اب وہ ایک بار پھر ایک عالمی طاقت کے طور پر سامنے آنے کے لیے تیار ہے۔
جب انڈیا اور امریکہ ایشیا پیسیفک میں چین کے اثر و رسوخ کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اتحادی بن چکے ہیں تو روس پاکستان کی طرف تھوڑے سے جھکاؤ کو جائز تصور کرتا ہے۔‘
ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو امید تھی کہ بائیڈن انتظامیہ اپنے پرانے اتحادی پاکستان کے ساتھ وہ رویہ روا نہیں رکھے گی جو اس کے پیش رو انتظامیہ نے روا رکھا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔
’پاکستان کو احساس ہو چکا ہے کہ وہ کسی ایک بلاک کا حصہ نہیں رہ سکتا اور اسے خطے میں اپنی خارجہ پالیسی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اب بھی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے جو بہت پرانے اور گہرے ہیں لیکن وہ ‘تمام انڈوں کو ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنا چاہتا۔‘
ان کے مطابق پاکستان نے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے اور اب پاکستان روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے امکانات کو دیکھنا چاہتا ہے۔
ڈاکٹر حسن رضوی سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں تناؤ اور بداعتمادی نے ایک ایسا خلا پیدا کیا جسے بیجنگ نے پُر کیا ہے اور اب روس بھی اس خلا کو پُر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
’پاکستان اور روس نے اعتماد سازی کے لیے کچھ چھوٹے اقدامات کیے ہیں لیکن اس کے علاوہ ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم خان کا ماسکو کا دورہ بہت اہم ہے جس سے بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں