mazhar-barlas articles 452

عمران خان عالمی رہنماؤں میں آگے. مظہر برلاس

عمران خان عالمی رہنماؤں میں آگے
مظہر برلاس
بھارتی الزامات کا مدلل جواب دینے والی صائمہ سلیم اِس لئے بھی اہم نظر آئیں کہ یہ خاتون بینائی سے محروم ہیں۔ جنیوا کے پاکستانی مشن میں سیکنڈ سیکرٹری کے طور پر کام کرنے والی باہمت صائمہ سلیم نے سب کو حیران کر دیا۔ خدا نے ان کے پورے خاندان کو ہمت سے نوازا ہے۔

صائمہ سلیم کے نابینا بھائی یوسف سلیم بطور جج خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی ایک نابینا بہن لاہور یونیورسٹی میں بطور استاد کام کر رہی ہیں۔ قصہ مختصر ، کسی ترقی پذیر ملک سے ایک باہمت خاتون کی سفارت کاری حیران کن بھی ہے اور کمال بھی۔

جس دیس کی یہ خاتون ہیں اس کے سربراہ عمران خان نے بھی دنیا کو حیران کر رکھا ہے، مسلسل تیسرا سال ہے وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے عالمی رہنمائوں میں سب سے آگے ہیں، اس برس بھی عمران خان کی تقریر ہی کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریروں میں اول قرار دیا جا رہا ہے، ان کی تقریر کے مختلف پہلوئوں پر دنیا بھر میں بحث ہو رہی ہے۔

عمران خان اس وقت نہ صرف مسلم دنیا کے مقبول ترین لیڈر ہیں بلکہ پورا تھرڈ ورلڈ ان پر نازاں ہے، دنیا بھر کے مظلوموں کے مقدمات کے اس وقت سب سے بڑے وکیل عمران خان ہیں، مظلوموں کی وکالت کے باعث وہ دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہوئے ہیں۔

انہوں نے مظلوموں کی دعائیں بھی سمیٹی ہیں، مغربی دنیا میں بھی جو، لوگ حق بات کرتے ہیں، عمران خان کے موقف کی تائید کر رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان دنیا کو درپیش مسائل کی درست نشاندہی کر رہے ہیں اگرچہ انہیں اپنے ملک میں مافیاز کے علاوہ مہنگائی جیسے جن کا بھی سامنا ہے مگر وہ پھر بھی دنیا کے لئے اہم ترین رہنما بن چکے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق موجودہ سیشن میں کئی عالمی رہنمائوں نے خطاب کیا تاہم جس رہنما کا خطاب سب سے زیادہ دیکھا اور سنا گیا اس کا نام عمران خان ہے۔ سوا ارب آبادی کے حامل ملک انڈیا کے وزیراعظم دوسرے نمبر پر ہیں حالانکہ بھارت کی آبادی آئی ٹی سے جڑی ہوئی ہے، امریکی صدر تیسرے، چینی صدر چوتھے، برطانوی وزیراعظم پانچویں اور ایرانی سربراہ چھٹے نمبر پر ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان دنیا کو درپیش چیلنجز کا کس قدر ادراک رکھتے ہیں، اس حقیقت کا اعتراف برطانوی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کیا۔ عمران خان کے خطاب سے ایک دن پہلے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں عمران خان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے دنیا سے کہا کہ وہ ماحولیات سے متعلق عمران خان سے رہنمائی حاصل کرے۔ عمران خان نے اپنے ملک میں دس ارب درخت لگانے کے منصوبے کا آغاز کرکے پوری دنیا کو بتایا ہے کہ کس طرح ماحول کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

دنیا کی نگاہیں عمران خان پر لگی ہوئی تھیں کہ طاقتور حکمرانوں کو آنکھیں دکھانے والا حکمران آخر کیا کہتا ہے، دنیا کو کس طرح لاجواب کرتا ہے؟ ویسے تو طاقتور ترین ملکوں میں فیصلے کرنے والے لوگ عمران خان کے خیالات سے بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ وہ اکثر و بیشتر مغربی اخبارات میں مضامین لکھتے رہتے ہیں، غیر ملکی میڈیا کو سب سے زیادہ انٹرویوز دینے والے واحد پاکستانی وزیراعظم کو دنیا سننے کی منتظر رہتی ہے۔

انتظار کرنے والوں میں دوست اور دشمن دونوں ہی شامل ہیں، اسی لئے دنیا کو شدت سے انتظار تھا کہ عمران خان اس مرتبہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کسے ہدف تنقید بناتا ہے، کسے راستہ دکھاتا ہے اور کس کی آنکھیں کھولتا ہے؟

عام طور پر پاکستان کے وزرائے اعظم ایسے مواقع پر اپنا قومی لباس نہیں پہنتے تھے۔ کوئی سوٹ میں پھنسا ہوتا تھا تو کسی کو سوٹ پھنسا لیتا تھا، عمران خان بہت مختلف نکلا۔

سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس یہ شخص دنیا کے معتبر اور مدبر ترین رہنما کے طور پر سامنے آیا۔ اس نے کورونا جیسی وباسے بات شروع کی اور پھر مختلف حوالوں سے دنیا کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔

انہوں نے افغانستان میں پیدا ہونے والی آئندہ صورتحال سے پوری دنیا کو آگاہ کیا، وہاں پیدا ہونے والے انسانی بحران سے متعلق بتایا، تمام ملکوں سے کہا کہ وہ افغانستان میں استحکام کیلئے ایک ہو جائیں، خاص طور پر امریکہ اور چین پر زور دیا اور ساتھ ہی متنبہ کیا کہ اگر دنیا افغانستان میں استحکام نہ لا سکی تو پھر سے افغانستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے پاکستان کے جانی اور مالی نقصان کا تذکرہ کیا اور افغانستان کی وجہ سے پاکستان کے برس ہا برس سے متاثر ہونے کی بات چھیڑی۔ اس حوالے سے انہوں نے امریکہ کے دوہرے کردار کو خوب اجاگر کیا، ساتھ ہی 480ڈرون حملوں کا تذکرہ بھی کر ڈالا۔

انہوں نے برملا کہا کہ ہمارے زیادہ نقصان اٹھانے کی واحد وجہ یہ تھی کہ ہم امریکی اتحادی تھے۔ عمران خان نے اپنے چوبیس منٹ کے خطاب میں سات منٹ بھارت کو خوب لتاڑا۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور ہندوستان میں اقلیتوں کے احوال سے دنیا کو آگاہ کیا، سید علی گیلانی کی میت کے ساتھ ہونے والے سلوک کا خاص طور پر ذکر کیا۔

انسانی حقوق سے متعلق دنیا کے دہرے نظام کو آڑے ہاتھوں لیا اور دنیا کو بتایا کہ اگر بھارت ہم سے مذاکرات چاہتا ہے تو یہ شرائط پوری کرکے آئے، عمران خان نے اسلاموفوبیا میں اضافے کو روکنے کے لئے عالمی مکالمے کی ضرورت پر زور دیا۔

غریب ملکوں میں ہونے والی لوٹ مار، اس سے ہونے والے نقصان اور ترقی یافتہ ملکوں کو ایسی دولت رکھنے کے نقصانات سے آگاہ کیا۔انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی بات کی۔جس طرح عمران خان نے دنیا کے ضمیر کو جگانے کی کوشش کی اس پر مجھے طاہر حنفی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ

افلاک سے کوئی تو صدا دے کے پوچھتا

کیسی گزر رہی ہے سنا، یرغمالِ خاک

اپنا تبصرہ بھیجیں