632

عراق ملین مارچ کا واحد مطالبہ امریکا دفع ہوجاؤ تحریر: محمد سلمان مہدی

عراق ملین مارچ کا واحد مطالبہ امریکا دفع ہوجاؤ
تحریر: محمد سلمان مہدی ​​
امریکا دفع ہو جاؤ کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ ملت عراق نے فیصلہ سنا دیا۔ یہ ریلی نہیں بلکہ ریلا تھا, جو کل پورے عراق میں امریکی سامراجیت کے رعب و دبدبے کو بہا کر لے گیا۔ عراق کے عوام نے مادر وطن کے غیرت مند بیٹے ابو مھدی مھندس اور ان کے محسن دوست حاج قاسم سلیمانی سمیت شہدائے بغداد کے قتل کے سخت انتقام کی راہ پر سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ صدی کا احتجاج تھا۔ یہ عراق کی تاریخ میں اب تک کئے گئے سارے احتجاج کی ماں تھا۔ یہ ایک ریفرنڈم تھا اور اس کا پیغام پوری دنیا کے لئے واضح ہے۔ دنیا عربی و فارسی کب سمجھتی ہے۔ اس لئے عراقیوں نے انگریزی میں لکھا اور کہا گیٹ آؤٹ امریکا (Get out America) اردو میں سمجھنے کے لئے اس کا آسان ترجمہ یا مفہوم ہے: دفع ہو جاؤ امریکا۔

کیا امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو عراقیوں کے اس ریفرنڈم کا فیصلہ سن چکے۔ عراق میں ولن امریکا اور اس کے اتحادی ہی ہیں۔ حاج قاسم سلیمانی اور ابو مھدی مھندس کو عراقی عوام نے ہیرو کی حیثیت سے خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔ یہ شہدائے بغداد کے سخت انتقام کے سلسلے میں عراقی عوام کا تھپڑ ہے، جس کی گونج امریکی ایوانوں کو لرزا رہی ہے، مگر ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ جو نہیں جانتے وہ جان لیں۔ تاریخ کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں۔ عراق ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے عالمی سامراج کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔ پہلے برطانوی سامراج یہی کچھ کیا کرتا تھا، جو اب امریکی سامراج کر رہا ہے۔ تب بھی عراقی قوم سامراجی تسلط سے آزادی کی دفاعی جنگ لڑا کرتے تھے۔ اب بھی لڑ رہے ہیں۔

برطانیہ سامراج کا قبضہ 1920ء میں تھا۔ 2020ء میں امریکا سامراج سامراج کا قبضہ ہے۔ یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی عراق پر جنگ، قبضے اور مسلسل مداخلت نے عراق کو سوائے مشکلات و مسائل کے کچھ نہیں دیا۔ امریکا کا عراق پر دباؤ ہے کہ ایران، چین اور ہر وہ ملک جس سے امریکا خفا ہے، عراق اس سے تعلقات ختم کر دے۔ امریکی حکومت نے غیر قانونی طور پر عراق میں فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ عراقی قوم کی جائز شکایت ہے کہ امریکا ان کی آزادی و خود مختاری میں مسلسل مداخلت کر رہا ہے۔ عراقی پارلیمنٹ اور حکومت پہلے ہی امریکا کو وقتاً فوقتاً متنبہ کرتی رہی ہے، مگر امریکا نے دھمکیاں دے کر ان کی مخالفت کو دبانے کی کوشش کی۔

عراق کے قانونی عوامی رضاکار لشکر حشد الشعبی کے کمانڈر ابو مھدی مھندس اور عراق کے ریاستی سرکاری مہمان ایران کے برگیڈیئر جنرل حاج قاسم سلیمانی کو امریکا نے غیر قانونی فضائی میزائل حملوں میں شہید کر ڈالا۔ اس امریکی جارحیت نے عراق کے عوام کو فوری اور شدید ترین ردعمل پر مجبور کر دیا۔ یہ شہدائے بغداد کے خون کا اثر ہے کہ عراقی عوام کا اوقیانوس 24 جنوری 2020ء کو موجزن دکھائی دیا۔ ملت عراق کو نہ صرف مادر وطن کے غیرت مند بیٹے ابو مھدی مھندس بلکہ عراقیوں کے محسن قاسم سلیمانی سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے شہدائے بغداد کا ریاستی سطح پر جنازہ (state funeral) منعقد کرکے امریکا کو ذلیل و خوار و رسوا کر دیا۔ اس کے بعد عراق بھر میں جلوس جنازہ میں ملت عراق کی بھرپور شرکت نے بتا دیا کہ عراق کی جمہوریت کے نمائندے وہ ہیں۔ یعنی عراقی عوام نے امریکا کی قانون دشمنی اور جمہوریت دشمنی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ اس کے بعد عراقی عوام کی خواہش کی تعمیل کرتے ہوئے حکمرانوں نے اور پارلیمنٹ نے امریکا سے فوری طور مکمل فوجی انخلاء کا مطالبہ کر دیا۔ جو قانونی، جمہوری، اخلاقی اور ہر لحاظ سے عراقیوں کا جائز مطالبہ ہے۔

امریکی حکومت اور خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عراق کے اس قانونی مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس طرح دنیا کے سامنے ایک اور مرتبہ یہ حقیقت بے نقاب ہوئی کہ عراق کی آزادی و خود مختاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود امریکا ہی ہے۔ عراق میں امریکا قانونی کی حکمرانی کا بھی دشمن ہے تو جمہوریت کا بھی دشمن ہے۔ عراق کا قانون اور عراق کے عوام کا متفقہ مطالبہ ہے کہ امریکا مکمل فوجی انخلاء کرے۔ مگر امریکا بدمعاشی کر رہا ہے۔ یہی وجہ بنی کہ مقتدیٰ الصدر نے ملین مارچ کی کال دی اور جمعہ 24 جنوری 2020ء عراق کی تاریخ کا یادگار دن بن گیا۔ عراق نے فیصلہ سنا دیا۔ ولن امریکا اور اس کے اتحادی ہیں۔ ہیرو حاج قاسم سلیمانی اور ابو مھدی مھندس ہیں۔ یہ شہدائے بغداد کے سخت انتقام کے سلسلے میں عراقی عوام کا تھپڑ ہے۔

دارالحکومت بغداد میں پچیس لاکھ سے زائد عراقی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ پورے عراق میں عوامی احتجاج کے ریلے۔ پوری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ عراقی قوم امریکا کی فوجی موجودگی اور مداخلت سے نفرت کرتی ہے۔ البتہ عراق کے اس عظیم الشان عوامی ریفرنڈم کا بلیک آؤٹ کرکے امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ کا دہرا معیار بھی بے نقاب ہوگیا۔ یہ ثابت ہوگیا کہ امریکا اور برطانیہ کے ذرائع ابلاغ کارپوریٹو کریسی کے مفادات کے مطیع اور تابعدار ہیں۔ البتہ متبادل ذرائع ابلاغ نے عراقی قوم کے اس شاندار اور بے مثال اجتماع کی بھرپور کوریج کرکے اس حقیقت کو دنیا سے چھپانے کی سازش ناکام بنا دی۔ عراق نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اب بال امریکی بلاک کی کورٹ میں ہے کہ عراق کے عوام کی خواہش کا احترام کرتا ہے یا نہیں۔

البتہ عراقی ملت نے بھی ٹھان لی ہے کہ وہ امریکی تسلط سے آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔ اگر امریکی فوجی انخلاء نہ ہوا تو اگلی مرتبہ عراقی قوم ان فوجی اڈوں پر اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرے گی کہ جہاں امریکی قبضہ کرکے بیٹھے ہیں۔ جب نوری مالکی وزیراعظم تھے، تبھی ان کے فوجی انخلاء کا قانونی معاہدہ ہوچکا تھا۔ صدر باراک اوبامہ کی امریکی حکومت نے اس پر دستخط کئے تھے۔ امریکا کو عراق میں فوجی اڈے کا قانونی حق نہیں ہے۔ بعد ازاں وہ فوجی تربیت اور داعش سے مقابلے کے بہانے عراق میں فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے۔ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار فوجی کی خبریں رپورٹ ہوتیں رہیں ہیں، مگر عراقی مکمل فوجی انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکا کی ذلت و رسوائی کے لئے یہی کافی ہے کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ عراقی کہہ رہے ہیں “گیٹ آؤٹ امریکا” یعنی دفع ہوجاؤ امریکا، مگر وہ ”باعزت “ رخصتی پر راضی نہیں ہے۔ عراق کے حوالے سے پوری دنیا کے سامنے بنیادی طور دو پیغامات آئے ہیں۔ ایک پیغام عراق کے عوام کا ہے کہ وہ پرامن، جمہوری، قانونی طریقے سے فوری امریکی فوجی انخلاء چاہتے ہیں۔ دوسرا پیغام امریکی حکومت کا ہے کہ وہ عراق کے عوام کے اس جائز، جمہوری اور قانونی مطالبے کو نہیں مانتا۔ یعنی یہ امریکا ہے جو عراق کی آزادی و خود مختاری کو علی الاعلان قدموں تلے روند رہا ہے۔ کیا امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو عراقیوں کے اس ریفرنڈم کا فیصلہ سن چکے۔ عراق میں ولن امریکا اور اس کے اتحادی ہی ہیں۔ حاج قاسم سلیمانی اور ابو مھدی مھندس کو عراقی عوام نے ہیرو کی حیثیت سے خراج تحسین و عقیدت پیش کیا۔ یہ شہدائے بغداد کے سخت انتقام کے سلسلے میں عراقی عوام کا تھپڑ ہے۔ امریکی حکمرانوں کے چہروں پر اس تھپڑ کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔