Raheeq ahmed abbasi articles 350

طالبان کی ‍پیش قدمی اور ان کے حامی دانشور .ڈاکٹر رحيق احمد عباسی

طالبان کی پیش قدمی اور ان کے حامی دانشور
ڈاکٹر رحیق احمدعباسی
افغانستان سے امریکہ اور یورپی ممالک کے انخلا اور طالبان کی بڑھتی کوئی پیش قدمی کو پوری دنیا گہری نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک کے عوام کی منشا کے بغیر صرف فوجی طاقت سے کسی ملک کو تسلط میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ 20 سال بعد امریکہ کا افغانستان سے انخلا بھی اسی تاریخی حقیقت کا عماز ہے۔اس سلسلے میں افغان طالبان کو فاتح قرار دینا بھی کوئی غلط بات نہیں ۔ لیکن اس کو غلبہ اسلام کے آغاز یا اقامت اسلام یا نفاذ اسلام قرار دینے والوں سے ہمیں اتفاق نہیں ۔ یا جن کا خیال ہے طالبان کے افغانستان میں قبضے سے افغانستان پھر کسی سنہرے دور میں داخل ہونے والا ہے یا خلافت راشدہ طرز کا نظام حکومت افغانستان میں متعارف ہونے والا ہے کو بھی مستقبل میں اتنی ہی مایوسی ہوگی جتنی ان کو روس کے انخلا کے بعد کے افغانستان سے ہوئی تھی ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے یا خطے میں اقتدار مذہب کے نام پر قائم کسی انتہا پسند طبقے کے ہاتھ میں آیا تو اس سے قتل و غارت گری اور بدامنی کو ہی فروغ ملا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے انتہا پسند سیاسی مذہبی گروہوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ پہلی صدی ہجری کے خوارج سے لیکر پانچويں صدی ہجری کے باطنیوں اور فدائيوں تک اور دور حاضر میں 90 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان حکومت سے عرب کے مختلف علاقوں میں آئی ایس آئی ایس تک اسلام کی تاریخ میں مذہبی انتہا پسند سیاسی گروہوں کے نامہ اعمال میں ملت اسلامیہ کو غیر مستحکم کرنے کے علاوہ کوئی کارنامہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ اس کی بنیادی وجہ مذہبی انتہاہ پسندوں کا صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھنا ہے ۔ ان کا يہ زعم اپنے علاوہ ہر کسی کو حسب مرتبہ گمراہ، فاسق، مرتد اور کافر سمجھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ دوسری وجہ يہ ہے کہ ایسے گروہ مذہب کی ایسی انتہا پسندانہ تعبیر کر رہے ہوتے ہیں جو عوام کی اکثریت کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی اور تیسری بات یہ کہ وہ اپنے فہم اسلام کو بزور طاقت دوسروں پر مسلط کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ اپنے لئے واجب اور ضروری گردانتے ہیں ور اس فريضہ کی ادائیگی ان کے ہاتھوں ایسے ظلم و جبر کا ارتکاب اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرواتی ہے جس سے بعد ازاں مذہبی حلقوں کے لئے بھی مذمت اور لاتعلقی کے اظہار کے کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔ حق پر ہونے کے زعم کی وجہ سے یہ ایسے ایسےکام کر گزرتے ہیں جن کو کسی طور پر اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ مثلا خوارج نے حضرت علی جیسے عظیم المرتبت صحابی کو نہ صرف مرتد قرار دے کر ان کی خلافت راشدہ کے خلاف خروج کیا بلکہ آپ کی شہادت بھی ایک بد بخت خارجی کےہاتھوں ہوئی۔ باطنی فدائیوں نے خود کش حملوں کا سلسلہ شروع کیا جو دور حاضر میں بھی مذہبی جہادی گروہوں کا موثر ترین ہتھيار ہے۔ بامیان میں بدھا کے مجسمے جو خلافت راشدہ ، سلطنت بنو امیہ ، عباسیوں، سلجوکوں، عثمانیوں کی حکومتوں کے دوران بھی باقی رہے اور سلطان محمد غزنوی جیسے سومنات کے بت شکن کے دور میں بھی محفوظ رہے طالبان کے پچھلے دور حکومت میں امت مسلمہ کے عقیدہ توحید کے لئے اتنے خطرناک بن گئے کہ 2001 میں انہیں امریکہ میں بنے ہوئے ڈائنامائٹ کے طاقتور دھماکوں سے اڑا دیا گیا ۔ پاکستان میں اگرچہ تحریک طالبان افغان سے بوجوہ ہمدری رکھنے والوں کی کمی نہیں۔ افغان طالبان بھی بظاہر پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے قبل صوفی محمد گروپ سے لا تعلقی کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن اس بات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت نے ہمیشہ افغانستان میں ہی پناہ لئے رکھی ۔اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسند گروہوں اور افغان طالبان کے فہم مذہب اور تصور سیاست کے فکری سوتے ایک ہی فکر سے پھوٹتے ہیں۔ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف نہ جائے لیکن طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکری پیش قدمی سےایک اور خانہ جنگی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ افغان حکومت، ديگر سیاسی گروہوں اور طالبان میں مذاکرات ہو رہے ہیں جن کی کامیابی کے لئے ہر درد دل رکھے والا دعا گو ہے لیکن ان سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اور افغانستان کے لئے کیسے کوئی ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے جو سب کے ليے قابل قبول ہو، یہ ایک بہت مشکل سوال ہے کیونکہ افغان طالبان جمہوری نظام کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں اور جمہوری نظام کے علاوہ کسی اور طرز حکومت کو طالبان کے علاوہ دیگر گروہ کبھی قبول نہیں کریں گے۔ ایسے میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد صاحب کا یہ بیان امید افزا ہے کہ طالبان بدل چکے ہیں لیکن کیا طالبان میں واقعی اتنی لچک پیدا ہوچکی ہے کہ وہ ایسی بنیادوں پر شرکت اقتدار کا کوئی فارمولہ قبول کر لیں گے جو ان کے نظریہ کے مطابق غیر اسلامی ہو ایک ایسا سوال یے جس کا جواب شاید ابھی کوئی نہیں دے سکتا ۔ اس ساری صورت حال میں طالبان کی مذہبی فکر سے ہم آہنگ پاکستانیوں کی خوشی تو قابل فہم ہو سکتی ہے لیکن ایسے مفکرین جو پاکستان میں بیٹھ کر طالبان کے نظام کو مثالی قرار دے رہے پر مجھے ضرور حیرت ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ طالبان کی حمایت میں اپنے خیالات کا اظہار ان اخبارات میں لکھے گئے کالمز ، ٹی وی چینلز کے ٹالک شوز اور سوشل میڈیا اکاونٹس پر پوسٹوں کے ذریعے کرتے ہیں جو اس آئین پاکستان کے تحت ملی ہوئی آزادی اظہار کی شق کے تحت قائم ہيں جو آئین طالبان کے مذہبی نظریہ کے مطابق کلیتا غیر اسلامی ہے۔ جن طالبان کے ہاں عورت کے گھر سے نکلنے پر پابندی ہو، شیو کرنا ہی نہیں داڑھی کا چھوٹا کرنا بھی ممنوع ہو، بچیوں کا سکول جانا نا قابل قبول ہو ان کے ہاں وہ آزادی اظہار کیسے اسلامی ہو سکتی ہے جس کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے۔ اس آزادی اظہار کے ذریعے طالبان کے نظام کو مثالی قرار دینے والے سعودی صحافی جمال خشوگی کا وہ انجام ہی دیکھ ليں جو ایک مذہبی گروہ کی حمایت سے قائم ہونے والی سعودی حکومت کے ہاتھوں ہوا يا ایران میں مذہبی بنیادوں میں قائم حکومت کے ہاں نازنین زغاری کی صورت حال کا مشاہدہ کر لیں ۔ جن طالبان کے نظام کو وہ مثالی قرار دے رہے ان کے ہاں فکری شدت اور مذہب کی انتہا پسندی پر مشتمل سیاسی تعبیر تو سعودی عرب اور ایران سے بھی ذیادہ سخت ہے!!

اپنا تبصرہ بھیجیں