mazhar-barlas articles 634

طاقتور کمزور کہاں ہوتا ہے. مظہر برلاس

آج کل تین چار چیزوں پر زیادہ بات ہو رہی ہے۔ حریم شاہ کی کرسی، مولانا مارچ، جیلوں میں قید لیڈروں پر بیماریوں کے حملے، عمران خان کی کشمیریوں کے لیے وکالت اور تیز ترین عدالتی فیصلے۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے چند فیصلوں نے پاکستانی عدالتوں کو دنیا کی تیز ترین فیصلے کرنے والی عدالتیں بنا دیا ہے۔ قوم کو یہ تیز رفتار کامیابی مبارک ہو۔
آج کل حریم شاہ کے چرچے ہیں۔ پورا سوشل میڈیا حریم شاہ کا دیوانہ ہے۔ ہر میٹنگ کی کرسی ان کی منتظر ہے، شاید نیب والے شدت سے انتظار کر رہے ہوں۔ مولانا کا مارچ بھی زیرِ بحث ہے۔ انہوں نے اسمارٹ گیم کی ہے۔ معاہدے کے بعد وہ بلا روک ٹوک اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔
رکاوٹوں کے بغیر اسلام آباد پہنچ کر باقی اعلانات ان کے لیے آسان ہوں گے۔ جیلوں میں بند ہمارے لیڈروں کی بیماریوں پر طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں، ان کے باعث اسپتالوں میں رش بڑھ گیا ہے، ویسے ایک بات بڑی سبق آموز ہے کہ پاکستان پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والوں نے ملک میں کوئی ایسا اسپتال نہیں بنایا جہاں ان کا علاج ہو سکے۔
عمران خان نے اپنی بھرپور وکالت کے باعث کشمیر کے مقدمے کو اہم بنا دیا ہے۔ 27اکتوبر کو انہوں نے یاد کروایا کہ وہ کشمیر کے سفیر ہی نہیں ترجمان بھی بنیں گے۔ کشمیر سے یاد آیا کہ پانچ اگست کو بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے جو بل راجیہ سبھا میں پیش کیا تھا، اسی روز منظوری کے بعد چھ اگست کو لوک سبھا سے بھی منظور ہو گیا تھا۔ اس پر 9اگست 2019کو بھارتی صدر رام ناتھ نے دستخط کیے۔
اس قانون کا اطلاق 31اکتوبر 2019سے ہوگا یعنی پرسوں سے بھارت اپنے قانون کے مطابق کشمیر کو اپنا حصہ بنا لے گا۔ پرسوں سے قانونی طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ وہاں عام بھارتی شہری جائیدادیں خرید سکیں گے۔ امیت شاہ کے بقول وہاں پانچ ہزار مندر بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ اس تمام صورتحال کے لئے کشمیر کے سفیر اور ترجمان کو تیار رہنا چاہئے۔
حالیہ بیماریوں اور فیصلوں نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کراچی بلدیہ ٹائون فیکٹری میں تین سو سے زائد زندہ جل جانے والوں کے ورثا پوچھتے ہیں کہ آخر ان تین سو سے زائد جانوں کا کوئی تو قاتل تھا، اسی طرح سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں 14معصوم جانیں گئی تھیں۔ ان کے ورثا بھی پوچھ رہے ہیں کہ کسی نے تو وہ جانیں لی تھیں، کوئی تو ان کا بھی قاتل ہے؟ سانحۂ ساہیوال کے تازہ ترین فیصلے نے یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جن بچوں کی آنکھوں کے سامنے یتیمی عطا کی گئی تھی، ان کی آنکھیں پوچھتی ہیں کہ آخر ان کے ماں باپ کا کوئی تو قاتل ہے، اس سانحہ میں جتنی بھی جانیں گئیں آخر انہیں قتل کرنے والا کوئی تو تھا؟
ویسے تو سینکڑوں واقعات ہیں مگر میں ان تین واقعات یعنی بلدیہ ٹاؤن کراچی، سانحۂ ماڈل ٹاؤن لاہور اور سانحۂ ساہیوال کو سامنے رکھ کر پریشان ہوں کہ آخر یہاں موت بانٹنے والے کون تھے؟ کیا وہ کوئی جن تھے جو لوگوں کو نظر نہیں آرہے۔ تمام تر کارروائیوں کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی، لاہور اور ساہیوال میں کام دکھانے والے چھلاوے تھے، پتا نہیں یہاں ہر جگہ چھلاوے کیوں رہتے ہیں۔ چھلاووں کے اس دیس میں قانون کی سب کتابوں پر لکھا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ اسلامی دفعات کا بھی تذکرہ ہے۔ چوری چکاری اور قتل و غارت کے اس منحوس نظام کے ورثا کی جناب میں دو اہم باتیں پیش خدمت ہیں شاید انہیں سمجھ آ سکے۔
حضرت علیؓ نے بطور حاکم کوفہ میں داخل ہوتے وقت فرمایا تھا ’’اے لوگو! میں اپنے جسم پر جو لباس پہن کر اور جس سواری پر سوار ہو کر تمہارے شہر میں داخل ہوا ہوں اگر واپس جاتے ہوئے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چیز ہو تو جان لینا کہ میں نے تمہارے حق میں خیانت کی ہے‘‘۔ جن لوگوں کو کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثوں کی سمجھ نہ آئے وہ اسے بار بار پڑھیں۔ ان کی آسانی کے لئے دوسری بات بھی لکھ دیتا ہوں۔
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا بیٹا روزگار کی تلاش میں عراق گیا۔ ایک سال بعد مال سے لدے اونٹوں کے ساتھ واپس آیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا، بیٹا اتنا مال کہاں سے ملا؟ بیٹے نے جواب دیا کہ تجارت کی ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا، بیٹا تجارت کے لئے پیسہ کہاں سے آیا۔ بیٹے نے جواب دیا کہ چچا نے قرض دیا۔ (چچا سے مراد کوفہ کا گورنر تھا) حضرت عمرؓ نے کوفہ کے اس گورنر کو مدینے طلب کیا جو صحابی رسولؓ بھی تھے۔
جب گورنر کوفہ مدینے آکر خلیفہ سے ملے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا، کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت آ گئی ہے کہ ہر شہری کو قرضہ دے سکتے ہو؟ گورنر نے جواب دیا ’’نہیں ایسا تو نہیں‘‘ حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا؟ اس لئے کہ وہ میرا بیٹا ہے؟ میں تمہیں معزول کرتا ہوں کیونکہ تم امانت داری کے اہل نہیں ہو‘‘۔
جب حضرت عمرؓ کوفے کے گورنر کو ہٹا چکے تو پھر بیٹے کو حکم دیا ’’سارا مال بیت المال میں جمع کرا دو، اس پر تمہارا کوئی حق نہیں‘‘۔ یہ واقعہ خاص طور پر سابق حکمران اور ایک سابق چیف جسٹس ضرور پڑھیں اور اپنی اولادوں کی امارت کی ذرا سی تحقیق کر لیں۔
خواتین و حضرات! طاقتور صرف وہاں کمزور ہوتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو ورنہ طاقتور، طاقتور ہی رہتا ہے۔ طاقتور کیلئے قانون مکڑی کا جالا ہی رہتا ہے۔
اگر ہم اپنا ملک ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے، یہ فلاں کا بھائی ہے، یہ فلاں کا سالا ہے، ہمیں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ہوگا۔ بقول اقبالؒ ؎
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں