79

صدر بائیڈن کے فلسطینیوں کے لیے میٹھے بول مگر گہرے اختلافات اپنی جگہ برقرار

صدر بائیڈن کے فلسطینیوں کے لیے میٹھے بول مگر گہرے اختلافات اپنی جگہ برقرار
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے حالیہ دورے میں بيت اللحم میں فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے الفاظ تو ادا کیے لیکن خطے میں قیام امن کے لیے کسی سیاسی پیش رفت کی کوئی آثار نہیں ملے ہیں۔
صدر جو بائیڈن کی فلسطینی اتھارٹی کے صدر سے ملاقات مقررہ وقت سے زیادہ وقت جاری رہی۔ انھوں نے آزاد فلسطینی ریاست کے خیال کا ایک بار پھر اعادہ کیا لیکن کہا کہ امن کی بات چیت شروع کرنے لیے ابھی ماحول سازگار نہیں ہے۔اس کے جواب میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل کے لیے شاید دو ریاستی حل کی گنجائش موجود نہیں رہے گی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ کے فلسطین کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تھے۔ بائیڈن انتظامیہ ان تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور فلسطینیوں کے لیے کچھ فنڈنگ بھی بحال کر دی گئی ہے۔

صدر بائیڈن کے دورے سے قبل 4جی فون سروس سمیت کئی مالی مراعات کا اعلان کیا گیا۔ صدر بائیڈن نے فلسطینی علاقوں کے دورے کا آغاز جبل زیتون پر آگسٹا وکٹوریہ ہسپتال کے دورے سے کیا۔ جبل زیتون مقبوضہ یروشلم کا حصہ ہے جہاں پہلے کبھی کسی موجودہ امریکی صدر نے دورہ نہیں کیا ہے۔واشنگٹن اس فلسطینی ہسپتال کی مدد کے لیے 100 ملین ڈالر دے رہا ہے جو غزہ کے رہائشیوں کے لیے کینسر کے علاج کا واحد مرکز ہے۔
ان اقدامات کی علامتی اہمیت ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا۔
’وہ یہاں صرف اسرائیلیوں کی مدد کے لیے آئے ہیں‘
صدر بائیڈن کو کالی کاروں کے ایک لمبے قافلے میں اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے بیت اللحم پہچنے میں 15 منٹ لگے۔ وہ اس دوران امریکی فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کی ایک 26 فٹ بلند دیوار پر بنائی گئی تصویر کے پاس سے بھی گذرے۔صدر بائیڈن نے صدر محمود عباس سے ملاقات کے بعد ہمدردانہ انداز میں کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے کو روزانہ ’ذلتوں‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور فلسطینی لوگ تکالیف اٹھا رہے ہیں۔

البتہ یہ واضح تھا کہ ہمدردانہ الفاظ کے علاوہ صدر جو بائیڈن کے پاس فلسطینوں کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اختلافات اپنی جگہ موجود ہیں۔
صدر بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے عرب ملکوں کے ساتھ نئے اتحادوں کو مضبو ط کرنے، علاقائی انضمام کو فروغ دینے اور ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی شراکت داری کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔فلسطینی سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے ان کے مقصد سے غداری کی ہے۔ 20 برس پہلے سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
صدر بائیڈن کے دورے کے دوران مظاہرے بھی ہوئے ہیں جہاں مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک سچا مصالحت کار نہیں ہے۔
جوڈ صالحی نے رملہ میں کہا: ’وہ یہاں صرف اور صرف ایک مقصد کے لیے ہیں، اسرائیلیوں کی مدد کے لیے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں