شہید پاکستان ڈاكٹر سرفراز نعیمیؒ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی 1,492

شہید پاکستان ڈاكٹر سرفراز نعیمیؒ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

شہید پاکستان
ڈاكٹر سرفراز نعیمیؒ

تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

پاکستان کی غیر متوازن مختصر تاریخ میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جبر و استبداد کی اس بھیانک تاریخ میں اس دھرتی کے کچھ وہ عظیم سپوت شہید کیے گئے جن کی یادیں اور باتیں سدا بہار پھولوں کی طرح ہر سو خوشبو پھیلاتی مشام جان کو معطرکیے ہوئے ہیں۔ ان چند عظیم ہستیوں میں میرے محسن و رہبر ،شہید پاکستان ، شہباز اہلسنت ، داعی اتحاد امت علامہ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی نوراللہ مرقدہ ہیں۔اس مظلوم شہید کے خون ناحق کی وجہ سے اہل پاکستان ایسی پریشان کن کیفیت میں مبتلا ہوئے کہ آئے دن گلی محلے خون ناحق سے رنگین ہو رہے ہیں۔پاکستانیوں کو جنگل کے سوکھے درختوں کی طرح کاٹ کاٹ کر دہکتی آگ اور مہلک بارود کی نظر کیا جا رہا ہے ۔ جامعہ نعیمیہ لاہور کے چھوٹے سے دفتر میں سلگائی جانے والی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔

اگر اس جانکاہ سانحہ کے اسباب و علل کا جائزہ لیا جاتا اور مجرموں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی جاتی تو یقینا پاکستان آج ایسی کیفیت سے دوچار نہ ہوتا۔ڈاکٹر صاحب ؒ کی شہادت پاکستانی تاریخ کا کوئی معمولی واقعہ نہ تھایہ پاکستانی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔مگر بد قسمتی سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اس خون کے ساتھ انصاف نہ کیا۔اب ایک آگ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس میں کچھ جل چکے ہیں اور بہت سوں نے ابھی سمندربرد ہونا ہے۔آگ کا کام جلانا ہے یہ بلاتمیز خاص و عام اور بلاامتیاز حکام و عوام پر اپنا کام دکھاتی ہے۔البتہ ہر طبقہ کی باری کا وقت مقرر ہے۔ابھی عوام جل رہے ہیں تو کل حکام جلیں گے۔

شہید پاکستان کو ظلماً شہید کرنے کا سب سے بڑا مقصد وطن عزیز کو بدترین فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانا تھا۔ اس شہادت کا مقصد ملک کے دو بڑے فرقوں کو ایک دوسرے کے دست و گریباں کر کے اساس دین و اساس ملک کو کمزور کرنا تھا۔اس گھناﺅنی سازش میں ملک دشمن اندرونی و بیرونی قوتیں ملوث تھیں ۔ وہ نان سٹیٹ ایکٹرز جو ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور جن کا مقصد دین متین کو بین الاقوامی برادری میں بدنام کرنا تھایہ سارا کھیل ان کا ہے۔یہ قوتیں فرقہ واریت کے حوالے سے اپنے مطلوبہ اہداف تک تو نہ پہنچ سکیں البتہ انہوں نے اہل پاکستان کو ایک عظیم مذہبی رہنماء، ایک عظیم مصلح اور نامور عالم دین سے محروم کر دیا۔

آج پاکستان کوان مخدوش حالات میں ایسے داعی اتحاد امت کی اشد ضرورت ہے اور علامہ الشاہ احمد نورانی علیہ الرحمة کے بعد ڈاکٹر صاحب ایسی شخصیت تھے جو تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول تھے اور تمام مکاتب فکر کے علماءان کی بات سنتے تھے۔وائے ناکامی!کہ ایسے معتدل مزاج شخص کو دشمنوں نے ہم سے چھین لیا۔ ملک کی مذہبی قیادت میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایسی متحرک تھی کہ وہ ہمہ وقت اتحاد بین المسالک کی کوشش میں مصروف رہتے ۔ ان کی شبانہ روز جہد مسلسل کی وجہ سے ”تنظیم اتحاد مدارس عربیہ “کا قیام عمل میں آیا اور ڈاکٹر صاحب کو اس اتحاد کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔اس پلیٹ فارم سے تمام مکاتب فکر کے مدارس کی صحیح معنوں میں نمائندگی ہوئی اور حکومت کے سامنے مدارس کی طرف سے ایک مضبوط ، متحدہ اور متوازن مؤقف پیش کیا گیا۔ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد اتحاد پرپثرمردگی چھا چکی ہے اور تحرک سامنے نہیں آرہا جو ڈاکٹر صاحب کے دم قدم سے تھا۔

ڈاکٹر صاحب کو تنظیم المدارس اہلسنت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو آپ نے تنظیم کو نئی جہتوں سے متعارف کروایا ۔تنظیم المدارس کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے اور میڈیا میں تنظیم کو متعارف کرانے میں ڈاکٹر صاحب نے ہر فورم پر تنظیم کی بھرپور نمائندگی کی۔تنظیم المدارس کے بڑے بڑے ناموں نے ذاتی تشہیر اور ذاتی پروجیکشن کیلئے تنظیم کو استعمال کر کے نام کمایا مگر ڈاکٹر صاحب ؒ ہمیشہ ان آلائشوں سے دور رہے اور اپنے دامن کو ہمیشہ ان رذالتوں سے دور رکھا۔وہ خالصتاً دینی جذبے اور مسلک کی خدمت کے جذبے سے آگے بڑھتے رہے۔ڈاکٹر صاحب ؒجامعہ نعیمیہ اور تنظیم المدارس کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے بے شمار ذاتی مفادات اٹھا سکتے تھے۔ حکومت سے سیاسی فائدہ اٹھانا ان کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ مشرف دور میں آپؒ نے پس زندان جانا پسند کر لیا مگر کسی قسم کی لالچ اور سیاسی مفاد کے مقابلے میں اپنے ضمیر کاسودا نہ فرمایا۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ اسیری کے دوران ڈاکٹر صاحبؒ کو وزارت اور دیگر پرکشش عہدوں کی آفر کی گئی اور اس کیلئے صرف اپنا مؤقف بدلنے کی قیمت تھی مگر ڈاکٹر صاحب ؒنے ان تمام پیش کشوں کی طرف نظر حقارت سے بھی نہ دیکھا۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ثابت قدمی کے ساتھ۔ اسلام آباد تشریف آوری ہوئی تو راقم نے عرض کیا کہ اگر جناب سیاست میں آجائیں اور شریف برداران سے جو آپ کا تعلق ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم این اے یا سینیٹر بننا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے!دنیاوی آسائشوں سے کوسوں دور اس مست الست فقیر نے جواباً فرمایا”ہم سب بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شریف برادران سے جو ہمارے تعلقات ہیں ان سے کوئی ذاتی منفعت نہیں اٹھائیں گے“ اس پر جناب نواز شریف قائد مسلم لیگ (ن)کا بیان گواہ ہےجو انہوں نے آپکی شھادت کے وقت دیا تھا۔ قائد مسلم لیگ (ن)نے کہا”ڈاکٹر مفتی محمد سرفراز نعیمی ؒکی شہادت اس اعتبار سے میرے لیے ناقابل برداشت صدمہ ہے کہ ڈاکٹر شہیدؒ کے ساتھ میرے کئی رشتے تھے۔وہ میرے کلاس فیلو تھے اور دوست بھی تھے۔زمانہ طالب علمی میں اکثرہم اکٹھے کرکٹ بھی کھیلا کرتے تھے۔

ا پنی ذات سے ہٹ کرذکر کروں تو آپ کے والد محترم اور اپنے وقت کے جید عالم مفتی محمد حسین نعیمی ؒ ہمارے پورے خاندان کے بچوں کے روحانی باپ تھے۔ قرآن کریم اور دیگر دینی تعلیمات بھی انہی سے حاصل کیں ۔ اگر میں انہیں بطور عالم دین دیکھوں تو بلاشبہ وہ عہد حاضر کے نڈربیباک اور سچے انسان تھے، دوسرے لفظوں میں آپ علم کا ایک ایسا بحر بیکراں تھے جس سے ایک زمانہ فیض یاب ہوا۔

میں دو مرتبہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہا اس سے پہلے وزارت اعلیٰ بھی میرے پاس رہی مگر میں نے دیکھا کہ قریبی دوست اور خاندان کا فرد ہونے کے باوجود کبھی انہوں نے مجھے اپنی کوئی ضرورت یا غرض نہیں بتائی۔ ایسا درویش منش اللہ کا نیک بندہ آج کے دور میں ملنا مشکل ہے۔“

شہید پاکستان کا یہ اعزاز تھا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا کبھی نہ کیا وگرنہ مذہب کو بیچنے والے اس وقت بھی موجود تھے آج بھی یہ سوداگر دین کی جنس کا بازار سیاست میں سودا کر رہے ہیں۔ لوگوں نے ڈاکٹر صاحب ؒ کو بھی بدنام کرنے کی کوشش بہت کی مگر لِلّٰہ الحمد وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ اس فقیر روشن ضمیر کا عزم ہمالیہ سے بلند اور کردار بدر کامل کی خوشگوار چاندنی سے کہیں روشن تھا۔

جب لوگ اس سطح پر پہنچ جاتے ہیں تو انکے دربار لگتے ہیں ، ہاتھ پاﺅں چومنا دربار کے آداب قرار پاتے ہیں ۔ میں اپنے رب کو گواہ بنا کر قارئین کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ جم غفیر میں تو کجا حالت تنہائی میں بھی ڈاکٹر صاحب نے کبھی ہاتھ نہیں چومنے دیے۔ میں نے عرض کیا ہم محبت سے یہ اظہار عقیدت کر تے ہیں، فرمایا”اس سے تکبر و نحوت کے جذبات ابھرتے ہیں “دربارنہ درباری۔ ملاقاتیوں کی لائنیں سیدھی کرنے والے خادم نہ سیکرٹری نہ پی ۔ اے کہ ایسوں کو ایسوں سے کیا غرض؟اپنی ذات میں ادب و احترام کا یہ عالم کہ ہر بڑے عالم دین کو جھک کر سلام کرنا۔ مفتی اعظم ؒ کے سامنے ہم نے خود دیکھا کہ آپ ؒ کو بولنے کی کبھی جراءت نہ ہوئی اور والد محترم کی وفات کے بعد اس کرسی پر بیٹھنا گستاخی سمجھا اور اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اس کرسی کو تبرکاً اپنے سامنے رکھا مگر کبھی اس پر تشریف فرما نہ ہوئے۔سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کے ساتھ ایک ملاقات میں راقم بھی موجود تھا چند اہم ترین لوگوں کی مجلس جنرل صاحب کے گھر بپا تھی ۔ جب شہید پاکستان ؒ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے تو جنرل صاحب نے کچھ ان الفاظ میں ڈاکٹر صاحب کا دوستوں سے تعارف کرایا”یہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی ہیں اور سواد اعظم اہلسنت کے حقیقی قائد ہیں “سوادا عظم اہلسنت کے اس حقیقی قائد نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اہلسنت کو ملک کے طول و عرض میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ بغیر کسی سیکورٹی کے تنے تنہا ہر جگہ پہنچنا ، تمام رکاوٹوں کا عبور کرنا ۔ تمام مشکلات کا صبر سے مقابلہ کرنا اسی روشن ضمیر ہستی کا ہی کام تھا۔ اپنی شھادت سے تقریباً دو ہفتے قبل وفاقی وزیر مذہبی امور (علامہ حامد سعید کاظمی)سے ملاقات طے تھی۔ اکیلے ملاقات کی۔ فراغت کے بعد مجھے فون کیا کہ میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں ۔ میں نے عرض کی”آپ وہیں تشریف فرما ہوں میں حاضر خدمت ہوتا ہوں “مجھے علم تھا کہ آپ ؒ کے پاس گاڑی نہیں ہوتی اور راقم کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ جب بھی آپ ؒ اسلام آباد تشریف لاتے شرف میزبانی سے مجھے مشرف فرماتے۔ مذہبی امور کے دفتر کے سامنے اکیلے تشریف فرما ہیں اور سانحہ لال مسجد کے بعد اسلام آباد کے حالات کتنے دگرگوں تھے یہ اسلام آباد کے باسی ہی جانتے ہیں ۔ عرض کیا ”حالا ت بڑے خراب ہیں میری گزارش ہے کہ جب آپ ؒاسلام آبادتشریف لائیں یا کہیں باہر تشریف لے جائیں تو حکومت سے سیکورٹی لے لیا کریں اہل پاکستان کو آپکی بہت ضرورت ہے“ایک دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ ارشاد ہوا”ہم اہل سنت ایک نعرہ لگاتے ہیں کہ غلامی رسول  میں موت بھی قبول ہے، کیاہم یہ نعرہ لگانے میں سچے ہیں یا جھوٹے؟“عرض کیا یہ نعرہ تو ہم اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں” فرمایا “جب یہ بات ہے تو ہم موت کو روکنے کیلئے سیکورٹی کا کسی سے کیوں مطالبہ کریں ۔ ہمیں رسول کی غلامی میں موت قبول ہے” اس مسکت جواب پر مجھے مزید دلائل دینے کا یارانہ رہااور میں خاموش ہو گیا کہ یہ شخص کسی اور دنیا کا ہے جس دنیا میں موت کو وصال محبوب کا ایک خوشگوار ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے سینے میں حضور شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی ؒ کی بے شمار یادیں ہیں وہ میرے عظیم استاد اور کروڑوں اہل وطن کی دلوں کی دھڑکن تھے۔ خدایا ! بے حدو حساب رحمتیں نچھاور فرما اس مزار پر جہاں مفتی اعظم ؒپاکستان اورشہید ؒپاکستان آسودہ خاک ہیں۔(آمین)