Seerat-ul-Nabi 143

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ شہداء کا مرتبہ

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ شہداء کا مرتبہ
کدال کا لگنا تھا کہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے پاؤں سے خون جاری ہوگیا۔گویا ان کا جسم اس طرح تروتازہ تھا جیسے کسی زندہ انسان کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ خون بھی خشک نہیں ہوا تھا اور خون شریانوں میں اس طرح جاری تھا کہ ذرا سی کدال لگتے ہی پیر سے جاری ہوگیا۔دوسری یہ بات سامنے آئی کہ ان لاشوں سے مشک جیسی مہک آ رہی تھی… یہ واقعہ غزوہ احد کے تقریباﹰ پچاس سال بعد کا ہے، جب کہ مدینہ منوره کی مٹی اس قدر شور( نمکیات والی )ہے کہ پہلی ہی رات لاش میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا، جس طرح زمین انبیاء کے جسموں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی، اسی طرح شہداء کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں ۔
اسی طرح حضرت خارجہ بن زید رضی الله عنہ اور حضرت سعد بن ابی ربیع رضی الله عنہ کو ایک قبر میں دفن کیا گیا، یہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔بعض لوگ اپنے شہداء کو احد سے مدینہ منوره لے گئے تھے، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انہیں واپس لایا جائے اور میدان احد ہی میں دفن کیا جائے۔
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا:
“میں ان سب کا گواہ ہوں … جو زخم بھی کسی کو اللّٰه تعالیٰ کے راستے میں لگا ہے، اللّٰه تعالیٰ قیامت کے دن اس زخم کو دوبارہ اسی حالت میں پیدا فرمائیں گے کہ اس کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔”
غزوہ احد میں شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت جابر رضی الله عنہ کے والد عبداللہ رضی الله عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہ سے فرمایا:
“اے جابر! کیا میں تمہیں ایک بات نہ بتادوں ؟… اور وہ یہ کہ جب بھی اللّٰه تعالیٰ کسی شہید سے کلام فرماتا یے تو پردوں میں سے کلام فرماتا ہے لیکن اس ذات حق نے تمہارے باپ سے روبرو کلام فرمایا اور فرمایا، مجھ سے مانگو، میں عطا کروں گا۔انہوں نے کہا: “اے باری تعالیٰ! مجھے پھر دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ وہاں پہنچ کر میں ایک بار پھر تیری راہ میں قتل ہوسکوں ۔”
اس پر اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا:
“یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹاؤں ۔ ”
انہوں نے عرض کیا؛
“پروردگار! جو لوگ میرے پیچھے دنیا میں باقی ہیں ، ان تک یہ بات پہنچادے کہ یہاں شہداء کو کیسے کیسے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔”
اس پر اللّٰه تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
ترجمہ: “اور اے مخاطب! جو لوگ اللّٰه کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب ہیں ۔انہیں رزق بھی ملتا ہیں ۔”
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بنی دینار کی ایک عورت کے پاس پہنچے۔اس عورت کا شوہر، باپ،اور بھائی اس غزوہ میں شہید ہوئے تھے، ایک روایت کے مطابق ان کا بیٹا بھی شہید ہوا تھا… جب لوگوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے فوراً پوچھا:
“رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کیا حال ہیں ؟ ”
لوگوں نے بتایا:
“الله کا شکر ہے… آپ بخیر و عافیت ہیں ۔”
اس پر عورت نے کہا:
“میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں ۔”
پھر جب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا تو بولیں :
“آپ خیریت سے ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔” یعنی اب کسی غم کی کوئی اہمیت نہیں ۔
غزوۂ احد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کی آنکھ میں زخم آگیا تھا… یہاں تک کہ آنکھ ڈیلے سے باہر نکل کر لٹک گئی تھی۔لوگوں نے اسے کاٹ ڈالنا چاہا، اور اس بارے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا:
“آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: “کاٹو نہیں ۔”
پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی آنکھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ہتھیلی سےاس کی جگہ پر رکھ دی۔پھر یہ دعا پڑھی:
“اے اللّٰه! ان کی آنکھ کو ان کے حسن اور خوبصورتی کا ذریعہ بنادے۔”
چنانچہ یہ دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی… حضرت قتادہ رضی الله عنہ کو کبھی آنکھ کی تکلیف ہوتی تو دوسری میں ہوتی، اس آنکھ پر اس تکلیف کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
ایک اور صحابی کی گردن میں ایک تیر آکر پیوست ہوگیا… وہ فوراً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا۔زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔
غزوہ احد میں اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں تھا۔جنگ کے دوران ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑلیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے جھنڈے کو تھام لیا، اس وقت وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔
ترجمہ: “اور محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہی تو ہیں ، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزرچکے۔”( سورۃ آل عمران: آیت 144 )
جب انہوں نے جنگ کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم قتل کردیئے تو خود بخود ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ شہید ہوگئے۔
غرض جنگ ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کردینے کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت گھوڑے پر سوار تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت شہداء اور ان کے عزیزوں کے لیے یہ دعا فرمائی:
“اے اللّٰه! ان کے دلوں سے رنج اور غم کو مٹادے، ان کی مصیبتوں کو دور فرمادے اور شہیدوں کے جانشینوں کو ان کا بہترین جانشین بنادے۔”
مدینہ پہنچنے پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہہ کی تلوار خون آلودہ دیکھ کر فرمایا: “اگر تم نے جنگ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو فلاں فلاں نے بھی خوب جہاد کیا ہے۔”
غزوۂ احد میں 70 کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔مرنے والے مشرکوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے، جب اللّٰه کے رسول مدینہ منوره پہنچے تو مسلمانوں کی شکست پر منافقوں اور یہودیوں کی زبانیں کھل گئیں ۔وہ کھلے عام مسلمانوں کو برا کہنے لگے، خوشی سے بغلیں بجانے لگے۔ان لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات بھی کہے، مثلا وہ کہتے پھرتے تھے:
“محمد صرف حکومت کرنے کے شوقین ہیں ۔آج تک کسی نبی نے اس طرح نقصان نہیں اٹھایا جس طرح انہوں نے اٹھایا ہے، خود بھی زخمی ہوئے اور اپنے اتنے ساتھیوں کو بھی مروایا ہے۔”( معاذاللہ )
کبھی کہتے:
“تمہارے جو ساتھی مارے گئے، اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے تو اس طرح اپنی جانیں نہ گنواتے۔”
حضرت عمر رضی الله عنہہ تک ان کی یہ باتیں پہنچیں تو انہیں بہت غصہ آیا۔انہوں نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا؛
“اے الله کے رسول! آپ ہمیں ان لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دیں ۔”
یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“کیا یہ لوگ یعنی منافقین ظاہر میں مسلمان نہیں ہیں ۔کیا یہ کلمہ نہیں پڑتے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں ۔”
حضرت عمر رضی الله عنہہ نے عرض کیا:
“بے شک کرتے ہیں ، لیکن یہ لوگ ایسا تلوار کے خوف سے کرتے ہیں ، اب ان کی حقیقت ظاہر ہوچکی ہے، ان دلوں میں جو کینہ اور فساد ہے وہ سامنے آگیا ہے۔”
یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
“جو شخص اسلام کا اعلان کرے، چاہے ظاہری طور پر ہی کرے، مجھے اس کے قتل کی ممانعت کردی گئی ۔”
غزوہ احد کے دوسرے ہی روز، صبح سویرے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا قاصد مدینہ منوره میں یہ اعلان کررہا تھا:
“مسلمانو! قریش کا تعاقب کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں