332

شہادت امام حسینؓ اور اسلامی آفاقیت.تنزیل بیگ قادری

شہادت امام حسینؓ اور اسلامی آفاقیت

تنزیل بیگ قادری

دنیا میں بہت سے واقعات ایسے ہیں جو اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کےاثرات یا تو وقتی ہوتے ہیں یا انفرادی یا محض اپنے ایک مخصوص معاشرے تک محدود ہوتے ہیں۔ جو زمانہ گزرنے کے ساتھ دھندلا جاتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں حق و باطل کے کئی معرکے برپا ہوئے درجنوں قربانیاں اور شہادتیں واقع ہوئیں لیکن جو انفرادیت اور یکتائیت شہادتِ امام حسینؓ کو حاصل ہوئی کسی اور کے حصہ میں نہ آ سکی۔ یہ شہادتِ عظمیٰ اگرچہ ۱۰؍ محرم الحرام ۶۱ ہجری کو ظہور پذیر ہوئی، مگر تاریخِ عالم میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس عالمگیریت کی کئی وجوہات ہیں جن میں بنیادی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
1- مسلمانوں سے پہلے، ان کے اپنے اور مابعد ادوارِ تاریخ سے تکویناتِ الٰہیہ میں شہادتِ حسینؓ کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا تو ساتھ ہی انھیں مستقبل میں انھی کی اولاد میں ایک ذبحِ عظیم کی بھی خبر دے دی۔ ارشاد فرمایا کہ:
فَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ
’’سو ہم نے اسماعیل (علیہ السلام) کو فدیہ میں ایک ذبح عظیم کے ذریعہ سے بچا لیا‘‘ (سورۃ الصافات: ۱۰۷)
متعدد علمائے کرام کی ہمنوائی میں حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے ’’رموزِ بیخودی‘‘ میں کیا خوب ارشاد فرمایا ہے:
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنیِ ذبحِ عظیم آمد پسر
’’اللہ کی شان ہے کہ باپ بسم اللہ کی با ہے،
جبکہ بیٹا ذبحِ عظیم کا معنی قرار پایا ہے‘‘
صرف قرآنِ عظیم ہی نہیں بلکہ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے میلاد پاک سے صدیوں پہلے اہلِ کتاب کو بھی شہادتِ حسینؓ کا علم تھا اور یومِ قیامت حضور نبی کریم ﷺ کے شفیع المذنبین ہونے کا بھی۔ ابن عساکر بیان کرتے ہیں کہ امامِ بنی سلیم نے اپنے اشیاخ سے روایت کیا ہے کہ وہ ایک غزوہ کے لیے بلادِ روم میں گئے تو عیسائیوں کے ایک گرجا گھر میں چلے گئے جہاں انھوں نے یہ شعر لکھا ہوا دیکھا:
کَیْفَ تَرْجُوْ اُمَّۃٌ قَتَلَتْ حُسَیْناً
شَفَـاعَـۃَ جَـدِّہِ یَـوْمَ الْقِـیَـامَۃِ
’’وہ امت جس نے حسین کو قتل کر دیا وہ قیامت کے دن ان کے نانا کی شفاعت کی امید کیسے رکھے گی‘‘
اشیاخ نے رومیوں سے پوچھا: آپ کب سے اس مکتوب کو اس گرجا میں دیکھ رہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: آپ کے نبیؐ کی آمد سے چھ سو سال قبل سے۔ (تاریخِ دمشق14/243)
شہادتِ حسینؓ کے بابت انھی تکوینی حقائق کو حضور سید المرسلین ﷺ نے بھی اپنے اصحاب و اہل بیت رضی اللہ عنہم پر کئی اعتبارات سے فاش کر دیا تھا۔ لہٰذا حدیثِ صحیح میں وارد ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتی ہیں کہ ایک دن جبکہ حضور نبی کریم ﷺ ان کے گھر میں مقیم تھے، آپ ﷺ کے چشمانِ مقدس سے آنسو رواں تھے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ آج کیا بات ہے کہ چشمانِ مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا:کہ مجھے ابھی ابھی جبریل نے خبر دی ہے کہ:
اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلُ ھَذَا بِاَرْضٍ یُقَالُ لَھَا کَرْبَلَاءُ
’’آپ ﷺ کی امت آپ ﷺ کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر شہیدکر دے گی جس کو کربلاء کہتے ہیں۔‘‘ (المعجم الکبیر:2819)
بلکہ بعض احادیث میں حضور ﷺ نے یزید کا ذکر بھی کیا ہے (البدایۃ) یہی وجہ ہے کہ امامِ عالی مقام حسینؓ کی شہادتِ عظمیٰ وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی شہرتِ عام حاصل کر چکی تھی اور پھر وہ بھی بذریعہ الہام و وحی۔
2- دیگر شہادتیں انفرادی یا خاندان کے ایک دو افراد سے عبارت ہیں۔ لیکن ایک ہی خاندان کے تمام افراد کی قربانی صرف چمنستانِ رسول ﷺ کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ تاریخ و حدیث کی کتب میں صحیح روایت کے ساتھ مذکور ہے کہ صرف خانوادۂ نبوت سے متعلق ۷۲ سے بھی زیادہ نفوس کی شہادت میدانِ کربلا میں واقع ہوئی۔
3- اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو مختلف انداز سے آزماتا ہے کبھی مال سے، کبھی جان سے، کبھی اولاد سے کبھی ملک سے نکال کر وغیرہ۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت میں اللہ تعالی نے تمام مصائب و آلام جمع فرما دیے تا کہ قیامت تک اہلِ ایمان پر حجت قائم ہو جائےکہ ایمان کسی ایک قربانی، کسی ایک مصیبت، کسی ایک آزمائش کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ وقت آنے پر ہر قسم کے کرب و بلا کا متقاضی ہے، اور حق یہ ہے کہ عین ایسے وقت پر ہی صاحبِ ایمان کی ایمانداری کا پتہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین شہادت کے وقت امام حسینؓ نے پوچھا: یہ کون سی سرزمین ہے؟ تو آپؓ کے اردگرد کھڑے لوگوں نے جواب دیا کہ یہ کربلا ہے تو امامِ عالی مقام نے سید الانبیاء ﷺ کا جملہ دہراتے ہوئے ارشاد فرمایا:
صَدَقَ النَّبِیُّ ﷺ:اِنَّھَا أَرْضُ کَرْبٍ وَ بَلَاءٍ
نبی ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ وہ زمینِ کرب و بلاء ہے (المعجم الکبیر:2812)
4- چونکہ شہادتِ حسینؓ تکویناتِ الٰہیہ میں سے ایک اہم اور نمایاں واقعہ ہے اس لیے یہ شہادت اپنے دُور رس اثرات و عواقب کے اعتبار سے بھی انفرادیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے بعد اسلامی مملکت میں جو سیاسی، اعتقادی، معاشی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوئے انھیں آج بھی دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے، بلکہ عالمِ رنگ و بو میں برپا ہونے والے عالمگیر انقلابات کی کوئی ایسی تہہ نہیں ہے جس کا محرک یہ شہادت نہ ہو۔
مندرجہ بالا تخصیصات سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ شہادتِ حسینؓ ہمیشہ سے ہر انقلابی قوت کے لیے بطور اعلیٰ آئیڈیل کے کارگر رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب بلادِ اسلام میں ملوکیت نے اپنے پنجے گاڑ لیے اور اہلِ ایمان ڈکٹیٹرز کی نوبہ نو چیرہ دستیوں، ظلم اور ناانصافیوں کاتیزی سے شکار بننے لگے تو اسلامی نظامِ سلطنت کا، جو کہ اعلیٰ جمہوریت اور شورائیت پر مبنی تھا، صرف خاتمہ ہی نہیں ہوا بلکہ ہوس پرست بادشاہوں نے اپنی نااہلیوں اور شہوت رانیوں کی وجہ سے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ اسلام کے عقائد اور اس کے تصورِ حلت و حرمت کا تاروپود تار تار ہو گیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور اقتصادی برائیوں نے زور پکڑ لیا جس کی وجہ سے قومی و بین الاقوامی سطح پر اسلام کے اجتماعی نظام کا شیرازہ بکھر گیا۔ لہٰذا جن تاریکیوں سے حضور ﷺ نے اور آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے امت مسلمہ کو نکالا تھا ظلم وجہالت کے اسی گھٹاٹوپ اندھیرے میں انھیں دوبارہ سے دھکیل دیا گیا۔ تاریخ اسلام کا بنظر غائر غیر جانبدارانہ مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جب مملکت اسلامیہ خلافت سے ملوکیت کی طرف منتقل ہوئی تو اس کے زیرِ سایہ جو بڑی بڑی ہلاکت انگیز اور اسلام کُش بیماریاں لاحق ہوئیں اور ان بیماریوں کی وجہ سے جو مسائل ابھرے انھیں مندرجہ ذیل بنیادی عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

i- مذہبی اور اعتقادی

ii- فکری اور سیاسی

iii- اجتماعی اور معاشرتی

iv- فقہی اور کلامی

v- معاشی اور اقتصادی

اسلامی سیاست میں ایک اصول ابتدائے اسلام سے ہی کارگر رہا ہے کہ:’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ (اقبال) اور ادیانِ عالم کا عام سا طالبعلم بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ قومی و بین الاقوامی سطح پر جس قسم کی بھی کوئی تبدیلی آئی اس کا اصلی محرک مذہب ہی رہا ہے، اس محرک کا وجود خواہ قبولِ دین سے ہوا یا ردِّ دین سے۔ اور یہ دینی عنصر اسلامی عقائد و اعمال میں خصوصی حیثیت سے کارگر رہا ہے اور یہی ہر اسلامی معاشرے کا ہمیشہ سے امتیاز رہا ہے۔ ان بنیادی حقائق کے مدِّ نظر جب ہم اسلامی سطح پر ارتقائے ریاست کے مختلف اور متصادم تصورات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب امیر معاویہؓ نے ملوکیت قائم کر دی تو اسلام کا تصورِ ریاست اور اس سے متعلق تمام لوازمات تہس نہس ہو گئے اور دیگر غیر مسلم معاشروں اور اجتماعات کے بالمقابل اسلامی نظامِ سیاست اور طرزِ حیات کا قلع قمع ہو گیا۔ جس کے نتیجہ میں پارلیمان کی بجائے بادشاہی دربار قائم ہو گئے جس کی وجہ سے مسلمان ہر سطح پر صراطِ مستقیم سے بہک گیا۔ استحصال و تعدّی پر مبنی ایک نظامِ حکومت کی تشکیل ہوئی؛ شورائیت کے تحت نظامِ انتخاب کی بجائے نامزدگیِ ولی عہد نے جگہ لے لی۔ حضرت حسن بصریؓ نظامِ ملوکیت کے رائج ہونے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اس نظامِ ملوکیت کی وجہ سے یہ بادشاہ لوگ اپنے بیٹوں کے لیے اپنے دور میں ہی بیعت لینے لگے اگر ایسا نہ ہوتا تو تاقیامت مسلمانوں میں شوریٰ رہتی‘‘۔ (تاریخ الخلفاء:339) یہی وجہ ہے کہ جب امیر معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد مقرر کر دیا اور بلادِ اسلامیہ میں اس کے خلاف نفرت و غصہ پھیلنے لگا تو انھوں نے اہلِ کوفہ کے فتنہ و فساد کی بات کرتے ہوئے امام حسینؓ کو اہلِ کوفہ کی طرف جانے سے روکا تو امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ نےاسلام کے تمام تر نظامِ حکومت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
مَا أُظُنُّ لِیْ عِنْدَ اللہِ عُذْراً فِیْ تَرْکِ جِھَادِکَ، وَ مَا اَعْلَمُ فِتْنَةً اَعْظَمَ مِنْ وِلَایَتِکَ اَمْرَ ھَذِہِ الْاُمَّةِ
’’میں نہیں سمجھتا کہ تمہارے خلاف جہاد نہ کرنے میں میرے لیے اللہ کے ہاں کوئی عذر ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس امت پر تمہاری حکمرانی سے بڑھ کر بھی کوئی بڑا فتنہ ہے۔‘‘ (البدایۃ:11/500)
امام الانبیاء ﷺ نے بھی اسی حقیقت کی طرف واضح طور پر اشارہ فرما دیا تھا کہ:
لَا یَزَالُ ھَذَا الْاَمْرُ قَائِماً بِالْقِسْطِ حَتَّی یَثْلَمَھُ رَجُلٌ مِنْ بَنِیْ اُمِیَّةَ
’’انصاف و عدل پر مبنی یہ نظامِ حکومت قائم رہے گا یہاں تک کہ بنوامیہ میں سے ایک آدمی اس میں دراڑیں پیدا کر دے گا۔‘‘ (مسند ابی یعلیٰ:870)
اب اہلِ بصیرت خود ہی فیصلہ فرما لیں کہ حدیث کا حقیقی مصداق کون ہے؟
ملوکیت کی پیدا کردہ شورشوں اور رخنہ اندازیوں کی بدولت جو تبدیلی اجتماعی فکر و نظر، مذہبی عقائد و اعمال اور سیاسی و اقتصادی سطح پر آئی اس کی ایک جھلک امیر معاویہ کے ولی عہد یزید میں ہی ملاحظہ فرمائیے۔ سبطِ ابن الجوزی رقمطراز ہیں کہ:
’’یزید وہ پہلا آدمی تھا جو علی الاعلان شراب نوشی کرتا تھا؛ کھلے بندوں گانے بجانے اور شکار کا شیدائی تھا؛ غِلمان و قیان (ناچنے گانے والی لونڈیاں) اور کتّوں کو اپناتا تھا، اور ہر اس کام کو کھلم کھلا کرتا تھا جو اہلِ عیش و نشاط کا وطیرہ تھا؛ مرغ پالتا اور پھر انھیں لڑاتا تھا؛ تمام تر سامانِ کھیل و کود سے محظوظ ہوتا اور بندر بھی رکھتا تھا۔ اس کا ایک بندر تھا جس کا نام ابوقیس تھا۔ جس دن یزید اپنی صبح مخموری کی حالت میں کرتا اس بندر کو اپنے گھوڑے پر باندھ لیتا جسے وہ ریشم کی رسیوں سے بُنا ہوا ساز پہناتا، لوگ اس کے آگے آگے چلتے اور بادشاہی گھڑ سواروں کے دستے اس کے آگے آگے چلائے جاتے۔ یہی بندر اس کا ندیمِ خاص تھا، وہ اسے شراب پلاتا تھا، اسے زرد و سرخ رنگ کے چوغے اور سونے کی بنی ہوئی ٹوپیاں پہناتا تھا۔ اور گھوڑوں کو اس حالت میں دوڑاتا تھا کہ بندر ان کے اوپر ہوتا، ایک دفعہ اس نے اس بندر کو ایک جنگلی گدھی پر بٹھا کر اسے گھوڑوں کے ساتھ گھڑدوڑ کے میدان میں مقابلے کے لیے چھوڑ دیا۔ وہ گدھی گھوڑوں سے آگے نکل گئی مگر اچانک گر کر مر گئی اور اس کے ساتھ ہی بندر ابوقیس بھی مر گیا۔ یزید کو بندر کی موت پر بہت حزن و ملال ہوا لہٰذا اسے کفنایا اور پھر دفنا دیا اور اہلِ شام کو حکم دیا کہ اس بندر کی عزاداری کریں۔ بلکہ بلاذری کا بیان ہے کہ یزید کی موت اس طرح سے واقع ہوئی کہ اس نے نشے میں بدمست ایک بندر کو اپنے ساتھ ایک جنگلی گدھی پر بٹھا لیا اور پیچھے سے اسے ایڑ لگا دی جس کے نتیجہ میں یزید گر گیا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی یا اس کے پیٹ میں سے کچھ کٹ کر نیچے گر گیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ اور بقول ہیثم: یزید نے جس برائی کا بھی ارادہ کیا اس کا ارتکاب کر دیا‘‘ (مرآۃ الزمان:8/297ــ 299)
یزید کے فسق و فجور میں غرق اس کردار کو تمام سلیم الفطرت، صاحب الرائے افراد بخوبی جانتے تھے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس کی ولی عہدی کی مخالفت کرتے ہوئے امیر معاویہؓ کو خدا خوفی دلائی۔ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ:
’’عمرو بن حزم معاویہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ: امتِ محمد ﷺ کے ضمن میں اس شخص کی بابت جسے تو نے اس امت پر اپنا جانشین بنایا ہے میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ معاویہ نے کہا: میرے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہے لہٰذا میں بھی آپ کی رائے کا قائل ہوں مگر بات یہ ہے کہ میرے بیٹے اور دوسروں کے بیٹوں کے سوا کوئی باقی نہیں ہے اور میرا بیٹا زیادہ حقدار ہے۔‘‘ (تاریخ الخلفاء:339ــ 340)
لمحۂ فکریہ ہے کہ امیر معاویہ نے یہ بات کہی جبکہ انھیں معلوم تھا کہ امام حسینؓ اور ابن زبیرؓ امت میں بخیروعافیت موجود ہیں۔ امیر معاویہؓ کی اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یزید بادشاہ بن گیا اور یوں ملک کا نظم و نسق مکمل طور پر اوباش، ہوس پرست، بددیانت اور استحصال پرست افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہو گیا۔ آقائے کریم ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے جو اسلامی حکومت قائم کی تھی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے حاکمیتِ الٰہی اور شورائیت (جمہوریت) پر رکھی گئی تھی۔ اس کا بنیادی مقصد انسانیت کو شخصی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروا کے خدا پرستی، حریتِ فکر، مساوات اور اخوت و محبت کا خوگر بنانا تھا۔ لیکن امیر معاویہ نے جس نظامِ حکومت کو استوار کیا وہ ان تمام بنیادی اصولوں سے تہی تھا لہٰذا یزید کی حکومت شخصی بادشاہت اور ڈکٹیٹرشپ کے تصور پر استوار کی گئی تھی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ریاست کے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہونے لگے، مملکت محض بیہودگیوں اور چیرہ دستیوں کی تماشا گاہ اور اکھاڑہ بن کر رہ گئی؛ ہر جگہ لاابالی پن کا مظاہرہ ہو نے لگا۔ الغرض یزیدیت نے ہر کہیں بدبختی، ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا بازار گرم کر دیا۔ خاندانی عصبیتیں، بغاوتیں اور شورشیں تیزی سے پنپنے لگی تھیں کیونکہ حکام نے بیت المال کو اپنی جاگیر بنا لیا اس کے مال کو اپنے اور اپنے خاندان کے افراد پر بلا دریغ خرچ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو اس کی بابت پوچھنے کی جرات نہ تھی۔ اگر کوئی یہ ہمت کر بیٹھتا تو اس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔ گویا حکام نے عوام پر غلامی مسلط کر دی تھی۔ یہی وہ دورِ بادشاہت تھا جس کی بابت حضور نبیِ عالمگیر ﷺ نے امّت کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
ھَلَاکُ اُمَّتِیْ عَلَی یَدَیْ اُغْلَیْمَةٍ سُفَھَاءَ مِنْ قُرَیْشٍ
’’میری امت کی تباہی چند قریشی بے عقل لونڈوں کے ہاتھوں ہو گی‘‘ (بخاری:7058)
صرف یہی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نےان احمق لونڈوں کے وقتِ ظہور کا تعین بھی فرما دیا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے آپ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ:
یَكُوْنُ خَلْفٌ مِنْ بَعْدِ السِّتِّیْنَ سَنَةً اَضَاعُوْا الصَّلوٰةَ وَ اتَّبَعُوْا الشَّھَوَاتِ، فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا
’’سنہ ۶۰ پر کچھ ایسی ناخلف اولاد ہو گی جو نماز کو ضائع کر دے گی اور شہوات کا اتباع کرے گی۔ لہٰذا وہ بہت جلد دوزخ کے طبقہ غیّ میں داخل ہو جائے گی‘‘ (مسند احمد:11649)
اور حضرت ابوہریرہؓ دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
اَللّٰھُمَّ لَا اَبْلُغَنَّ رَأْسَ السِّتِّیْنَ، قَالُوْا: وَمَا رَأَسُ السِّتِّیْنَ؟ قَالَ: اِمَارَةُ الصِّبْیَانِ
’’اللہ! میں کبھی بھی سن ساٹھ کے آغاز کو نہ پہنچوں۔ پاس موجود لوگوں نے پوچھا: یہ سنہ ساٹھ کے آغاز میں کیا ہو گا؟ فرمایا: بچگانہ احمق لونڈوں کی حکومت‘‘ (المعجم الاوسط:1397)
اور صبیانی حکومت کے اوصاف بیان کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا:
وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ:اِمَارَةُ الصِّبْیَانِ، اِنْ اَطَاعُوْھُمْ اَدْخَلُوْھُمُ النَّارَ، وَ اِنْ عَصَوْھُمْ ضَرَبُوْا اَعْنَاقَھُمْ
’’عربوں کے لیے تباہی ہے اس شر کی وجہ سے جس کا وقوع عین قریب ہے یعنی: بچگانہ احمق لونڈوں کی حکومت، اگر عرب ان کی اطاعت کریں گے تو وہ انھیں جہنم میں جھونک دیں گے اور اگر ان کی نافرمانی کریں گے تو وہ ان کی گردنیں توڑ دیں گے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ:)
اور محدثین و فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حدیث میں اشارہ کردہ احمق لونڈوں میں سے پہلا شخص یزید بن معاویہ تھا جو سنہ ۶۰ میں تخت آرا ہوا اور سنہ ۶۴ تک برسر اقتدار رہ کر مرا۔ (فتح الباری: ابن حجر عسقلانی،13/10)
مذکورہ حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے صاحبانِ علم و دانش خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ جب یزید اور اس کے ہمنواؤں کی چیرہ دستیاں، جبرو استبداد، اسلام دشمنی، اخلاقی گراوٹ، فسادِ عقائد و اعمال اور ظلم و تعدّی قومی و اجتماعی سطح پر اپنی ہر انتہا کو چھو چکی تھی اور نظامِ حکومت ہر طرح سے مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا تھا تو کیا امامِ عالی مقام حسینؓ کے پاس سوائے اقدام کے کوئی اور چارہ تھا؟ جب سب لوگ مردہ دل ہو چکے یہاں تک کہ یزید کے ظلم و ناانصافی پر باقی ماندہ صحابی بھی دبک کر خاموش ہو گئے تو خانوادۂ رسول ﷺ کے واحد کارگر سپوت جو رسول اللہ ﷺ کی مسندِ تبلیغِ علم و عرفان کے حقیقی وارث اور اس پر متمکن تھے تو کیا وہ بھی یزیدی ظلم و ناانصافی کے سامنے گھٹنے ٹیک کر چپ سادھ لیتے؟ ہرگز نہیں کیونکہ ایسے طوفان میں جہاں دین اور حرماتِ دین کے تحفظ کا سوال اٹھ جائے تو وہاں ایسی عظیم الشان ہستی کی خاموشی دینِ اسلام کو ہمیشہ کے لیے ملیامیٹ کر دیتی کیونکہ اب موقع تھا دینی عقائد و اعمال اور معیاراتِ دین کی حفاظت اور وضاحت کا تا کہ اُسی اسلام کی تجدید ہو جائے جو آپؓ کے عظیم المرتبت نانا ﷺ اللہ کی طرف سے لے کر آئے تھے۔ لہٰذا آپؓ اسی تجدیدِ دین و ملت اور اس کے اصول و اقدار کی بقاء و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے۔ یہی ان کے شایانِ شان اور یہی انھیں زیب دیتا تھا، ورنہ ایسے وقت میں جب ہر سطح پر حالتِ دین فرسودہ اور قابلِ رحم ہو چکی تھی اگر جگر گوشہ رسول ﷺ بھی اسی نظامِ حکومت کے آگے سرنگوں ہو جاتے؛ فاسق و فاجر کی بیعت کر کے دین میں تحریف کے مرتکب ہو جاتے اور اسلام کے آفاقی اصولوں پر سمجھو تہ کر لیتے تو دین کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا اور وہ دین جس کو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے نازل کیا گیا تھا اپنی نشوونما کی ابتدا ہی میں دم توڑ دیتا۔ اس تکوینی حقیقت کا حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو پورا پورا ادراک تھا یہی وجہ ہے کہ آپؓ نے آمریت اور ملوکیت کے آگے سرِ تسلیم خم کیا نہ بنیادی انسانی حقوق کے غاصبوں کی حکومت کی توثیق کی، بلکہ اپنے ۷۲ جانثاروں کے خون سے ریگِ عرب کو ایسا رنگ دیا کہ وہ اپنے ساتھ باطل عقائد، معاشرتی اور معاشی برائیوں کو لپیٹ کر لے گئی اور اسلامی تصورات وضاحت کے ساتھ لوگوں کی نگاہ کا دائمی مرکز بن گئے۔
بعض نام نہاد مفکر اور جاہل عالم بڑے طنطنہ سے گویا ہوتے ہیں کہ اقدامِ حسینؓ تو امارت گیری کے لیے تھا۔ ہم انھی جعل سازوں سے پوچھتے ہیں کہ دنیا میں جتنے اصلاحی انقلابات رونما ہوئے ان کا مقصد کیا تھا؟ انقلابِ برطانیہ ۱۶۸۸، انقلابِ فرانس ۱۷۸۹-۱۷۹۹، انقلابِ ہند ۱۹۴۷، اور اس ضمن میں تحریکِ آزادی، انقلابِ روس ۱۹۱۷، دونوں عظیم جنگیں، اور انقلابِ ایران ۱۹۷۸-۱۹۷۹، وغیرہ کا آخر منتہیٰ کیا تھا۔ حق یہ ہے کہ جب اہلِ اقتدار ہی ہر برائی کا منبع و مرجع ہوں تو اصلاح و تجدید امارت و حکومت کا ہی تقاضا کرتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا انکار صرف غیرمتوازن ذہن ہی کر سکتا ہے۔
ہمارے اس فکر و نظر پر شہادتِ حسینؓ کے عواقب گواہ ہیں۔ اسی شہادتِ عظمیٰ کے بعد علماء و فقہاء پر اسلامی ریاست کے بنیادی اصول واضح ہوئے اور اسلامی نظامِ حلت و حرمت کے تہ و بالا کرنے سے کیا کیا فسادات اور برائیاں واقع ہوتی ہیں اسی شہادت نے ان تمام معیاراتِ اسلام کو جاگزین بھی کیا اور رائج بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان سیاسی اور مذہبی مسائل پر فقہ و کلام میں عقائد و اعمال کے تحت ابوابِِ امارت و امامت باندھے گئے اور یزید کے فسق و فجور پر تمام آئمۂ مجتہدین نے اتفاق کرتے ہوئے اسے موردِ لعنت ٹھہرایا۔ امام ہیتمی رقمطراز ہیں کہ:’’فسقِ یزید پر اتفاقِ علماء کے بعد ان کے درمیان یزید پر خصوصاً نام لے کر لعنت بھیجنے کی بابت اختلاف ہے۔ لہٰذا ایک گروہ جس میں ابن الجوزی اور امام احمد بن حنبل وغیرہ شامل ہیں یزید کا نام لے کر اس پر جوازِ لعنت کے قائل ہیں… امام احمد بن حنبل نے فرمایا:کیا کوئی اللہ پر ایمان رکھنے والا یزید سے دوستی کر سکتا ہے؟ اور کیوں نہ اس شخص پر لعنت کی جائے جس پر خود اللہ نے اپنی کتاب میں لعنت بھیجی ہے؟ پوچھا:اللہ نے اپنی کتاب میں کہاں یزید پر لعنت بھیجی ہے؟ آپ نے کہا: اللہ نے اپنے اس ارشادمیں:
فَهَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْۤا اَرْحَامَكُمْ۝۲۲ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمْ وَ اَعْمٰۤى اَبْصَارَهُمْ۝۲۳ (سورۃ محمد:22 ــ- 23)
’’سو تم سے تو کچھ بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو زمین میں فساد پھیلاؤ گے اور اپنی قرابتوں کو قطع کر دو گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے، انھیں حق سے بہرا کر دیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں‘‘
تو کیا کوئی فساد قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘ (الصواعق المحرقہ:۲/635) بلکہ شرح فقہ اکبر میں امام احمد بن حنبل سے تکفیرِ یزید منقول ہوئی ہے۔ ابن ہمام رقمطراز ہیں:
’’یزید کی تکفیر میں اختلاف کیا گیا ہے بعض نے اسے کافر کہا ہے کیونکہ اس سے وہ باتیں مروی ہیں جو اس کے کفر پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً: وہ شراب کو حلال سمجھتا تھا؛ حسینؓ اور آپؓ کے ساتھیوں کو قتل کے بعد اس نے یہ خرافات بکی کہ: بدر میں جو کچھ انھوں نے میرے قریشی بڑوں اور رئیسوں سے کیا تھا میں نے حسین اور اہلِ بیت کو قتل کر کے ان کا بدلہ لے لیا ہے۔ اور اس طرح کی اور بہت سی باتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل نے یزید کو کافر کہا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یزید کے بارے میں یہ رپورٹ صحیح ثابت ہے۔‘‘ (شرح الفقہ الاکبر: علی قاری،ص: ۲۱۸)
اور اہلِ بصیرت جانتے ہیں کہ جب کوئی بات امام احمد بن حنبل کے ہاں صحیح ثابت ہو تو اس کی کیا اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام شوافع اور حنابلہ یزید پر لعنت بھیجنے کے قائل ہیں۔ ابن الجوزی بیان کرتے ہیں کہ:’’قاضی ابویعلیٰ نے ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں انھوں نے ان حضرات کا ذکر کیا ہے جو مستحقِ لعنت ہیں ان میں انھوں یزید کا بھی ذکر کیا ہے اس کے جواز میں ابویعلیٰ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ:
’’جس نے اہل مدینہ کو ظلماً خوف میں مبتلا کیا اسے اللہ خوف میں ڈالے گا۔ اور ایسے شخص پر اللہ کی، تمام فرشتوں اور لوگوں کی یک مشت لعنت ہے‘‘
اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یزید نے اہلِ مدینہ پر لشکرکشی کی اور انھیں دہشت زدہ کیا۔ (الصواعق المحرقہ:۲/۶۳۵)
یہاں پر فقیہِ شافعی الہراسی نے بڑی دلچسپ بات کی ہے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سلف صالحین یزید پر کس طرح سے لعنت کرنے کے قائل ہیں تو اس ضمن میں ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل میں سے ہر ایک کی طرف سے دو قول منقول ہیں: تصریح اور تلویح۔ لیکن ہمارا (شافعیہ) کا صرف ایک ہی قول ہے اور وہ ہے تصریح (کھلم کھلا وضاحت کے ساتھ لعنت کرنا) اور ایسا کیوں نہ ہو؟ یزید چیتوں کا شکار کرتا تھا؛ نَردبازی کرتا تھا اور شراب کا عادی تھا۔‘‘ (حیاۃ الحیوان:۲/۳۰۶)
اسی بات کی توثیق کرتے ہوئے صاحبِ نبراس رقمطراز ہیں:
’’کچھ علماء نے یزید پر عام لعنت کا اطلاق کیا ہے ان میں سے ایک ابن الجوزی ہیں جنہوں نے یزید پرجوازِ لعنت کے باب میں ایک کتاب لکھی ہے اسی طرح سے احمد بن حنبل ہیں جنہوں نے یزید پر جواز لعنت کے سلسلے میں قرآن سے استدلال کیا ہے اور ابویعلیٰ ہیں جنہوں نے حدیث سے استدلال کیا ہے اور یہ سب کچھ درست ہے کیونکہ اس نے مدینہ پر لشکرکشی کی یہاں تک کہ اہل مدینہ کی قتل و غارت کی اور ان پر بھاری ظلم کیا۔ اور یزید نے قتلِ حسین کا حکم صادر کر دیا تو وہ کافر ہو گیا کیونکہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے بھی حسین کو قتل کیا، یا قتل کا حکم دیا، یا آپ کے قتل کی اجازت دی، یا اس پر خوش ہوا وہ لعنت کا مستحق ہے۔‘‘ (النبراس:۷۰۰/۷۰۱)
حق یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ فقہ و کلام اور تفسیروحدیث کا یقینی موضوع بن جائے تو وہ تاریخ کے دائرے سے نکل کر عقائد میں داخل ہو جاتا ہے لہٰذا بعض حضرات کا یہ گمان کہ شہادتِ حسینؓ صرف ایک تاریخی واقعہ ہے صرف جزوی بیان ہے کیونکہ تاریخی حقیقت کا انکار ممکن ہے مگر فقہی و کلامی اور تفسیری و احادیثی حقیقت کا انکار گمراہی ہے۔ چونکہ تمام محدثین و مفسرین اور فقہاء و کلامیین نے شہادتِ حسینؓ اور مسئلہ یزید کو فقہ و کلام کا موضوع ٹھہرایا ہے لہٰذا یہ ایک دینی حقیقت ہے جس کا فیصلہ صرف قرآن و سنت کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اور علمائے حق کا یہ فیصلہ بہر آئینہ اقدام و شہادتِ حسینؓ کی تجویز و تحسین ہے اور ہر سطح پر یہی اصلِ حقیقت ہے۔ محمد علی جوہر نے اسی حقیقت کے پیشِ نظر کہا تھا: ؏
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد