شہاد ت علی 1,087

شھادت علی کرم اللہ وجہہ از: مفتی گلزار احمد نعیمی

شھادت علی کرم اللہ وجہہ

از مفتی گلزار احمد نعیمی

مرکزی صدر جماعت اہل حرم پاکستان

پرنسپل جامعہ نعیمیہ اسلام آباد

آج اکیس رمضان المبارک ہے،آج تاجدار ھل اتی، علی مشکل کشا،عبد من عبید مصطفے،سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یوم شھادت ہے۔تمام اہل اسلام کی خدمت میں ھدیہ تعزیت عرض کرتا ہوں۔40ھ کو ایک لعین ابن ملجم نے 19 رمضان مبارک کی صبح آپ پر نماز کی حالت میں وار کیا، جونہی پرودہ آغوش مصطفے کے سر پر لعین نے وار کیا تو آپ نے نعرہ مستانہ بلند کیا” فزت برب الکعبہ“رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
حضرت مولی علی کی شخصیت وہ شخصیت ہے کہ رسول اللہ کے بعد اگر ہمیں پوری امت میں علم و عرفان کی اعلی بلندیوں پر کوئی شخصیت نظر آتی ہے تو وہ علی کی ہی شخصیت ہے۔آپ سے قبل تینوں اکابر امت بزرگ خلفاء نے ہر معاملہ میں آپ سے مشورہ طلب کیا اور آپکو سب پر اہمیت دی۔خلیفئہ دوئم تو آپ کو قدم بقدم ساتھ رکھتے تھے۔سیدنا عمر فاروق نے تو یہاں تک فرما دیا کہ عمر اس قوم کے اندر رہنے سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے کہ جس میں ابوالحسن علی جیسی شخصیت موجود نہ ہو۔خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے ساتھ جو اظہار محبت وشفقت فرمایا وہ ناقابل بیان ہے۔متعدد احادیث آپکے عزت وشرف پر دال ہیں۔رسول اللہ کے صحابہ واہل بیت میں سب زیادہ فضیلت والی احادیث کا اعزاز رکھتے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں نظر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیا فقال یاعلی! انت سید فی الدنیاوسید فی الاخرۃ،حبیبک حبیبی وحبیبی حبیب اللہ وعدوک عدوی وعدوی عدو اللہ،ویل لمن ابغضک بعضی۔(الحاکم، المستدرک الرقم۔4640)ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی کو دیکھا اور فرمایا اے علی! تم دنیا اور آخرت میں سردار ہو،تیرادوست میرا دوست اور میرا دوست اللہ کا دوست،تیرا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن اللہ کا دشمن،تباہی ہے اس کے لیے جو میرے بعد تجھ سے بغض رکھے۔
مدینہ کی مشہور مواخات میں جب سرکار نے مہاجرین وانصار کو رشتہ اخوت میں منسلک فرما دیا تو علی پریشانی میں حاضر ہوئے۔”مجھے آپ نے کسی کا بھائی نہیں بنایا؟”کونین کے سردار محبت سے رخ انور علی کی طرف پھیرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں “انت اخی فی الدنیا والآخرۃ“علی تم میرے اس جہان میں بھی بھائی ہو اور آخرت میں بھی بھائی ہو۔غزوہ تبوک میں آپکو سرکار نے مدینہ طیبہ کی امارت سپرد کی اور آپکو مدینہ میں چھوڑ کر سرکار تبوک کی طرف روانہ ہوگئے۔جب منافقین نے طعنے دیے تو علی لشکر کے پیچھے پہنچ گئے اور سرکار کو جاکر عرض کی”حضور!میں نے کبھی بھی ابتداء سے لیکر آج تک راہ خدا میں جان لڑا دینے سے پشت نہیں پھیری۔اس دفعہ مجھے آپ راہ خدا میں جہاد سے کیوں محروم فرما رہے ہیں؟کائنات کے تاجدار نے تاجدار ھل اتی کو پیار کی نظروں سے دیکھا اور فرمایا”انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی لکن لا نبی بعدی“(بخاری )میری جان !تم میرے لیے ایسے ہی ہو کہ جیسے موسی کے لیے ہارون تھے مگر فرق یہ ہے کہ میرے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔
مردوں میں رسول اللہ کے بعد سب سے پہلے بارگاہ خدا میں اپنی گردن جھکانے والا اس شان سے میدان رزم اترتا کہ دنیا کی خواہش ہی رہی کہ ہم علی کی گردن کو جھکا سکیں لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔خود فرماتے تھے کہ میدان کارزار میں مجھےپرواہ نہیں ہوتی کہ موت میری طرف آرہی ہے کہ میں موت کی طرف جارہا ہوں۔غزوہ بدر میں اپنی شمیر ذوالفقار سے کشتوں کے پشتے لانے والا میدان کا ہیرو علی تھا جس اپنی پہلی جنگ میں 35دشمنان خدا کو جھنم واصل کیا تھا۔میدان احد میں جب مسلمانوں کو پسپائی ہوئی تو سب بھاگ کر چلے گئے،مگر رسول کی ذات پر پہرہ دینے والا علی ڈٹا رہا۔خیبر میں مرحب کی مبارزت کا کیا خوب جواب دیا تھا مرحب نے کہا:قد علمت خیبر انی مرحب۔پورا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔مولی علی نے فرمایا:
انا الذی سمتنی امی حیدرا۔۔
کلیث غابات کریہ النظر
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے۔جھاڑیوں سے برآمد ہونے والے ہیبت ناک شیر جیسا۔
عرفاء نے اس شیر پر کلام کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے مرحب کے سامنے اپنے آپ کو ہیبت ناک شیر اس لیے کہا کہ آپ نے بذریعہ کشف یہ معلوم کر لیا تھا کہ رات کو مرحب نے خواب دیکھا ہے کہ اس پر ایک شیر حملہ آور ہوا اور اسے چیر پھاڑ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔آپ نے “کلیث” فرما کر اسے یاد دلایا کہ رات کو خواب میں کوئی اور شیر تجھ پر حملہ آور نہیں ہوا بلکہ یہ وہی مصطفے کا شیر ہے جو تیرے سامنے کھڑا ہے اور تجھ پرحملہ کر کے تجھے ٹکڑوں میں بدلنا چاہتا ہے۔جب مرحب کا کام تمام کیا اوردرخیبر اکھاڑ پھینکا تو سرکار نےاپنی خوشی اور اللہ کی رضا کا پروانہ علی کو تھماتے ہوئے فرمایا:رضی اللہ عنک ورضیت عنک۔اے علی اللہ بھی تجھ سے راضی ہے اور میں بھی تجھ سے خوش ہوں۔قبولیت کی اس گھڑی میں علی کی چشمان مقدسہ سے آنسو رواں دواں تھے۔اسی طرح جنگ خندق میں بھی مرد میدان علی ہی تھے۔
جب آپ اس خراجی ابن ملجم کے وار سےزخمی ہوئے اور اسکو گرفتار کر لیا گیا اور آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا اسکی رسیاں کھول دو اور اسے پانی پلاو۔اپنے قاتل کے ساتھ ایسا سلوک کوئی پرودہ آغوش مصطفے ہی کر سکتا یے۔جب آپ کو یقین ہوگیا کہ اب اس وار سے جانبر ہونا مشکل ہے تو اس وقت آپ نے ایک وصیت تحریر کروائی جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔میں اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔آپ نے حضرات حسنین کریمین کو مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔

میں تمہیں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔

وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔

اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو۔

وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔

اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا۔

وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔

اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔

وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔

اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔

وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔

اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔

اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔

میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔

وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔

اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔

دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔

دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہےآپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔

اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔

نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔

اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا۔

فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔

کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔

اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔

وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔

تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔

لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔

دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔

یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔

اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔

أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔

دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔

اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”
اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔

دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
کیا نصیحتیں ہیں!کیا اعلی فکر ہے۔اس سے بڑھ کر کوئی شخص اپنی اولاد کو کیا دے سکتا ہے۔اللہ سے دعاء ہے کی وہ امیرالمومنین کے درجات بلند فرمائے اور ہمارا حشر قیامت کو انہی کے ساتھ فرمائے

ہمارے دوست جناب انتظار حیدری جی نیوز کی مولا علی پر بہت ہی اعلی ڈاکیومنڑی۔اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

Posted by Jamia Naeemia Islamabad on Monday, May 27, 2019