Seerat-ul-Nabi 173

سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ – ہجرت کا آغاز

اگلے سال قبیلہ خزرج کے دس اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مکہ آئے۔ان میں سے پانچ وہ تھے جو پچھلے سال عقبہ میں آپ ﷺ سے مل کر گئے تھے۔ان لوگوں سے بھی آپ ﷺ نے بیعت لی۔آپ ﷺ نے ان کے سامنے سورۃ النساء کی آیات تلاوت فرمائیں ۔
بیعت کے بعد جب یہ لوگ واپس مدینہ منورہ جانے لگے تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم ؓ کو بھیجا۔ آپ ﷺ نے حضرت ابو مصعب ؓ بن عمیر کو بھی ان کےساتھ بھیجاتا کہ وہ نئے مسلمانوں کو دین سکھائیں ،قرآن کی تعلیم دیں ۔انہیں قاری کہا جاتا تھا۔ یہ مسلمانوں میں سب سے پہلے آدمی ہیں جنہیں قاری کہا گیا۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز پڑھانا شروع کی۔ سب سے پہلا جمعہ بھی انہوں نے ہی پڑھایا۔جمعہ کی نماز اگرچہ مکہ میں فرض ہو چکی تھی،لیکن وہاں مشرکین کی وجہ سے مسلمان جمعہ کی نماز ادا نہیں کر سکے۔سب سے پہلا جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد چالیس تھی۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے مدینہ منورہ میں دین کی تبلیغ شروع کی تو حضرت سعد بن معاذ اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت اسید بن حضیر ؓ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو گئے۔ان کے اسلام لانے کے بعد مدینہ میں اسلام اور تیزی سے پھیلنے لگا۔
اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر ؓ حج کے دنوں میں واپس مکہ پہنچے۔مدینہ منورہ میں اسلام کی کامیابیوں کی خبر سن کر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے۔ مدینہ منورہ میں جو لوگ اسلا م لا چکے تھے ان میں سے جو حج کے لئے آئے تھے انہوں نے فارغ ہونے کے بعد منی میں رات کے وقت آپ ﷺ سے ملاقات کی۔جگہ اور وقت پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ان لوگوں کے ساتھ چونکہ مدینہ سے مشرک لوگ بھی آئے ہوئے تھے اور ان سے اس ملاقات کو پوشیدہ رکھنا تھا،اس لئے یہ ملاقات رات کے وقت ہوئی۔یہ حضرات کل ۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تھیں ۔ملاقات کی جگہ عقبہ کی گھاٹی تھی۔وہاں ایک ایک دو دو کر کے جمع ہو گئے۔اس مجمع میں ۱۱ آدمی قبیلہ اوس کے تھے۔پھر آپ ﷺ تشریف لائے۔
آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلبؓ بھی ساتھ تھے۔ان کے علاوہ آپ ﷺ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ حضرت عباس ؓ بھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اس وقت آپ ﷺ گویا اپنے چچا کے ساتھ آئے تھے تا کہ اس معاملہ کو خود دیکھیں ۔ایک روایت کے مطابق اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت علی ؓ بھی ساتھ آئے تھے۔سب سے پہلے حضرت عباس ؓ نے ان کے سامنے تقریر کی۔انہوں نے کہا:
تم لوگ جو عہد و پیمان ان (رسول اللہ ﷺ) سے کرو،اس کو ہر حال میں پورا کرنا،اگر پورا نہ کر سکو تو بہتر ہے کہ کوئی عہد و پیمان نہ کرو ‘‘۔
اس پر ان حضرات نے وفا داری نبھانے کے وعدے کیے۔ تب نبی اکرم ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا:
تم ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔۔۔اپنی ذات کی حد تک یہ کہتا ہوں کہ میری حمایت کرو اور میری حفاظت کرو۔‘‘
اس موقع پر ایک انصاری بولے:
اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اس کے بدلے تمہیں جنت ملے گی۔‘‘
اب وہ سب بول اٹھے:
یہ نفع کا سودا ہے ہم اسے ختم نہیں کریں گے۔
اب ان سب نے نبی ﷺ سے بیعت کی حضور ﷺ کی حفاطت کا وعدہ کیا۔حضرت براء بن معرور ؓ نے کہا:
ہم ہر حال میں آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے آپ ﷺ کی حفاطت کریں گے۔‘‘
حضرت براء بن معرور ؓیہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ ابو الہیثم بن التیہان ؓ بول اٹھے:
چاہے ہم پیسے پیسے کو محتاج ہو جائیں اور چاہے ہمیں قتل کر دیا جائے، ہم ہر قیمت پر آپ ﷺ کا ساتھ دیں گے۔‘‘
اس وقت حضرت عباس ؓ بولے:
ذرا آہستہ آواز میں بات کرو۔۔۔کہیں مشرک آواز نہ سن لیں ‘‘۔
اس موقع پر ابو الہیثم ؓ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اب ہم ان کو توڑ رہے ہیں ،ایسا تو نہیں ہو گا کہ آپ ﷺ ہمیں چھوڑ کر مکہ آجائیں ۔‘‘
یہ سن کر آپ ﷺ مسکرائے اور فرمایا:
نہیں ! بلکہ میرا خون اور تمہارا خون ایک ہے،جس سے تم جنگ کرو گے اس سے میں جنگ کروں گا ،جسے تم پناہ دو گے اسے میں پناہ دوں گا۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے ان سے بارہ آدمی الگ کیے یہ نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے تھے-آپ نے ان سے فرمایا:
“تم میرے جاں نثار ہو…میرے نقیب ہو -”
ان بارہ حضرات میں یہ شامل تھے-
سعد بن عبادہ،اسعد بن رواحہ٬براء بن معرور ابوالہیثم ابن التیہان،اسید بن حضیر،عبداللہ بن عمرو بن حزام، عبادہ بن صامت اور رافع بن مالک رضی اللہ عنہم -ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کا نمائندہ تھا آپ ﷺ نے ان جاں نثاروں سے فرمایا:
“تم لوگ اپنی اپنی قوم کی طرف سے اس طرح میرے کفیل ہو جیسے عیسی علیہ السلام کے بارہ حواری ان کے کفیل تھے اور میں اپنی قوم یعنی مہاجروں کی طرف سے کفیل اور ذمے دار ہوں -”
اس بیعت کو بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے- یہ بہت اہم تھی- اس بیعت کے ہونے پر شیطان نے بہت واویلا کیا،چیخا اور چلایا کیوں کہ یہ اسلام کی ترقی کی بنیاد تھی-
جب یہ مسلمان مدینہ پہنچے تو انہوں نے کھل کر اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا-اعلانیہ نمازیں پڑھنے لگے-مدینہ منورہ میں حالات سازگار دیکھ کر نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا کیونکہ قریش کو جب یہ پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک جنگجو قوم کے ساتھ ناطہ جوڑ لیا ہے اور ان کے ہاں ٹھکانہ بنالیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کا مکہ میں جینا اور مشکل کردیا،تکالیف دینے کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ اب تک ایسا نہیں کیا تھا -روز بروز صحابہ کی پریشانیاں اور مصیبتیں بڑھتی چلی گئیں -کچھ صحابہ کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے آزمائے گئے،طرح طرح کے عذاب دیے گئے-آخر صحابہ نے اپنی مصیبتوں کی فریاد آپ ﷺ سے کی اور مکہ سے ہجرت کر جانے کی اجازت مانگی-حضور اکرم ﷺ چند دن خاموش رہے-آخر ایک دن فرمایا:
“مجھے تمہاری ہجرت گاہ کی خبر دی گئی ہے…وہ یثرب ہے (یعنی مدینہ)-”
اور اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے انہیں ہجرت کرنے کی اجازت دے دی-اس اجازت کے بعد صحابہ کرام ایک ایک دو دو کرکے چھپ چھپا کر جانے لگے- مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے نبی اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا، انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا-مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ فرمایا،اسی طرح حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد ابن ابی وقاص کے درمیان، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے درمیان،حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اور حضرت علی رضی اللہ کو خود اپنا بھائی بنایا-
مسلمانوں میں سے جن صحابہ نے سب سے پہلے مدینہ کی طرف ہجرت کی، وہ رسول اکرم ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبد اللہ مخزومی رضی اللہ عنہ ہیں -انہوں نے سب سے پہلے تنہا جانے کا ارادہ فرمایا-جب یہ حبشہ سے واپس مکہ آئے تھے تو انہیں سخت تکالیف پہنچائی گئی تھیں -آخر انہوں نے واپس حبشہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر پھر انہیں مدینہ کے لوگوں کے مسلمان ہونے کا پتا چلا تو یہ رک گئے اور ہجرت کی اجازت ملنے پر مدینہ روانہ ہوئے-مکہ سے روانہ ہوتے وقت یہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور اپنی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور اپنے دودھ پیتے بچے کو بھی ساتھ سوار کرلیا – جب ان کے سسرال والوں کو پتا چلا تو وہ انہیں روکنے کے لیے دوڑے اور راستے میں جا پکڑا-ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں